معاشرے کی بہتری کیلئے بارش کا پہلا قطرہ بننے میں دیر نہ کریں

May 22, 2019

علامہ ڈاکٹر کوکب نورانی اوکاڑوی کثیر الصفات شخصیت کے مالک ہیں، مجدد مسلک اہل سنت، بانی جماعت اہل سنت، خطیب اعظم، عاشق رسولﷺ، حضرت مولانا محمد شفیع اوکاڑوی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند و جانشین ہیں۔ حکومت پاکستان کی طرف سے وزیر و مشیر کے منصب کی کئی بار پیشکش ہوئی لیکن صرف یہ کہہ کر منع کردیا کہ جھوٹ نہیں بول سکتا اور غلط کو صحیح نہیں کہہ سکتا۔ ہر دلعزیز دینی اور روحانی شخصیت، پانچ بُرورِ اعظم میں صرف نبی پاک ﷺ کے ذکر کی برکت سے جا چکے ہیں ، 51 ممالک کا سفر اور 10 ہزار سے زائد مرتبہ بڑے اجتماعات سے خطاب کئے، 1969ءسے اب تک ٹیلی ویژن پر تقریباً پانچ ہزار سے زائد پروگرام کر چکے ہیں۔ دو درجن کے قریب کتابیں تحریر کی ہیں، اُن کے انگریزی، عربی، پشتو اور بنگالی تراجم آرہے ہیں، فرنچ زبان میں بھی ایک ترجمہ ہوا ہے۔ والد صاحب کے نام سے مولانا اوکاڑوی اکیڈمی (العالمی )بنائی ہے اس کے تحت پوری دُنیا میں کام ہورہے ہیں۔ ہر وقت ہر لمحہ علم و عمل میںمشغول رہتے ہیں۔ مسجد گلزار حبیب میں خطابت کرتے ہیں ، گلزار حبیب ٹرسٹ کے چیئرمین ہیں، کئی مساجد اور پانچ مدرسے ان کے زیراہتمام ہیں۔ رمضان میں روزانہ تراویح کے بعد درس قرآن بھی دیتے ہیں ، علامہ کوکب نورانی ان دنوں جیو ٹی وی کی احساس رمضان نشریات میں بہ طور خاص شریک ہیں انکے مشورے ، انکی دینی معلومات سے کروڑوں لوگ استفادہ کرتے ہیں ، نہایت شفیق اور دھیمے لہجے میں گفتگو کرتے ہیں اور اپنی باتوں سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالیتے ہیں ، گزشتہ ہفتے ہم نے ان سے تفصیلی گفتگو کی ،جو نذر قارئین ہے۔

٭… آپ کے والد صاحب کی وطن اور اسلام کیلئے بہت خدمات رہی ہیں، اُس پر کچھ روشنی ڈالیں؟۔

علامہ کوکب نورانی … میرے والد کی ولادت سے ایک سال قبل پہلے بہت مشہور بزرگ نقشبندی شیر ربانی حضرت میاں شیر محمد صاحب شرف پوری ؒ نے میرے دادا جان کرم الٰہی کویہ بشارت سنائی تھی کہ تمہارے گھر سے نور کی نہریں چلیں گی، دادا جان اس وقت یہ مطلب نہیں سمجھے بعد میں اُنہیں تعبیر بتائی گئی کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ایسی اولاد دے گا جس سے دین پھیلے گا ۔ میرے والد صاحب قبلہ تحریک پاکستان میں بھی شامل رہے، پاکستان بننے کے بعد تحریک ختم نبوتﷺ میں پھر تحریک دفاع پاکستان اورتحریک اتحاد بین المسلمین میں رہے۔ میرے والد کی بہت خدمات ہیں ۔ اُنہوں نے اپنی پوری زندگی سادگی لیکن وقار کے ساتھ گزاری ۔ دین ہمارے ہاں اولین ترجیح ہے ۔ حضورﷺ کا عشق اُن کی نسبتوں کا ادب، اہل بیت و اطہار، صحابہؓ، اولیاؤں سے تعلق ہے، ہمیں شروع سے یہی سکھایا گیا ہے کہ اگر نام چاہئے تو کام سے حاصل کرو۔ سستی شہرت سے نہیں، کام کرو گے تو نام بھی رہے گا اور ثواب بھی ملے گا۔ لہٰذا ہمیں خدمت ، عاجزی اور سادگی سکھائی گئی ہے۔

٭… آپ کتنے بھائی ہیں؟۔

علامہ کوکب نورانی … میرے دو بھائی ہیں، دو مجھ سے بڑے تھے جو 1952-53ء میں جب والد صاحب تحریک ختم نبوت کے سلسلے میں جیل میں تھے تو ایک بھائی پونے تین سال اور ایک سوا سال کا تھا ان دونوں کاایک ہفتے میں انتقال ہو گیا تھا، اس وقت یہ والد صاحب کا بہت بڑا امتحان تھا۔ اِس وقت مجھ سمیت تین بھائی ہیں، ایک بھائی ڈاکٹر محمد سبحانی نے نیوکلیئر فارمیسی میں پی ایچ ڈی کیا ہے، اُنہیں کینیڈا کی حکومت نے ریسرچ کیلئے وہاں بلایا وہ اپنے شعبے کے نمایاں افراد میں سے ہیں۔ دوسرے بھائی حامد ربانی کاروبار کرتے ہیں اس کے علاوہ والد صاحب کی تقاریر اور ریکارڈنگ کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں۔ عمر میں دونوں مجھ سے چھوٹے لیکن صلاحیت اور قابلیت میں مجھ سے بڑے ہیں۔

٭… آپ مختلف اخبارات اور جرائد کیلئے لکھتے ہیں؟۔

علامہ کوکب نورانی … میں دیگر اخبارات کے ساتھ ساتھ جنگ کو بھی لکھ کر دیتا تھا۔ میں تو بہت چھوٹی عمر سے رسائل و جرائد میں چھپ رہا ہوں۔ لاہور سے بچوں کی دُنیا نکلتا تھا اس میں چھپا، ایک اخبار ’’آئینہ‘‘ نکلتا تھا اس میں مذہبی مضمون لکھتا تھا، کئی لوگ اپنے اخبارات کیلئے مجھ سے مذہبی مضامین لیتے تھے۔ اس کے علاوہ میں نے اسپورٹس پر بھی لکھا ہے، چھوٹے چھوٹے افسانے بھی لکھے ہیں۔ میں نے اخبارات و جرائد میں اتنا کچھ لکھا ہے کہ اب تو یاد بھی نہیں ہے۔ بہت سے دوست مجھ سے خطوط لکھوایا کرتے تھے، قلمی ناموں سے بھی بہت کچھ لکھا ہے۔

٭… یعنی آپ کے اندر صحافی بننے کی خواہش موجود تھی؟۔

علامہ کوکب نورانی … صحافی نہیں رائٹر کہہ لیجئے۔ میں بہت سی کتابیں بھی لکھ چکا ہوں، لکھ لکھ کر اُنگلیوں میں ترچھاپن آگیا ہے۔ لکھنا شوق نہیں بلکہ جنون بن گیا تھا۔

٭… لکھنے کیلئے قلم استعمال کرتے ہیں یا کمپیوٹر ؟

علامہ کوکب نورانی … کمپیوٹر یا آئی پیڈ کا استعمال صرف ریسرچ کی حد تک کرتا ہوں ورنہ اب تک میں کتابوں سے جڑا ہوا ہوں۔ جب لیپ ٹاپ نیا نیا آیا تھا اس وقت میں امریکا گیا ہوا تھا۔ دوستوں نے لیپ ٹاپ کی بہت تعریفیں کیں اور کہا کہ تمہیں لیپ ٹاپ دے دیتے ہیں تمہارے لئے کام بہت آسان ہو جائے گاوہ مجھےایک دُکان میں لے گئے۔ اس دُکان کے سرکل کی جو انچارج تھی اس نے پوچھا لیپ ٹاپ کس کیلئے لینا ہے؟۔ دوستوں نے میری جانب اشارہ کرکے کہا اِن کیلئے لینا ہے، اُس نے مجھ سے کہا، میں آپ سے کچھ باتیں کرسکتی ہوں؟۔ میں نے کہا ضرور کریں۔ اس نے پوچھا آپ لیپ ٹاپ کیوں لینا چاہتے ہیں؟۔ میں نے بتایا کہ میرے دوست مجھ سے کہہ رہے ہیں۔ پھراس نے پوچھا آپ کیا کرتے ہیں، میں نے بتایا تو پھر کہنے لگی کہ میں آپ کو لیپ ٹاپ لینے کا ہر گز مشورہ نہیں دوں گی، کیونکہ آپ کا سارا دماغ اس میں چلا جائے گا اور آپ خالی ہو جائیں گے پھر اس کے بغیر آپ چل نہیں سکیں گے۔ ابھی آپ کو کتابوں کے صفحہ نمبر تک یاد ہیں ۔اس زمانے میں مجھے تین چار سو ٹیلیفون نمبر یاد تھے۔ اب تو مشینی دور آگیا ہے، پہلے ہم آرام سے حساب کتاب کرلیتے تھے اب کیلکولیٹرکے بغیر حساب کتاب نہیں ہوتا۔ آپ دیکھ لیں جب سے یہ ٹیلیفون آئے ہیں ، ہمیں اپنا نمبر بھی دیکھنا ہو تو ٹیلیفون دیکھتے ہیں۔

٭… پہلے جو رمضان نشریات ہوتی تھیں کیا اُس میں آپ کسی اور کے توسط سے آتے تھے؟۔

علامہ کوکب نورانی … ہرگز نہیں۔ 1969؁ء سے پی ٹی وی پر رمضان کے پروگرام چل رہے ہیں۔ آپ کے چینل پر مجھے سید آفتاب عظیم لائے تھے۔ انبیاء پر مشتمل ایک پروگرام تھا ،جس میں عبید اللہ بیگ اور جنرل غلام عمر وغیرہ شامل تھے وہ جیو چینل کی ابتداء تھی۔ اس کے علاوہ بھی مجھے ایک دو مرتبہ بلایا گیا لیکن میں نہیں آیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر عامر لیاقت نے مجھے ’’عالم آن لائن‘‘ میں بلایا۔ میرے الگ سے پروگرام بھی ریکارڈ ہوئے ہیں۔ یعنی 30-30 پروگرام کے متعدد سیٹ تیار ہوئے۔ سب سے کامیاب پروگرام ’’تحفہ درود و سلام‘‘ تھا جس کو لوگوں نے بہت زیادہ سراہا۔ میرا ایک پروگرام تھا ’’میرے سرکار کے قدم پہنچے‘‘ وہ رمضان نشریات سے پہلے کا ہے اور کئی برس کامیابی سے چلتا رہا۔ اس کے بعد کربلا کے واقعہ پر پروگرام ریکارڈ کرایا جو تقریباً ہر چینل نے مسلسل 10 برس چلایا۔

٭… رمضان نشریات پہلے بھی ہوتی تھیں، لیکن اب کافی تبدیلی آگئی ہے اُسے آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟

علامہ کوکب نورانی … رواں برس رمضان نشریات میں کافی فرق آگیا ہے۔ میں اب بھی یہ کہوں گا کہ رمضان کے تقدس کا تو خون پی گئے تھے لوگ، یا تو رمضان نشریات کو اِنہوں نے گیم شو بنا دیا تھا یا پھر لوگوں کو تحائف کے لالچ پر لگا دیا تھا۔ ہر آدمی میں ندیدہ پن چھلک رہا تھا اس سے تاثر کیا جارہا تھا؟ سچی بات تو یہ ہے لوگوں نے اسے کمرشلائز ہی نہیں کیا بلکہ محض تفریح کا ذریعہ بنا لیا تھا اور تفریح بھی بالکل نا مناسب۔ اس کے علاوہ وہ لوگ جنہیں دین کے لفظی معنی نہیں معلوم وہ میزبان بن گئے اور اُنہوں نے دین کے بارے میں منفی گفتگو زیادہ کی، بجائے اس کے کہ وہ دین کا کوئی مثبت پہلو سامنے لاتے۔ اور دین کی گفتگو بھی ایسے لوگوں سے کی جو متنازع یا بالکل نابلد تھے۔ ہمارے ہاں اسکرین کا کیا معیار ہے مجھے نہیں معلوم کہ لوگ کس سمت جارہے ہیں۔ لیکن کچھ چیزیں اس لئے اہم ہیں کہ ٹی وی اور میڈیا معلومات کا ذریعہ ہے تو ہمیں چاہئے کہ ہم اسے بہتر بنائیں، آپ لوگوں کی فرمائش پر نہ چلیں، لوگوں کا ایسا مزاج بنائیں کہ اگر اُنہیں تفریح بھی فراہم کرنی ہے تو اچھی تفریح دیں تاکہ پوری فیملی بیٹھ کر دیکھ سکے۔ اُنہیں یہ نہ لگے کہ باپ کے ساتھ جوان بیٹی یا بہو بیٹھی ہے تو ایک کو اُٹھ کر جانا پڑ جائے ایسا ماحول نہ ہو۔

٭… رمضان نشریات میں کس طرح بہتری لائی جاسکتی ہے؟۔

علامہ کوکب نورانی … میں جس دِن سے ٹی وی انڈسٹری میں آیا ہوں سب کو بہتری کے مشورے دیتا ہوں لیکن مجھے آگے سے جواب یہ ملتا ہے کہ جی ہم مجبور ہیں۔ ہم نے اشتہار لئے ہوئے ہیں، اُن کے یہی تقاضے ہیں، ہم اِس کے بغیر چل نہیں سکتے۔ تو پھر غیروں کی یہی محنت ہے نا کہ وہ ہمیں اس نہج تک لے آئے ہیں کہ ہم مال کیلئے اُن کی بات ماننے کو مجبور ہوجائیں۔ ایمان ، غیرت اور اخلاق کے تقاضے تو ہم نے پیچھے ڈال دیئے ہیں اور مال کیلئے خواہشات پوری کرنا شروع کردی ہیں تو یہ ہے رجحان جو چل رہا ہے…

٭… کیا اس میں بہتری نہیں آسکتی؟۔

علامہ کوکب نورانی … کیوں نہیں آسکتی، بات یہ ہے کہ جس دِن ہمارے ہاں سچ اور عدل آگیا ہماری اکثر بیماریاں دور ہوجائیں گی۔ بشرطیکہ یہ چیزیں آئیں لیکن کوئی لانا نہیں چاہتا کیونکہ یہ ڈر ہے کہ جو لائے وہ سب سے پہلے اِس کی زد میں خود آئے گا۔

٭… ’’جذبۂ خدمت‘‘ یا عمل کی تشہیر نیکی کو عام کرنے کا باعث بن سکتی ہے؟۔

علامہ کوکب نورانی … بعض صورتوں میں ایسا ہوسکتا ہے، ہرصورت میں نہیں۔ دیکھیں حضو ر ﷺ نے بھی ممبر پر کھڑے ہوکر لوگوں کو کہا کہ ہمیں جہاد پر جانا ہے اور نیکی کی ترغیب دی۔ دوسرے کو ترغیب دلانے کیلئے بہت اچھی بات ہے لیکن ہمارے ہاں چندہ کرنا، آرگنائزیشن چلانا بہت سے لوگوں کا کاروبار بھی ہے۔ وہ لوگوں سے عطیات لے کر ہڑپ کر جاتے ہیں اور ایسا ایک جگہ نہیں بلکہ کئی جگہ ہے اور اس عمل کو یقینا دوسرا آدمی معیوب سمجھتا ہے۔ اس طرح سے عوام کا اعتماد بھی اُٹھ جاتا ہے۔ ہم سے ایک سوال کیا گیاکہ آپ ٹیلی ویژن کیلئے اسپتال سے ایک معذور کو اُٹھا کر لاتے ہیں اور عطیات مانگتے ہیں، میں نے کہا کہ اگر یہ عمل نہ کریں تو پھر آپ پر اثر نہیں ہوگا، اب یہ دکھایا جارہا ہے تو آپ کو بُرا لگ رہا ہے۔ ایک اور مثال دیتا ہوں کہا جاتا ہے کہ اخبارات میں گند چھپتا ہے لیکن جب قرآنی آیات اور احادیث چھپتی ہیں تو کہتے ہیں کہ اس کی بے ادبی ہورہی ہے۔ آب جو کہہ رہے ہیں وہ کسی ایک جگہ چین تو لیں، جو لوگ تقاضہ کررہے ہیں اُنہیں چاہیئے کہ اپنا حصہ بھی ڈالیں۔ ہم صرف مطالبات کردیتے ہیں لیکن اپنی خدمات کچھ نہیں دیتے۔ میں نے کئی بار کہا ہے کہ کیا صفائی کوئی اختلافی مسئلہ ہے، اس میں مسالک یا مختلف مکاتب فکر کا کوئی اختلاف ہے؟۔ اگر ہماری مساجد، مدارس، گلی، محلوں، لباس ، گفتگو ، طور اطوار میں صفائیاں آجائیں توکتنی بہتری ہوگی ۔ اور مسلمان کیلئے تو صفائی نصف ایمان ہے، وہ کہاں گیا؟۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اگر ہم کسی مریض کو اسکرین پر لارہے ہیں اس میں جھوٹ نہ ہو، دکھاوا نہ ہو، مقصد نیک ہو تو ٹھیک ہے، اعمال کا دارومدار تو نیت پر ہوتا ہے۔ اگر آپ کی نیت میں گڑ بڑ ہوگئی ہے اور آپ اپنے چینل کی ریٹنگ کیلئے یہ سب کچھ کررہے ہیں تو پھر نیکی نہیں رہتی۔

٭… ہمارے نوجوان دین سے دور نظر آتے ہیں اس کی بنیادی وجہ کیا سمجھتے ہیں؟۔

علامہ کوکب نورانی … اس کی کئی وجوہات ہیں، ہمارے ہاں جوائنٹ فیملی سسٹم نہیں رہا، پہلے دادا، دادی ، نانا، نانی بچوں سے زیادہ قریب ہوتے تھے وہ اُن میں اپنی گفتگو سے بہت کچھ منتقل کردیتے تھے۔ دوسرا ٹی وی آگیا ہے اس نے ہمارے پورے کلچر کو بدل دیا ہے۔ پہلے 4 گھنٹے کا ٹی وی تھا اب 24 گھنٹے کا ہوگیا ہے اور بے شمار چینلز آگئے ہیں، اس ٹی وی نے ہمارا کلچر ، ہماری تہذیب، طور اطوار بدل دیا ہے، ہماری زندگی میں منفی اثر زیادہ آیا ہے کیونکہ ہماری قوم تعلیم یافتہ نہیں ہے اور میڈیا اُن ہاتھوں میں نہیں جو واقعی اہل ہوتے ۔ اس لئے اس کا منفی اثر زیادہ پڑا ہے جس کو کم کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ حکومتوں کی اپنی ترجیحات رہی ہیں اس کی وجہ سے کوئی نظام نہیں رہا، ایک نے ایک چیز کو پھیلانا چاہا دوسرے نے آکر اسے بند کرنا چاہا۔ ہمارے ہاں پیمرا بہت سی چیزوں کو نظر انداز کر جاتا ہے۔ قیادت، حکومت اور سیاسی باتوں کو تو وہ بہت اہمیت دیتے ہیں لیکن نبوت ، رسالت، دین اور اخلاقیات کو اہمیت نہیں دیتے۔ بعض اوقات بڑی باتوں کی پروا نہیں کرتے اور چھوٹی سی بات کو پکڑ لیتے ہیں تو اس میں بھی کوئی توازن نہیں ہے اور معاشرے بغیر عدل کے چلتے نہیں ہیں، ہمیں میڈیا کو ایجوکیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ چیز سب کو سوچنی چاہئے کہ ہم ذمہ دار ہیں، اگر ہماری وجہ سے کوئی چیز پھیل رہی ہے تو سارا وبال ہم پر آئے گا۔

٭… لیکن میڈیا تو کہتا ہے کہ ہم آئینہ دکھاتے ہیں؟۔

علامہ کوکب نورانی … میڈیا میں ایک طرف ہیں مالکان دوسری طرف اُن کا عملہ۔ مالکان کی مرضی کے بغیر عملہ کچھ نہیں کرسکتا۔ بعض جگہ مالکان کا مزاج اور بعض جگہ عملے کا مزاج ٹکراتا ہے اس میں بہتری لانے کیلئے اُنہیں سوچنا چاہئے اور یہ بات اُنہیں یاد رکھنی چاہئے کہ وہ آج جو بیج وہ بوئیں گے کل اُن کے گلے بھی آسکتا ہے۔

٭… کیا ہمارے والدین، استاتذہ اور عالم دین اپنے فرائض پورے نہیں کررہے جو ہماری نسل بگڑ رہی ہے؟۔

علامہ کوکب نورانی … پہلے اگر آپ کا بچہ کوئی غلطی کرتا اور کوئی تیسرا آدمی آکر ٹوک دیتا تو ہم اپنے ہی بچے کو کہتے تھے کہ بیٹا تم نے ہی کوئی غلطی کی ہوگی، کسی بڑے نے تمہیں ڈانٹا ہے تو صحیح ڈانٹا ہوگا۔ لیکن آج کے دور میں کوئی کسی بچے کو ڈانٹ دے تو گھر والے سب سے پہلے آکر بڑے کا گریبان پکڑ لیتے ہیں۔ تو ہم نے یہ مزاج بدل کر مادیت کو اپنی زندگی میں زیادہ کرلیا ہے، روحانیت اور اخلاقیات سے دور ہوگئے ہیں۔ نصاب دیکھ لیں تو صرف مال اور دُنیا کمانے کا ہے اس میں سے بھی اخلاقیات، دینیات سب نکل گئے، والدین کے پاس ٹائم نہیں رہا۔ مساجد کے ائمہ ، یہاں میں سب کی بات نہیں کررہا، اکثر یا تو تنخواہ لینے کیلئے ہیں یا پھر اُنہیں ایک ٹھکانہ مل جاتا ہے وہ محنت نہیں کرتے اور پھر لوگ بھی اُن کے ساتھ اُس طریقے سے وابستہ نہیں ہیں، بہت کم جگہیں ایسی ہوں گی جہاں کا امام پورے محلے میں مقبول بھی ہوگا اور لوگ اُسے سننا اور اس کے ساتھ بیٹھنا چاہیں گے، اساتذہ بھی کمرشلائز ہوگئے ہیں، پہلے تو ہمارے اساتذہ ہمیں اتنا پڑھا دیتے تھے کہ ہمیں ٹیوشن کی ضرورت نہیں ہوتی تھی اور اب وہ صرف وقت گزارتے ہیں تنخواہ لینے کیلئے۔ یہ تمام عوامل ہیں جس سے ہماری نسل بگڑ رہی ہے۔ لیکن میں اتنا کہوں گا کہ ہم میں سے ہر شخص اپنی ذمہ داری کو محسوس نہیں کررہا اور نہ پوری طرح اپنے فرائض ادا کررہا ہے، ہم سب بطور قوم مجرم ہیں۔ سب سے زیادہ اثر ہم پر غذا سے پڑتا ہے، غذا سے مراد یہ ہے کہ میں نے کتنا کام کرکے، کیسا کام کرکے کمایا ہے۔ یعنی آپ کے آفس کا ٹائم 8 بجے کا ہے اور آپ کتنے بجے آئے ہیں، آنے کے بعد آپ نے کتنا وقت اِدھر اُدھر ضائع کیا ہے، جو لوگ آپ کے انتظار میں بیٹھے ہیں آپ کو اُن کا بھی کوئی احساس نہیں ہے، اس کے بعد آپ کا موڈ نہیں تو آپ نے کہہ دیا کل آنا۔ اب کیا میری تنخواہ حلال ہوئی؟۔ میرے سامنے ایک بندے کی فائل رکھی ہے اور میں جان بوجھ کرکام نہیں کررہا کیا، وہ کمائی حلال ہوئی؟۔ جب میں اس طرح کی غذا کھا رہا ہوں اور وہی اولاد کو کھلا رہا ہوں تو کیا نتائج ہوں گے؟۔ اور پہلے تو رشوت کو اوپر کی کمائی کہا جاتا تھا اب تو دھڑلے سے رشوت مانگی جاتی ہے۔ مجھے بتائیں کونسا محکمہ ہے جہاں یہ بیماری نہیں ہے؟۔ اب ایسے ماحول میں آپ کو کیسے اخلاق اور کردار ملیں گے۔ کیونکہ لقمۂ حرام یا لقمۂ مشکوک میرے حلق سے نیچے اُتر رہا ہے تو اس کا اثر تو ہوگا۔ ہمارے اندر برداشت نہیں رہی، اخلاقیات نہیں رہی، برکت نہیں رہی۔ ہمارے ضمیر کو اِس کمائی نے مردہ کردیا ہے۔

٭… کیا بے حیائی اور بے راہ روی کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہمارے جسم میں حلال لقمہ نہیں جارہا؟۔

علامہ کوکب نورانی … آپ اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ اس قوم کو کتے اور گدھے تک تو کھلا دیئے گئے ہیں، اور کیا کچھ بازار میں بک رہا ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ہم میڈیا پر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کہاں سے چربی آرہی ہے، کہاں سے گھی بن رہا ہے، کس چیز سے چاکلیٹ بن رہی ہے، مٹھائیوں میں رنگ اور زہر ڈالا جارہا ہے۔ ہمارے ہاں مردار مرغیاں بک رہی ہیں، ہمارا یہ حال اِسی لئے ہوگیا ہے کیونکہ ہمارا ضمیر زندہ نہیں رہا۔ اسی لئے لوگ والدین کی، اساتذہ کی ، علماء کی، انبیاء کی گستاخیاں اور بے ادبیاں کردیتے ہیں، اب بتائیں کہاں سے برکت آئے گی؟۔ اور پھر زبان سے بد کلامی اور بے ادبی بھی زیادہ تر اسی لئے ہوتی ہے کہ رشتے ناتوں اور غذا میں حلال و حرام کا خیال نہیں رکھا جاتا۔

٭… اِن برائیوں کا تدارک کیسے ہوگا؟۔

علامہ کوکب نورانی … ہمیں سب کو جگانا ہے، یہ کام تنہا نہیں ملکر ہوگا۔ جھوٹ بولنا اور نا انصافی چھوڑ دیں۔ ہر ادارہ اور اس کا فرد یہ سوچے کہ مجھے اپنے آپ کو اور اس ملک کو سنوارنا ہے۔ ہمارے ہاں مطالبات، اپیلیں، ہڑتالیں، ریلیاں یہ سب کچھ ہوتا ہے ، اگر ہم لوگوں کو مسلسل احساس دلائیں تو دیانتداری نظر آئے گی۔ میں آج بھی کہتا ہوں کہ لوگوں کو جس کام میں سچائی اور صفائی نظر آتی ہے اُسے وہ آج بھی قبول کرلیتے ہیں۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ہم جس پر بھی بھروسہ کرتے ہیں وہی ہمیں دغا دے جاتا ہے۔ میں کراچی کیلئے کہہ دوں کہ کراچی کیلئے کتنے لوگ اُٹھے، کراچی والے یہی سمجھتے رہے کہ شاید یہ ہمارے مسیحا ہوں گے اُنہوں نے ہی ہمیں دھتکار دیا اور مزید برا سلوک کیا۔ تو اگر آج بھی خلوص کے ساتھ کام کیا جائے تو بہتری آسکتی ہے، یہ کہنا درست نہیں کہ کچھ نہیں ہوسکتا۔ ہر مسجد کو علاقے کی اسمبلی بنایا جائے ، چاہے وہ گلی میں ہو، محلے میں ہو ، اس کے گرد ہم سو سو گز تک افراد کی فہرست بنا لیں کہ کون نادار ہے، کون ضرورت مند ہے ، اس علاقے کے لوگ صرف اُن کی مدد کریں اور یہ ہر علاقے میں ہو۔ پھر یہ چیز آہستہ آہستہ پورے ملک میں پھیل جائے گی تو یقینا ًبہت فائدہ مند ہوگی۔ مثلاً ایک دِن ڈاکٹر کا رکھ لیا جائے طبی مشورے ڈاکٹر فراہم کرے۔ ایک دِن کسی وکیل کو رکھ لیں تاکہ کسی کا کوئی قانونی معاملہ ہو تو وہ مفت خدمات اور صحیح مشورے لے سکے۔ اسی طرح جو گھریلو جھگڑے ہیں تو ایک دِن اُن کا رکھ لیا جائے کہ علاقے کے با اثر اور سمجھدار لوگ اُن کے گھریلو مسائل حل کرادیں۔ اسی طرح بچوں کی تربیت کیلئے ایک دِن رکھ لیں۔ اس طرح ہم اپنی مساجد سے وہ کام لے سکتے ہیں کہ ہمیں قانون کے دروازے نہ کھٹکھٹانے پڑیں ، نہ ہی دفاتر میں جاکر رُلنا نہ پڑے ، نہ ہی اسپتالوں میں علاج معالجے کی شکایات ہوں۔ اگر ہر علاقے کی مسجد اسمبلی بن جائے گی تو سب کو پتہ ہوگا اور سب ایک دوسرے کے ہمدرد و خیر خواہ ہو جائیں گے۔

٭… معاشرے کی بہتری کا کام انفرادی سطح پر ہونا چاہئے یا اجتماعی سطح پر؟۔

علامہ کوکب نورانی … میں بارش کا پہلا قطرہ بننے میں دیر نہ کروں۔ میں انتظار نہ کروں۔ میرے ایمان کا تقاضہ ہے، میرے اخلاق کا تقاضہ ہے، میں نہیں چاہتا کہ کوئی میری نیند خراب کرے تو میں دوسرے کیلئے بھی وہی سوچوں۔ ہم بچوں کو اسی لئے ٹوکتے ہیں تاکہ اُن کی غلط عادت نہ بنے، اگر کوئی بچہ نلکا بند نہیں کرتا تو ہم اُسے احساس دلاتے ہیں کہ پانی ضائع ہورہا ہےیہ گناہ کا کام ہے ، آج بتائیں کون ہے احساس دلانے والا؟۔

٭… ہم قرآن سے بھی تو دور ہوگئے ہیں؟۔

علامہ کوکب نورانی … دور ہی نہیں بہت دور ہوگئے ہیں۔ ہمارے حالات درست نہیں ہیں۔ یہاں تو مساجد میں ایئرکنڈیشنڈ لگادیئے ہیں جبکہ صحابہؓ کہتے تھے کہ جب ہم مسجدوں میں جاتے تھے تو گرمی سے ہمارے ماتھے جلتے تھے۔ ہمارے لئے ایئر کنڈیشنڈ لگادیئے گئے ہیں ہم پھر بھی مسجد نہیں جاتے۔ ایک کھیل ہوتا ہے شطرنج، اس میں اگر مہروں کی چال بگڑ جائے تو بساط اُلٹ جاتی ہے۔ پھر نئے سرے سے بساط بچھانی پڑتی ہے تو ہم اس حد پر پہنچ گئے جہاں بساط الٹنے والی ہے۔ میں چاہتا ہوں خونی انقلاب نہ آئے، ایمانی انقلاب آئے لیکن یہ جب ہوگا جب ہم فیصلہ کرلیں گے کہ ہم نے مسلمان بن کر جینا ہے اور اچھا بن کر رہنا ہے۔ میں اپنی ذات اور دوسروں کیلئے بھی نفع بخش رہوں ورنہ بہائو کے ساتھ چلنا کوئی کردار نہیں ہے۔

٭… ماضی میں جس قوم نے برائی کو اختیار کیا وہ قوم تباہ و برباد ہوگئی، ہم ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، جھوٹ، دھوکہ اِس جیسی تمام برائیوں کا مجموعہ اختیار کر بیٹھے ہیں آخر کیوں؟

علامہ کوکب نورانی … اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے، یہ حضورﷺ کی برکت اور رحمت ہے، آپ ﷺ نے دُعا فرمائی تھی کہ پچھلی اُمتوں پر جس طرح عذاب نازل ہوئے میری اُمت پر نہ ہو۔ اور اللہ کا فرمان ہے محبوبﷺ آپ اِن میں تشریف فرما ہیں اس لئے اللہ اِن پر عذاب نازل نہیں کرتا۔ مگر ہم نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ ہم دین میں مداخلت کرتے ہیں، پہلے دِن سے ہر حاکم کی کوشش یہی ہے۔ حاکم چوں کہ من مانی کرنا چاہتا ہے اور رکاوٹ علماء ہیں ، رکاوٹ دین دار طبقہ ہے۔ دین میں مداخلت جب بھی ہوگی تو کرنے والے کے حصے میں ذلت بھی آئے گی، ناکامی بھی آئے گی اور معاشرے میں بگاڑ بھی آئے گا۔ اگر ہمیں معلوم ہو جائے کہ کوئی ہمارے گھر یا بزنس میں مداخلت کررہا ہے تو ہم فوراً بچائو میں لگ جاتے ہیں تو ایمان کے بچائو کیلئے بھی تو کچھ کرنا ہے، ملک کے حوالے سے بھی تو کرنا چاہئے لیکن ہمارے ہاں اب وطن دوستی، دین دوستی کم ہوگئی ہے، مفاد پرستی ہے اور اس کیلئے دین بیچنا پڑے، اخلاق بیچنا پڑیں، ضمیر بیچنا پڑے بلکہ بیچ چکے ہیں۔

٭… رویت ہلال کا مسئلہ اُٹھا ہے، اس پر آپ کا کیا موقف ہے؟۔

علامہ کوکب نورانی … یہ جو حکومتی آوازیں ہیں یہ حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ مذہبی معاملات میں حکومت کی باتوں کو میں محض حماقت اور جہالت کہوں گا اور اس کا نتیجہ بگاڑ کی صورت میںنکلے گا۔ مثال کے طور پر قمری کلینڈر بنانے کی آج بات ہورہی ہے، آج سے 50 سال پہلے 100 سال کی جنتری بنادی جاتی تھی یہ کونسی کمال کی بات ہے، میں نبیﷺ کا حکم چھوڑ کر کیا حکومت کا حکم مانوں گا؟ ۔ اللہ رسول ﷺ کے حکم کے مقابل تو کسی امام کا قول نہیں سنا جاسکتا حکومت کی بات کیسے سنی جاسکتی ہے؟ ۔ ابھی تو صرف ایک یا دو عیدیں ہوتی ہیں یہ کلینڈر آئیں گے تو ہر کوئی اپنا کلینڈر لیکر چل رہا ہوگا۔

٭… رمضان،عید کے چاند کیلئے تو شاید ایک ہی شہادت بھی کافی ہوتی ہے ؟۔

علامہ کوکب نورانی … روزہ رکھنے کیلئے ایک گواہی بھی کافی ہے، کیونکہ روزہ رکھنا ہے، جہاں چھوڑنے کی بات ہے وہاں ذمہ داری آجاتی ہے وہاں جم غفیر چاہئے اور پھر شہادت کے معیار ہوتے ہیں، آپ کے ہر ادارے میں کوئی نا کوئی پروٹوکول ہے، کوئی نا کوئی رولز اور ریگولیشن ہے دین کے معاملے کو آپ نے کیوں کھلونا سمجھا ہوا ہے۔جنہیں دین نہیں آتا وہ احتیاط رکھیں اور اپنی زبان بند رکھیں اور نہیں رکھیں گے تو سوائے ذلت کے کچھ نہیں ملے گا۔

٭… اپنے سننے والوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟۔

علامہ کوکب نورانی … سب سے دُعائیں چاہتا ہوں اور یہی چاہتاہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے وہ کام لے جو میری بخشش کا سامان بنے۔