1992 میں پاکستان عالمی چیمپئن بنا

May 22, 2019

پانچواں عالمی کپ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی مشترکہ میزبانی میں 22فروری 1992 سے شروع ہوا اور 25مارچ 1992تک جاری رہا۔ حیرت انگیز طور پر گرین شرٹس نے تمام تجزیے اور تبصرے کے برعکس شاندار کامیابی حاصل کرتے ہوئے عالمی چیمپئن کا تاج اپنے سر پر سجایا تھا۔

اس ورلڈ کپ نے کرکٹ کو ایک نیا رنگ دیا رنگین لباس ،سفید گیند دن اور رات روشنی میں کھیلے گئے میچ نے ورلڈ کپ کو بالکل تبدیل کردیااس جدت کو دنیا بھرمیں سراہا گیا۔ٹورنامنٹ کے 8میچ برقی قمقموں میںمنعقد ہوئے۔

ٹیموں کی تعداد 9 ہونے کے سبب منتظمین نے فارمیٹ کو تبدیل کیا، جنوبی افریقہ کی ٹیم پہلی مرتبہ ٹورنامنٹ میں شریک ہورہی تھی۔ تمام ٹیموں نے ایک دوسرے کے خلاف میچ کھیلے۔ یوں یہ پہلا ورلڈ کپ تھا جس میں گروپ نہیں بنائے گئے اور نہ ہی آئی سی سی ٹرافی کے ونر اس میںشریک تھے۔

یہ مقابلے صرف ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک کے درمیان ہوئے اور سیمی فائنل میں ٹاپ فور ٹکرائے۔ تاہم قوانین کے حوالے سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ خصوصاً بارش کے باعث متاثر ہونے میچ قوانین نے اس ورلڈ کپ کے حسن کو متاثر کیا۔

اس سے قبل موسم سے متاثر ہونے کی صورت میں میچ کےلیے اضافی دن رکھا گیا تھا، تاہم اس مرتبہ قانون کے مطابق پہلے فیلڈنگ کرنے والی ٹیم کے عمدہ اوور منہا کردیے گئے، گویا بالرز کی عمدہ کارروائی ان کےلیے وبال جان بن جاتی تھی۔ اس قانون کے تحت جنوبی افریقہ کو سیمی فائنل میں انگلینڈ کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ بھارت آسٹریلیا سے ایک رنز سے ہار گیا اور پاکستان کو جنوبی افریقہ سے شکست ہوئی۔

فائنل سیمی فائنل مقابلے سمیت 39میچ کھیلے گئے۔ 25میچ آسٹریلیا اور 14 نیوزی لینڈ میں کھیلے گئے۔ ٹورنامنٹ میں شامل 9 ٹیموں میں میزبان آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، انگلینڈ، پاکستان، بھارت، سری لنکا، ویسٹ انڈیز، زمبابوے اور جنوبی افریقہ تھے۔

پاکستانی ٹیم

کپتان عمران خان، نائب کپتان جاوید میاں داد، رمیز راجہ، عامر سہیل، انضمام الحق، سلیم ملک، زاہد فضل، معین خان، وسیم اکرم، عاقب جاوید، وسیم حیدر، اعجاز احمد، اقبال سکندر اور مشتاق احمد پر مشتمل تھی۔

پہلا مرحلہ

ٹورنامنٹکے پہلے دن 22فروری کو دو میچ ہوئے۔ پہلا میچ دفاعی چیمپئن آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان آکلینڈ میں ہوا جس میں نیوزی لینڈ نے 37رنز سے کامیابی حاصل کی۔ دوسرا میچ ڈے اینڈ نائٹ پرتھ میں انگلینڈ اور بھارت کے درمیان ہوا جس میں بھارت کو نو رنز سے شکست ہوئی۔

23 فروری کو دومیچ ہوئے، ملبورن میں پاکستان کا مقابلہ ویسٹ انڈیز سے تھا ابتدائی میچ میں پاکستان دس وکٹوں سے ہار گیا، ویسٹ انڈیز کے کپتان رچی رچرڈسن نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کی، عمران خان کی طبعیت کی خرابی کے سبب کپتان جاوید میان داد تھے۔

ٹیم مقررہ 50 اوور میں 220رنز بناسکی۔ ویسٹ انڈیز نے مطلوبہ اسکور 46 اعشاریہ 5 اوور میں پورا کرلیا تھا۔

نیو ساؤتھ پلے میں ہونے والے دوسرے میچ میں سری لنکا نے زمبابوے کو شکست دی۔ 25 فروری کو ہملٹن میں ہونے والے میچ میں نیوزی لینڈ نے سری لنکا کو 6 وکٹوں سے شکست دی۔

26فروری کو سڈنی میں ہونے والا ڈے نائٹ میچ دفاعی چیمپئن آسٹریلیا 9وکٹوں سے ہار گیا، ٹورنامنٹ میں پہلی مرتبہ شریک ہونے والی جنوبی افریقہ نے اپنے پہلے لیگ میچ میںکیپلر ویسلز کے 81رنز کی بدولت ایک بڑی کامیابی حاصل کی تھی۔

27فروری کو ہوبارٹ میں پاکستان کا زمبابوے سے مقابلہ ہوا۔ جس میں پاکستان نے 53رنز سے کامیابی حاصل کی۔ پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے عامر سہیل کی سنچر ی کی مدد سے 253رنز بنائے، جواب میں زمبابوے کی پوری ٹیم 201رنز بناسکی۔ عامر سہیل مین آف دی میچ قرار پائے۔

28فروری کو ہونے والا بھارت اور سری لنکا کا میچ بارش کے سبب نہ ہوسکا تھا۔ دونوں ٹیموں کو ایک، ایک پوائنٹ ملا۔

29 فروری کو آکلینڈ میں نیوزی لینڈ نے جنوبی افریقہ کو سات وکٹوں سے شکست دی اور برسبین میں ویسٹ انڈیز نے زمبابوے کو 75رنز سے ہرایا۔

یکم مارچ کو دو میچ ہوئے، ایڈیلیڈ میںپاکستان اور انگلینڈ کا میچ بارش کے سبب ادھورا رہ گیا، جس کے نتیجے میں دونوں ٹیموں کے حصے میں ایک پوائنٹ آیا۔

دوسرا میچ جو برسبین میں تھا آسٹریلیا نے بھارت کو ایک رنز سے ہرا دیا۔ دو مارچ کو ویلنگٹن میں سری لنکا نے جنوبی افریقہ کو تین وکٹوں سے ہرایا۔

تین مارچ کو نیپیر میں نیوزی لینڈ نے زمبابوے کو 48 رنز سے ہرا کر مسلسل چوتھی کامیابی حاصل کی۔ چار مارچ کو سڈنی میں روایتی حریف پاکستان اور بھارت آمنے سامنے ہوئے، جس میں پاکستان 43رنز سے ہار گیا۔ سچن ٹنڈولکر مین آف دی میچ رہے۔

بھارت نے پہلے کھیلتے ہوئے7وکٹوں کے نقصان پر 216رنز بنائے جواب میں پوری پاکستانی ٹیم 173رنز پر آوٹ ہوگئی تھی۔

5 مارچ کو دو میچ ہوئے سڈنی میںانگلینڈ نے آسٹریلیا کو 8وکٹوں سے جبکہ کرائسٹ چرچ میں جنوبی افریقہ نے ویسٹ انڈیز کو 64رنز سے شکست دی۔

7 مارچ کو دو میچ ہوئے، ا یڈیلیڈ میںآسٹریلیا نے سری لنکا کو دو وکٹ سے اور ہملٹن میںبھارت نے زمبابوے 55رنز سے ہرایا۔

8 مارچ کو بھی دو میچ ہوئے، برسبین میں پاکستان جنوبی افریقہ سے 20رنز سے ہارا۔ ٹاس جیت کر کپتان عمران نے جنوبی افریقہ کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی، جنوبی افریقہ نے مقررہ اوورز میں سات وکٹوں کے نقصان پر 211رنز بنائے۔ جواب میں دوران بیٹنگ بارش کے سبب ایک موقع پر پاکستان کےلیے ٹارگٹ مشکل ہوگیا اور 36اوور میں 173رنز بناسکا۔ اس شکست نے پاکستان کےلیے سیمی فائنل تک رسائی مشکل ترین کردی تھی۔ 9مارچ کوانگلینڈ نے سری لنکا کو 106رنز سے شکست دی۔

10 مارچ کو دو میچ ہوئے، ویلنگٹن میںویسٹ انڈیز نے بھارت کو 5وکٹ سے شکست دی، جبکہ کینبرا میں جنوبی افریقہ نے زمبابوے کوسات وکٹوں سے ہرایا۔ گیارہ مارچ کو پرتھ میں پاکستان آسٹریلیا کو48رنز سے ہرا کر سیمی فائنل کی دوڑ میں شامل ہوگیا۔ پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 9وکٹوں کے نقصان پر 220رنز بنائے۔ جواب میں آسٹریلوی ٹیم 46اوور میں 172رنز پر آوٹ ہوگئی۔ عامر سہیل 76رنز کے ساتھ مین آف دی میچ قرار پائے تھے۔

12 میچ کو دو میچ ہوئے، ملبورن میں انگلینڈ نے جنوبی افریقہ کو 3وکٹوں سے اور ڈنیڈن میںنیوزی لینڈ نے بھارت کو 4وکٹوں سے شکست دی۔

13 مارچ کو بیری میں ویسٹ انڈیز نے سری لنکا کو 91رنز سے شکست دی۔ 14مارچ کو ہوبارٹ میں ہونےوالے میچ میں آسٹریلیا نے زمبابوے کو128رنز سے شکست دی۔

15 مارچ کو تین میچ ہوئے، ایڈیلیڈ میں جنوبی افریقہ نے بھارت کو ہرا کر سیمی فائنل میں اپنی جگہ پکی کرلی۔ ویلنگٹن میں نیوزی لینڈ نے انگلینڈ کو سات وکٹوں سے ہرا کر مسلسل ساتویں کامیابی حاصل کی۔ پرتھ میں پاکستان نے سری لنکا کو چار وکٹوں سے شکست دی۔

سری لنکا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 212 رنز بنائے جسے پاکستان نے چھ وکٹوں کے نقصان پر 5گیند قبل پورا کیا۔ جاوید میاں داد مین اف دی میچ قرار پائے۔

18 مارچ کو کرائسٹ چرچ میں پاکستان نے ٹورنامنٹ کی ناقابل شکست نیوزی لینڈ کو سات وکٹ سے ہرا کر اپنی مضبوطی کا احساس دلادیا۔ عمران خان نے ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ کیا۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستانی بولرز کی شاندار بولنگ کے سبب 10 گیند قبل صرف 166رنز پر آل آوٹ ہوگئی، مطلوبہ اسکور پاکستان نے تین وکٹوں کے نقصان پر 45ویں اوور میں پورا کرلیا تھا۔

مشتاق احمد مین آف دی میچ قرار پائے۔ اس کامیابی کے چند گھنٹے بعد میلبورن میں آسٹریلیا نے ویسٹ انڈیز کو 57رنز سے ہرا کر پاکستان کی سیمی فائنل میںجگہ پکی کردی۔

آسٹریلیا کی کامیابی اور پاکستان کی سیمی فائنل میں رسائی پر ماہرین کرکٹ نے اسے تھینک یو آسٹریلیا قرار دیا تھا۔ البرے میں زمبابوے نے انگلینڈ کو نو رنز سے شکست دی۔

پہلا سیمی فائنل: پاکستان بمقابلہ نیوزی لینڈ

21 مارچ کو آکلینڈ میں پانچویں ورلڈ کپ کا پہلا سیمی فائنل ہوا۔ جس میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کو دلچسپ مقابلے کے بعد چار وکٹوں سے شکست دے کر کرکٹ کی تاریخ میںپہلی مرتبہ فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔ نیوزی لینڈکے کپتان مارٹن کرو نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کی اور مقررہ اوور میں سات وکٹوں کے نقصان پر 262 رنز بنائے۔ جواب میں پاکستانی ٹیم نے 6وکٹوں پر نقصان پر مطلوبہ رنز مکمل کرلیے۔ انضمام الحق مین آف دی میچ قرار پائے جنہوں نے 37 گیندوں پر 60رنز بنائے تھے۔

دوسرا سیمی فائنل: انگلینڈ بمقابلہ جنوبی افریقہ

22 مارچ کو سڈنی میں دوسرا سیمی فائنل ہوا۔ جو کرکٹ مبصرین کے خیال میں احمقانہ قوانین کی بدولت انگلینڈ کی ٹیم ورلڈ کپ فائنل میں پہنچ گئی۔ موسم کی خرابی کے سبب میچ کچھ تاخیر سے شروع ہوا، دوسرا جنوبی افریقہ نے مقرررہ وقت میں سلو بولنگ کرتے ہوئے 45اوور کئے۔ ٹاس جیت کر جنوبی افریقہ کے کپتان کیپلز ویسلز نے پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا۔ انگلینڈ نے بیٹنگ کرتے ہوئے45اوور میں چھ وکٹوں کے نقصان پر 252رنز بنائے۔ جواب میں جنوبی افریقہ ٹارگٹ کی جانب کامیابی سے گامزن تھا اور جب اسکور 6وکٹ کے نقصان پر 231 رنز پر پہنچا اور 13گیندوں پر 22 رنز رہ گئے کہ بارش کے سبب کھیل روکنا پڑا اور جب سات منٹ بعد دوبارہ کھیل شروع ہوا تو رولز کے مطابق پہلے سات گیند پر 22 لیکن چند منٹوں بعد 6گیند ختم کرکے ایک بال پر 22رنز کا ٹارگٹ دیا گیا۔ جس کا نتیجہ جنوبی افریقہ کی یقینی شکست تھا۔ اس افسوسناک صورتحال کے ساتھ انگلینڈ فائنل میں پہنچ گیا۔

فائنل: پاکستان بمقابلہ انگلینڈ

25مارچ وہ دن آگیا جس کا مدتوں سے پاکستان انتظار کررہا تھا۔ میلبورن جو اپنی طویل باؤنڈری کی وجہ سے بھی شہرت رکھتا ہے۔ ڈے نائٹ میچ میں کپتان عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے انگلینڈ کو 22 رنز سے شکست دے کرکٹ کا عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کرلیا۔

85ہزار تماشائیوں کی موجودگی میں کپتان عمران خان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ اور مقررہ اوور میں چھ وکٹوں کے نقصان پر 249رنز بنائے جس میں جاوید میاں داد کے 58، عمران خان کے 70، وسیم اکرم کے تیز 33 اور انضمام الحق کے 42رنز تھے۔

جواب میں انگلینڈ 49 اعشاریہ 2 اوورز میں 227 رنز پر آل آؤٹ ہوگئی۔وسیم اکرم مین آف دی میچ قرار پائے، انہیں تین ہزار آسٹریلین ڈالر انعام دیا گیا۔

فاتح ٹیم کے کپتان عمران خان کو وننگ ٹرافی پچاس ہزار آسٹریلین ڈالر جبکہ انگلینڈ کے کپتان گراہم گوچ کو 25ہزارآسٹریلین ڈالر انعام دیاگیا۔