وزیراعظم مودی کی جیت اور جدید ہند کے تقاضے

May 25, 2019

کالم ہذا بھارتی انتخابی نتائج سے قبل 22مئی کی صبح جس طرح لکھا گیا اُسی طرح شائع کیا جا رہا ہے۔ آج کا کالم پاکستان کی اندرونی سیاسی صورتحال پر ہی بنتا تھا بالخصوص سیاسی افطاری کے بعد ’’میثاق جمہوریت‘‘ کی نئی انگڑائی کے حوالے سے۔ اِن اندرونی مسائل کو ہم اگلے کالم تک اٹھائے رکھتے ہیں اِس وقت ہم اپنے ہمسایہ ملک ہندوستان کی سیاست کو زیر بحث لانا چاہتے ہیں جہاں سات مراحل پر مبنی طویل انتخابی سرگرمی پایہ تکمیل کو پہنچ چکی ہے اور حتمی انتخابی نتائج آنے والے ہیں۔ چڑھتے سورج کو تو ہر کوئی دیکھ لیتا ہے لیکن درویش اُس سے قبل اپنے تاثرات و مشاہدات قلمبند کر دینا چاہتا ہے تاکہ سند رہے۔ آج ایک کانگریسی لیڈر جو غلام نبی اور آزاد کہلاتے ہیں، نے دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو اعتماد میں لینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ہے کہ کانگریس وزیراعظم کے عہدے پر اصرار نہیں کرے گی، اگر اُس کی جیت ہو بھی گئی تو وہ دیگر علاقائی یا ہم خیال پارٹیوں کو اس اعلیٰ ترین منصب کا موقع دے سکتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں راہول گاندھی یا پریانکا گاندھی کے بجائے یہ منصب ممتا بینر جی، مایا وتی یا شردپوار کی بھینٹ چڑھایا جا سکتا ہے جبکہ درویش کی نگاہ میں یہ نوازش محض دان چڑھانے والی بات ہے۔

سچائی تو یہ ہے کہ ہم خوش ہوں یا ناخوش، اچھا کہیں یا برا، آج کے ہندوستان میں وزیراعظم نریندر مودی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ان کی BJPاور NDA کا سورج پوری آب و تاب کے ساتھ دوبارہ طلوع ہونے والا ہے اور یہ انہونی ہندوستان کی سات دہائیوں پر محیط تاریخ میں پہلی مرتبہ ہونے جا رہی ہے کہ کوئی غیر کانگریسی حکومت دوبارہ اسی مقبولیت کے ساتھ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھ رہی ہے۔ راجستھان، مدہیہ پردیش، گجرات اور جھاڑ کھنڈ تو رہے ایک طرف جہاں بی جے پی میدان مارتی دکھائی دے رہی ہے، مہاراشٹر اور کرناٹکا، ہماچل پردیش، ہریانہ، دہلی اور چھتیس گڑھ میں بھی این ڈی اے کا پرچم چھایا ہوا ہے۔ بحیثیت وزیراعظم نریندر مودی کے متعلق اس خاکسار کی رائے کبھی اچھی تھی، نہ ہے۔ ناچیز نے انہیں موجودہ عالمی سیاست کے Three Idiotsمیں سے ایک قرار دے رکھا ہے، جو اپنے مفادات کے حصول کی خاطر بے اصولی کی کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ 2014میں اُنہوں نے سیاسی کامیابی کے لئے اپنی قوم کو جو سبز باغ دکھائے تھے آج سب بیان کرتے ہوئے خود انہیں شرمندگی محسوس ہوتی ہے لیکن اس مرتبہ انہوں نے لمبی چوڑی چھوڑنے کے بجائے قومی وقار اور حب الوطنی کا ہتھیار استعمال کیا ہے، جس کے لئے جھوٹ بولنا بھی اُن کی نظروں میں کوئی برائی نہیں ہے۔

اس پسِ منظر میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اُنہیں اور اُن کی بی جے پی یا این ڈی اے کو اتنی بڑی کامیابی کیوں ملنے جا رہی ہے؟ کیا 90کروڑ ووٹرز کے سامنے بھارتی آئین میں طے کردہ اصولوں یا اعلیٰ سیاسی اخلاقیات کی کوئی حیثیت نہیں؟ ہمارے روایتی پاکستانی سماج میں اِس چیز کو بیان کرنا اور سمجھنا قدرے مشکل ہے کیونکہ یہاں بھی بدتر منافرت آمیز منفی پروپیگنڈہ ابدی سچائی کی صورت چھایا ہوا ہے۔ یہاں نظریہ کے نام پر ہر نوع کی نفرت پھیلانا جائز سمجھا جاتا ہے۔ ہم نے اپنے ملک کو فکری طور پر دنیا سے الگ تھلگ ضرور بنا رکھا ہے لیکن موجودہ گلوبل ویلیج میں اقوام کو یوں الگ تھلگ جزیرے بنا کر رکھنے کی گنجائش بہت کم بچی ہے اور جو شتر مرغ اِس نوع کی پالیسی پر کاربند ہیں وہ نقصان غیروں کا نہیں اپنی ہی اقوام کا کر رہے ہیں۔

درویش صاف لفظوں میں یہ کہنا چاہتا ہے کہ بی جے پی یا نریندر مودی کی دکھائی دیتی کامیابی درحقیقت ہماری انڈیا دشمنی بلکہ ہندو منافرت میں پوشیدہ ہے۔ ہم نے پورے خطے میں مسلم اور غیر مسلم کی جو خلیج پیدا کر رکھی ہے ۔ یہ سوچ اقوام دیگر کے اذہان میں گہرے احساس تحفظ کا باعث بنتی ہے۔ ردِ عمل میں وہ اقوام اپنے لیے ایسی قیادت کا انتخاب کرنا پسند کرتی ہیں جو انہیں مسلمانوں سرگرمیوں سے تحفظ فراہم کر سکے۔ عصرِ حاضر کی اس سائیکی کی جڑیں اتنی گہری اور تاریخی طور پر اتنی طویل ہیں کہ آج ہمیں یہ احساس تک نہیں کہ اس کے مفاسد کہاں کہاں تک مار کر رہے ہیں۔ لہٰذا ہم اسے کسی ایسی برائی کے معنوں میں لیتے ہی نہیں کہ جسے ختم کرنے کے لئے قوم میں کوئی شعوری کاوشیں کی جائیں۔ خود انڈین مسلمان جن کے ایک طبقے نے مولانا ابوالکلام آزاد کی قیادت میں ہندوئوں کے شانہ بشانہ آزادی کی جنگ لڑی تھی آج وہ بھی مولانا صاحب جیسی بلند پایہ قیادت سے محروم ہے۔ ناچیز نے بھارتی مسلمانوں کے موجودہ رہنماؤں کی جو تقاریر سنی ہیں ان میں جگہ بہ جگہ یہ تعلی و خود ستائی جھلکتی اور ہندو منافرت کھٹکتی ہے۔ یہ ہمارا دلی، یہ ہمارا تاج محل، یہ ہمارا قطب مینار، ہم یہ، ہم وہ، ہم یہاں کے اصل حکمران، ہم یہاں کے بادشاہ اور تم ہماری رعایا۔ درویش کی نظروں میں اس نوع کا لب ولہجہ کسی طور پر بھی مناسب نہیں۔

ہمارے یہاں کبھی کسی نے ان بنیادوں پر تجزیہ کاری کی کاوش نہیں کی کہ اگر ہمارے نصاب اور میڈیا میں ہندو دشمنی پڑھائی جائے گی تو پھر دوسری طرف سے بھی محبتوں کے پھول نہیں برسیں گے۔ اے میرے مقتدرو! خدارا یہاں آزادی اظہار کے لئے ہی کچھ گنجائش آنے دو تاکہ قوم کے سامنے تصویر کا دوسرا رخ بھی پیش کیا جا سکے۔ پاکستان اگر مسلم کاز یا مفاد کے لئے تھا تو وہ محض میجارٹی خطے تک محدود نہیں تھا، ہندوستان کی 29ریاستوں اور وفاق کے زیرِ کنٹرول وسیع علاقوں میں بسنے والے کروڑوں مسلمان آج ان منافرتوں کے متحمل نہیں ہو سکتے، کچھ اُن کی بھی فکر کرو۔ خطے میں تقسیم کا اصل نقصان ہندوئوں کو نہیں مسلمانوں کو ہوا ہے، جن کی اجتماعی طاقت کو تین ٹکڑوں میں بانٹ کر مفلوج کر دیا گیا ہے۔ آج وہ ایک دوسرے کے لئے بے یارومددگار ہو چکے ہیں۔

وزیراعظم نریندر مودی اور اُن کی بی جے پی کو اتنی شاندار کامیابی مبارک ہو لیکن آپ لوگوں کے لئے سوچنے والی بات یہ ہے کہ جذباتی نعروں کی بنیاد پر وقتی سیاسی کامیابی حاصل کر لینا ہندوستانی عظمت کی دلیل نہیں ہے اگر آپ واقعی جدید ترقی پسند سیکولر جمہوری ہندوستان میں یقین رکھتے ہیں تو پھر اپنے آئین کی عظمت کے ’’چوکیدار‘‘ بنیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا روشن چہرہ جاگزین کرنے کے لئے دلجوئی کی پالیسی اپناتے ہوئے تمام لسانی و مذہبی اقلیتی طبقات کو ساتھ لے کر آگے چلیں۔ آپ جس ہندو مذہب کی بات کرتے ہیں، اُس کی تعلیمات کا بھی یہ تقاضا ہے کہ امن، دوستی، بھائی چارے اور ایکتا کی بات کریں۔ یہ آپ کے پاس آخری موقع ہے کیونکہ جذباتی نعرے سدا بہار نہیں ہوتے۔