زیادتی کے مجرم ’’مردہ خانہ‘‘ میںہونا چاہئیں

May 26, 2019

حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جب سے بیٹیوں کو زندہ درگور ہونے کی قبیح رسم سے آزاد ہونے کا پروانہ ملا تھا تو اسے ایک الگ سلطنت خداوندی بھی دے دی جاتی کہ جہاں پرندے بھی غلطی سے اڑان نہ بھرتے، جہاں فرشتے بھی نیک اطوار بچیوں کی حفاظت کو اللہ کی مقرر کردہ حد سے آگے نہ بڑھتے ۔ ان معصوم کلیوں کی منی سی دنیا ہوتی، جہاں وہ تتلیوں سے کھیلتیں ان کے پیچھے بھاگتیں ، گھر گھر کھیلتیں تو کعبے کی دیواریں ان کا سائبان ہوتیں، آنکھ مچولی کھیلتیں تو پاکیزہ صحن کے کونوں میں چھپ جاتیں، آرزو آسمان پر اڑنے کی کرتیں تو مقدس میناروں سے آگےآنے کی آرزو میں بس پھڑ پھڑا کے رہ جاتیں مگر کسی بھی دیوار یا مینار سے باہر نکل کر خاک پر نقش و نگار نہ بناتیں، جل بجھ کر شعلوں کا وجود نہ بنتیں ، گھر کی رونق سے نکل کر خاک پر نقش و نگار نہ بناتیں، جل بجھ کر شعلوں کا وجود نہ بنتیں ، گھر کی رونق سے نکل کر خاک میں دفن نہ ہوتی، سلطنت خداوندی میں دھوپ کی تمانت سے سنہری گڑیا ہوتیں، شفاف آئنوں میں جھانکتے زندگی کے رنگ تمہیں رونق دیتے۔ سلطنت خداوندی میں زمین و عرش ہر دم تمہاری خیر و عافیت چاہتے۔ سلطنت اسلامیہ میں ملائکوں کو شہزادی و ملکہ بنایا گیا، انہیں عزت دی گئی، انہیں حقوق دیئے گئے، انہیں زندہ درگور ہونے سے بچایا گیا۔ انہیں نیک، پاکیزہ اور فرشتوں جیسا مقام دیا گیا مگر نصیب ان کا بکھر جاتا ہے جب یہ بھیڑیوں، درندوں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں۔ ان کے وجود کو رگیدہ جاتا ہے، نوچا جاتا، مگر ٹھیریئے اب ان نوخیز کلیوں کے جنازے ایسے ہی اٹھیں گے اگر قاتلوں ، درندوں اور بھیڑیوں کے ساتھ بھی وہی سلوک نہ کیا گیا جو وہ نوخیز کلیوں کے ساتھ کرتے رہے ہیں۔ اب سزا کا وقت آنا چاہئے۔اب ہمارا ذاتی طور پر احتجاج شروع ہونے جارہا ہے اور خود سے عہد کرلیا ہے کہ ہر فورم اور ذرائع استعمال میں لاکر احتجاج ہوگا وہ بھی قاتلوں، مجرموں وحشی درندوں کو فوری سزا دلوانے کا انصاف! ابھی تک اس سلسلے کی صرف چند سزائیں یاد ہیں ضیاء الحق کے زمانے میں سنا ہے کہ کسی بچے کے ساتھ زیادتی کرنے والے کو سر عام پھانسی دی گئی تھی تو اس کے کئی سال تک کسی نے بھی گھٹیاں اور گھنائونا جرم کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ہمارے سامنے کی دو سزائیں ہمیں کسی حد تک مطمئن کرگئیں کہ ابھی انصاف باقی ہے ایک تو زینب کے مجرم و قاتل درندے کی اور دوسری چند سال پہلے کوٹ لکھپت کے کسی حجام لڑکے نے بچے سے زیادتی کرکے نعش مسجد میں لٹکا دی تھی۔ اس حجام کو پولیس نے ہی مقابلے میں مار دیا تھا۔ یعنی خود ہی پولیس نے جرم ثابت ہونے پر اس خبیث کا قلع قمع کردیا عدالتی کارروائی میں وقت بھی ضائع نہ کیا۔ اسے کہتےہیں فوری انصاف جو اتنی ننھی کلیاں مسلنے کے بعد ضروری ہوگیا ہے۔اسلام میں عورت کو جو مقام دیا گیا ہے اس سے روگردانی کرنے والا مسلمان نہیں ہوسکتا اسی طرح ننھی کلیوں کو زندہ گاڑنے سے بچانے والا دین ان کلیوں کو مسلنے والے کو زندہ دفن کردے مگر سارے شہر کی سنگساری کے بعد ۔ مگر ٹھیریئے ! ہمارے دل کے زخم اور گھائو ابھی پرانے بھرتے نہیں ہیں کہ نئے کسی اور اذیت کے ساتھ، ایک انوکھے حادثے کے ساتھ عمل میں آجاتے ہیں۔ ہمارے دل کو جس قدر تکلیف پہنچتی ہے۔ اس کا اثر دیر تک رہتا ہے یعنی کسی بھی بچے کی دکھ تکلیف اور اذیت ناک موت پہ ہم کڑھتے رہتے ہیں کہ اب اس کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہئے تو اس قسم کے قاتلوں کی سزا کا مسئلہ یوں حل ہوسکتا ہے۔ میڈیکل کی دنیا میں ’’مردہ خانے‘‘ کی بے حد اہمیت اور ضرورت ہوتی ہے جہاں میڈیکل کے طالب علم انسان کے اعضاء پر جراحی سیکھتے ہیں ان کا موضوع ہر دم انسان اور مردہ انسانوں کے گرد گھومتا ہے وہ لاوارث لاشوں پر مختلف قسم کی چیڑپھاڑ کے بعد تمام جسمانی گوشت کو تیزاب کے ذریعے گھلا دیا جاتا ہے۔ (یقین کیجئے یہ سب لکھتے ہوئے جان کانپ رہی ہے مگروحشی درندے جانے کیسے معصوم کلیاں درندگی کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں)۔ ان انسانی اعضاء کو میڈیکل کے طلبہ نشتر اور چاقوئوں سے علیحدہ علیحدہ کرتے ہیں۔ ہڈیاں صاف ستھری کرکے سنا ہے کہ میڈیکل کے طلبہ کے گھر والوں کو اور دوسرے لوگوں کو ڈراتے رہتے ہیں۔ لیکن ان اعضاء کی چیر پھاڑ میں کسی قسم کا تشدد نہیں ہوتا مقصد انسانی علاج کے مختلف مراحل کو سیکھ کر ا ن کا علاج ہے۔ ان میں لاوارث نعشوں کو استعمال میں لایا جاتا ہے بلکہ کچھ نعش تو ایسی بھی ہوتی ہیں جو بے گناہ ہوں تو ان کی پہچان یوں ہوتی ہے کہ یاتو اس ساکت و جامد نعش سے خون بہنے لگتا ہے یا پھر جس کے حصوں پر دوران چیر پھاڑ کچھ نقش و نگار نشان وغیرہ ابھرنے لگتے ہیں تو اسے پھر وہ لوگ باقاعدہ کفن کے ساتھ دفنا دیتے ہیں۔ بہت سے لوگ جو درندگی میں معصوموں کی چیر پھاڑ کرتے ہیں انہیں مردہ خانے میں سزا سے پہلے لانا چاہئے اور انسانی اعضاء کی بریدہ بوٹیاں اور ہڈیاں دکھانا چاہئیں کہ تمہارا بھی یہ حال ہوگا مردہ خانے میں ظالمو جن پر تم نے ستم ڈھائے ان معصوموں کو تو اپنوں کا کفن اور رونا دھونا اورنماز جنازہ نصیب ہوگیا مگر تمہیں مردہ خانے میں صرف چیر پھاڑ اور گوشت کو تیزاب میں جلانے کیلئے لایا جائے گا۔ جابر و حشی قاتوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ تکلیف اور بچوں کی بے حرمتی کیسی ہوتی ہے۔ سزائیں جب تک عمل میں نہ آئیں گی جرائم کیسے ختم ہوں گے۔ دکھ کا مقام یہ ہے کہ فرشتہ بچی کا ابھی اندوہناک غم کم نہیں اتنا شور بھی مچا مگر ڈر کسی کو بھی نہ لگا کہیں آج بھی سننے کو ملا کہ تین بچوں کے ساتھ زیادتی ہوئی کسی کی لاش ملی کسی کی حالت بری ملی۔ ایک اندوہناک ،خوفناک تصویر بھی دیکھنے کو ملی کہ گجرات کے علاقے ڈنگہ میں مرید نے اپنی 22سالہ بیٹی اپنے پیر کی خدمت میں پیش کردی وہ دو سال خبیث پیر کی خدمت میں رہی اور وہ ظالم اسے تیزاب میں نہلاتا رہا بچی کے تمام نازک جسمانی اعضاء تک جھلسے ہوئے ہیں۔ اف خدایا!!! کیا ہوگا پاکستان کا خدارا ایسے ظالم لوگوں کو تو عبرت ناک سزا سے ہمکنا کریں۔ ویسے والدین زیادہ قصور وارہیں جو اپنے بچوں کو کسی کے نہ صرف حوالے کرتے ہیں بلکہ اپنی نظروں میں بھی نہیں رکھتے پھر جب ان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آئے تو طوطے اڑ جاتے ہیں۔ سزا بہت ضروری ہے عدالتیں تو صرف سیاستدانوں کی لڑائی لڑتی ہے ان متاثرین کا کیا ہوگا۔