استنبول میں اردوان کا مستقبل داؤ پر؟

May 25, 2019

ترکی میں اکتیس مارچ 2019کے بلدیاتی انتخابات بڑے پرسکون ماحول میں ہوئے جس پر حکومت اور اپوزیشن دونوں نے سکھ کا سانس لیا تھا لیکن جیسے جیسے بڑے شہروں کے نتائج آتے چلے گئے حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی نے ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات لگانا شروع کردئیے۔ حکومتی امیدوار اس سے قبل کے ان دونوں شہروں کے مئیر شپ کے انتخابات بڑے کم مارجن سے گزشتہ کئی دہائیوں سے جیتتے چلے آرہے تھے لیکن اس بار دارالحکومت انقرہ کی مئیر شپ کا تاج اپوزیشن اتحاد ’’اتحادِ ملت‘‘ کے امیدوار منصور یاواش کے سر پر تھا لیکن ان کو یہ کامیابی پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کی گئی تھی بلکہ کئی بار کی گنتی کے بعد 8اپریل 2019کو ترک سپریم الیکشن کمیشن نے چند ہزار کے فرق سے ’’منصور یاواش‘‘ کی جیت کا سرکاری طور پر اعلان کرتے ہوئے مئیر شپ کا سرٹیفکیٹ جاری کر ہی دیا اور اس طرح حکومت کو سولہ سال بعد انقرہ میں اپنی شکست کو بادلِ نخواستہ قبول کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ حکومت کو ازمیر، انطالیہ اور ادانہ کی مئیر شپ سے بھی ہاتھ دھونا پڑے اگرچہ ترکی کے اہم بڑے شہروں پر اپوزیشن کے امیدوار کامیاب قرار پائے تھے لیکن ترکی کےسب سے بڑے شہر استنبول میں دونوں اطراف سے اپنی اپنی کامیابی کا اعلان کیا جاتا رہا پہلے اکتیس مارچ کی رات کو حکومتی اتحاد ’’اتحادِ جمہور‘‘ کے امیدوار بن علی یلدرم جو ملک کے وزیراعظم اور قومی اسمبلی کے اسپیکر بھی رہ چکے ہیں، نے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے استنبول مرکز تشریف لاتے ہوئے اپنی کامیابی کا اعلان کردیا جبکہ اس کے بعد اپوزیشن کے ’’اتحادِ ملت‘‘ کے امیدوار اکرم امام اولو نے ان کی کامیابی کو چیلنج کرتے ہوئے اپنی کامیابی کا اعلان کردیا۔ سپریم الیکشن کمیشن نے کئی روز کی گنتی اور دھاندلی کے الزامات کی جزوی طور پر چھان بین کرنے کے بعد آخر کار 17اپریل 2019کو ’’اتحادِ ملت‘‘ کے امیدوار اکرم امام اولو کو کامیاب قرار دیتے ہوئے مئیر شپ کا سرٹیفکیٹ جاری کردیا۔ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے پر حکومتی حلقوں میں شدید بے چینی کا اظہار کیا گیا اور مختلف علاقوں کے پولنگ اسٹیشنوں میں ان کی جماعت کے امیدوار کے ووٹ اپوزیشن کے امیدوار کے کھاتے میں ڈالنے یا نہ گنے جانے کے بے شمار ثبوت فراہم کرتے ہوئے استنبول کے مئیرشپ کے انتخابات کو کالعدم قرار دینے اور نئے سرے سے کروانے کی درخواست سپریم الیکشن کمیشن کو پیش کی جسے کمیشن نے تمام پہلوئوں سے جائزہ لیتے ہوئے ’’اکرم امام اولو‘‘ کو جاری کردہ سرٹیفکیٹ واپس لیتے ہوئے 31مارچ کے انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا اور 23 جون 2019ء کو نئے سرے سے مئیر شپ کے انتخابات کروانے کا اعلان کردیا۔ سپریم الیکشن کمیشن کے اس اعلان پر ’’اتحادِ ملت‘‘ نے شدید ردِ عمل کا مظاہرہ کیا کیونکہ ان کے مطابق ایک ہی لفافے میں مئیر شپ، اضلاعی چیئرمینوں، کونسلروں اور مقامی اسمبلیوں کے اراکین کے بیلٹ پیپرز رکھے گئے تھے اور یہ کیسے ممکن تھا کہ صرف مئیر شپ ہی کے بیلٹ پیپر میں دھاندلی ہوئی ہے اور باقی تمام بیلٹ پیپرز درست ہیں لیکن الیکشن کمیشن نےاپوزیشن کے مطالبے کو مسترد کردیا۔

اب استنبول میں 23جون 2019کو نئے سرے سے صرف مئیر شپ ہی کے انتخابات ہو رہے ہیں، الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے تو بہر حال شدید ردِ عمل کا اظہار کیا ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ صدر ایردوان کے سابق ساتھیوں سابق صدر عبداللہ گل اور سابق وزیراعظم احمد داؤد اولو نے بھی سپریم الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ڈیموکریسی کے نام پر ایک دھبہ قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں آق پارٹی کے اندر سے بھی اس فیصلے کے خلاف خاموش احتجاج کرنے والے اراکین موجود ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ترک سپریم الیکشن کمیشن نےاپوزیشن کے ’’اتحادِ ملت‘‘ کےامیدوار اکرم امام اولو سے مئیر شپ کا سرٹیفکیٹ واپس لیا ہے اس وقت سے انہیں ایک ’’مظلوم‘‘ شخص کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے اور ترکی میں ہمیشہ ہی مظلوم کو عوام کی زبردست پذیرائی حاصل ہوتی رہی ہے۔ علاوہ ازیں 31 مارچ کے انتخابات کے موقع پر ’’اتحادِ ملت‘‘ کو استنبول مئیر شپ جیتنے کی زیادہ توقع نہ تھی لیکن پڑنے والے ووٹوں نے ’’اتحادِ ملت‘‘ کے حوصلے بڑھانے میں بڑا نمایا ں کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے اس بار ایردوان کی مخالفت کرنے والی تمام جماعتوں کے علاوہ آق پارٹی کےاندر صدر ایردوان سے ناراض افراد کی بھی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ 23جون 2019کے استنبول مئیر شپ کے انتخابات میں اگر ’’اتحادِ ملت‘‘ نے کامیابی حاصل کرلی تواس سے صدر ایردوان کے لیے ملک بھر میں اقتدار جاری رکھنےمیں مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہےکیونکہ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد استنبول مئیرشپ کے انتخابات میں کامیابی کی صورت میں ملک میں قبل از وقت انتخابات کروانے کا مطالبہ شروع کرسکتی ہے حالانکہ صدر ایردوان مزید ساڑھے چار سال تک اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا پورا حق رکھتے ہیں لیکن اگر 23 جون کے انتخابات میں حکومتی ’’اتحادِ جمہور‘‘ نے کامیابی حاصل کرلی تو پھر استنبول میں حکومت پر دھاندلی کرنے کے الزامات لگ سکتے ہیں اور حکومت کے لئے ان الزامات سے چھٹکارا پانا آسان نہ ہوگا اور اگر حکومت کے خلاف ایک بار استنبول میں مظاہرے شروع ہو گئے تو پھر یہ مظاہرے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ اس سے قبل 2013میں ایردوان کے خلاف استنبول میں گیزی پارک میں مظاہروں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا تھا لیکن اس وقت صدر ایردوان کو حاصل بے پناہ مقبولیت کی بنا پر ان مظاہروں پر قابو پانے میں کامیابی حاصل ہوئی تھی لیکن موجودہ حالات 2013سے یکسر مختلف ہیں ملک میں اقتصادی مشکلات اور مصائب کی وجہ سے عوام شدید اضطراب میں مبتلا ہیں اور ترک لیرا اپنی ساکھ دن بدن کھوتا جا رہا ہے۔ اس لئے استنبول کے نئے مئیرشپ کا انتخاب صدر ایردوان کے مستقبل کے لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔