نظامِ ہضم کے دلچسپ حقائق

May 23, 2019

انسانی آنتیں لاکھوں بلکہ کروڑوں نیورون سے جڑی ہوئی ہیں اور اسی لیے انھیں انسان کا دوسرا دماغ بھی کہا جاتا ہے۔ ہم جو کھاتے ہیں ہمارا نظامِ انہضام اسے پراسیس کرنے کے علاوہ اور بھی کام کرتا ہے۔ اس میں آباد اور پلنے والے جرثومے ہماری صحت اور طبیعت کو متاثر کر سکتے ہیں۔انسانی آنتوں سے متعلق کیا حقائق ہیں، آئیے جانتے ہیں۔

اعصاب کا ایک خود مختار نظام

’گٹ ہیلتھ ڈاکٹر‘ کی مصنفہ اور معدے کی صحت میں پی ایچ ڈی کرنے والی برطانوی ڈائٹیشن ڈاکٹر میگن روسی کہتی ہیں، ’ہماری آنتیں، ہمارے جسم میں موجود دوسرے اعضا سے مختلف طور پر کام کر سکتی ہیں۔ وہ اپنا فیصلہ کرنے کی مجاز ہیں اور انھیں اس کے لیے دماغ کے مشورے کی ضرورت نہیں‘۔ ان کے خود مختار دماغ کو معائی اعصابی نظام (ای این ایس) کہا جاتا ہے جو مرکزی اعصابی نظام (سی این ایس) کی ایک ذیلی شاخ ہے اور یہ مکمل طور پر معدے اور آنت کی حرکات و سکنات کے لیے ذمہ دار ہے۔ یہ نظام نیورونز کے ایک جال نما نیٹ ورک کی طرح نظر آتا ہے، جو پیٹ اور نظامِ انہضام میں قطار در قطار نظر آتے ہیں۔

مدافعتی نظام کا بڑا حصہ

ہمارے مدافعتی نظام کے70فیصد خلیے ہمارے معدے میں ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر روسی کا کہنا ہے کہ 'اسی سبب ہمارے معدے کی صحت، بیماریوں کے خلاف ہمارے مدافعتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ حالیہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ معدے اور آنتوں کے مسائل سے انسان کے بخار جیسی عام بیماریوں کی زد میں آنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

مختلف النوع کھانے

معدے میں اربوں کھربوں مائیکروبز کا بسیرا ہے۔ یہ اہمیت کے حامل ہیں، کیونکہ یہ بعض مقوی غذاؤں کو ہضم کرنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔ جراثیم کا ہر گروہ مختلف قسم کے کھانے پر پھلتا پھولتا ہے۔ اس لیے انواع و اقسام کے کھانے سے آپ کے معدے کی صحت بہتر ہوتی ہے اور یہ آپ کی اچھی صحت سے منسلک ہے۔ جو لوگ ہمیشہ ایک ہی قسم کا کھانا کھاتے ہیں، ان کے معدے میں کمزور قسم کے مائیکروبز ہوتے ہیں۔

موڈ کو بہتر بنائیں

ڈاکٹر روسی کہتی ہیں کہ اگر آپ کو معدے کی شکایت ہے تو یہ دیکھنا بہتر ہوگا کہ آپ کس قدر تناؤ میں ہیں۔ ’میں اپنے طریقہ علاج میں اپنے مریضوں کو ہمیشہ روزانہ15سے20منٹ تک مراقبہ یا دھیان کرنے کی ترغیب دیتی ہوں اور جب وہ چار ہفتوں تک روزانہ اس کی پابندی کرتے ہیں تو ہم ان کی علامات میں بہتری پاتے ہیں‘۔ ہمارے موڈ اور ہمارے معدے کو جو چیز جوڑتی ہے، وہ 80سے 90فیصد تک نظام ہاضمہ میں بننے والے سیروٹونین ہیں۔ سیروٹونین ایک کیمیائی پیغامبر ہے، جو آنتوں کے ساتھ جسم کے کئی کام متاثر کرتا ہے۔ طویل مدتی دباؤ سے سیروٹونین کی سطح کم ہو سکتی ہے، جو ہمارے موڈ کے ساتھ ہمارے جذباتی حالات، تشویش اور خوشی کو متاثر کر سکتی ہے۔

انتہائی حساس

اگر آپ کے اہل خانہ کسی غذا کو آپ کے لیے مضر سمجھتے ہیں تو آپ اس کو محسوس کرنے لگیں گے۔ ڈاکٹر روسی کا کہنا ہے کہ تازہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اگر آپ کوئی مخصوص غذا کھانے سے ڈرتے ہیں تو اس کے کھانے کے بعد آپ کو تکلیف ہو سکتی ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ گلوٹن یا دودھ کے اجزا ان کے لیے مضر ہیں لیکن اگر ان کا نظام ہضم واقعتاً اس کو برداشت کرنے والا یا پھر اس سے الرجک نہیں ہے تو بھی ان غذاؤں کے کھانے کے بعد ان کو مسئلہ درپیش آسکتا ہے۔

ہاضمے کو بہتر بنایا جاسکتا ہے

ڈاکٹر روسی کے دیے گئے درج ذیل مشوروں پر عمل پیرا ہوکر معدے کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

* مختلف اقسام کی غذائیں کھائیں تاکہ آپ کے معدے میں پلنے والے بیکٹیریا مختلف النوع ہوں۔

* اپنی طبیعت کے حساب سے دباؤ کو کم کرنے کے طریقے اپنائیں جیسے مراقبہ کریں، آرام کریں، ذہن کو مرکوز کریں یا یوگا کریں۔

* اگر آپ کو معدے کی تکلیف ہے تو الکوحل، کیفین اور مسالے دار کھانوں سے پرہیز کریں۔

* بہتر نیند لینے کی کوشش کریں۔

* ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگر آپ اپنے سونے کے اوقات کو تبدیل کرتے ہیں تو آپ کے معدے کے جراثیم کا نظام بھی متاثر ہوتا ہے، لہٰذا اپنے سونے کا شیڈول بنائیں۔