اعتکاف کی اہمیت، فضیلت، مقاصد

May 26, 2019

تحریر:عبدالمجیدندیم…برمنگھم
عربی زبان میں اعتکاف کا مطلب رکنا اور تھم جانا ہے اور اصطلاحِ شرعی میں رمضان المبارک کے آخری عشرے میں کسی مرد یا عورت کا اپنے معتکف میں قیام پذیر ہوجانا اعتکاف کہلاتا ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک کر ادب و احترام سے بیٹھ رہنے کا نام اعتکاف ہے۔
سورۃ البقرہ کی آیت نمبر216میں اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے :’’ اور ہم نے ابراہیمؑ و اسماعیلؑ سے عہد و پیمان لیا کہ وہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں ،اعتکاف بیٹھنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک صاف کر دیں‘‘۔آیتِ مبارکہ کے مندرجات سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ گھر بیت اللہ شریف کے طواف اور رکوع و سجود کے ساتھ ساتھ ’اعتکاف‘‘ کو بھی قربِ الٰہی کا ذریعہ بتایا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے دو اولعزم پیغمبروں حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیلؑ کو حکم دیا کہ وہ معتکفین کے لئے انتظام و انصرام کریں۔ اس سے اعتکاف کے قدیم ہونے اور انسانی شخصیت کی تعمیر میں روحانی اثرات مرتب کرنے کا پتہ چلتا ہے۔سورۃ البقرہ ہی کی آیت نمبر187میں احکامات کا تذکرہ کرتے ہو ئے ’’ و انتم عا کفون فی المساجد‘‘ کے الفاظ آئے ہیں جواعتکاف کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ اس کے احکامات کا پتہ بھی دے رہے ہیں۔ اعتکاف کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ ہر سال اعتکاف کا اہتمام فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ روایت فرماتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا وفات تک یہ معمول رہا کہ آپ ہر سال رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے اور آپؐ کی وفات کے بعد آپؐ کی ازواجِ مطہرات بھی آپؐ کی سنت کی پیروی میں اعتکاف فرماتی تھیں۔(بخاری ،کتاب الاعتکاف)
اعتکاف کرنے والا اتنا پاکیزہ و برگزیدہ ہوجاتا ہے کہ رسالتِ مآب ﷺ نے فرمایا ’’ جس نے رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیاتو اسے دوحج اور دوعمرے ادا کرنے کے برابر ثواب ملے گا ‘‘۔ (بیھقی فی شعب الایمان)حقیقت یہ ہے کہ اعتکاف کرنے والے کی مثال احرام باندھنے والے کی ہے جو اللہ کے دامنِ رحمت سے وابستہ ہونے کے لئے دنیا کے تمام علائق اور ضرورتوں کو چھوڑ دیتا ہے ۔اسی طرح اعتکاف کرنے والا رمضان کے آخری عشرے میں تمام تعلقات کو خیر باد کہہ کر مسجد کے کسی کونے میں بیٹھ کر اللہ کے در کا فقیر بن جاتاہے۔ اس کی یہ درویشی اور فقیری اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ پسند آتی ہے۔ اس کی یہ عاجزانہ شان دیکھ کر اللہ تعالیٰ اس پر بہت زیادہ مہربان ہو جاتے ہیں اور اسے جہنم کی آگ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھٹکارا عطا کرنے کے ساتھ ساتھ جنت کا مستحق بنا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اعتکاف کرنے والوں کے لئے اس قدر جوش میں ہوتی ہے کہ اگر کو ئی شخص ایک دن کا بھی اعتکاف کرے تو اس کے لئے اعلان کیا جاتا ہے ’’ جو شخص رضائے الٰہی کے حصول کے لئے ایک دن کا اعتکاف کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان ایسی تین خندقیں بنا دے گا جن کے درمیان آسمان و زمین کے فاصلے سے بھی زیادہ فاصلہ ہوگا۔ ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ ان دو خندقوں کے درمیان مشرق و مغرب کے فاصلے سے بھی زیادہ فاصلہ ہوگا (درِ منثور)۔اس روایت میں دو باتیں قابلِ غور ہیں ایک تو یہ کہ اعتکاف کی ساری عظمت کا تعلق انسان کی نیت کے خلوص کے ساتھ ہے۔ اگر یہ نیت اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کی ہو گی تو اس کا اجر و ثواب جہنم کی آگ سے آزادی کی صورت میں آئے گا۔ ظاہر ہے کہ ایک صاحبِ ایمان کے لئے اس سے بڑی کامیابی کیا ہو سکتی ہے کہ اسے جہنم کی آگ سے بچا لیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے ’’ پس جو شخص جہنم کی آگ سے بچالیا گیا اور جنت میں داخل کر لیا گیا تو وہ حقیقت میں کامیاب ہو گیا ‘‘۔(آلِ عمران :185)۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک دن کے اعتکاف کی برکات اتنی زیادہ ہیں تو پورے عشرے کے اعتکاف پر اللہ تعالیٰ کی داد و دہش کتنی زیا دہ ہوں گی۔
معتکف پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جہاں وہ اعتکاف کے دوران کی جانے والی نیکیوں کا اجر و ثواب سمیٹتا ہے وہیں پر اسے ان تمام نیک اعمال کا ثواب بھی ملے گا جو اعتکاف سے باہر ہونے کی صورت میں سرانجام دیئے جا سکتے تھے۔ مثال کے طور پر اگر وہ ان دنوں میں کسی بیمار کی عیادت کا پروگرام رکھتا تھا یا اپنے والدین کی خدمت کا معمول تھا جسے وہ اعتکاف کی وجہ سے پورا نہیں کر سکا تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمتِ کاملہ سے یہ اور اس طرح کے دوسرے نیک اعمال کا ثواب عطا فرمائے گا۔ حدیث کے الفاظ ہیں ’’ اعتکا ف کرنے والا گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اوراس کے لئے ان ساری نیکیوں کا ثواب بھی جاری کر دیا جا تاہے جو اس طرح کے وہ لوگ بجا لاتے ہیں جو اعتکاف میں نہیں ہیں۔(ابنِ ما جہ ۔کتاب الا عتکا ف)
اعتکاف کرنے والے کے لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کے لئے لیلۃ القدر کا حصول آسان ہو جاتا ہے۔ یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ جو شخص اعتکاف کرتا ہے اس کے زیادہ تر لمحات اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزرتے ہیں ۔اس کے لئے آخری عشرے کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر کا تلاش کرنا نسبتا ً آسان ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جس شخص کو اعتکاف کے ساتھ ساتھ لیلۃ القدر بھی نصیب ہو جائے اس کی قسمت کا کیا ہی کہنا ! ایک طرف تو اسے اعتکاف کا ثواب مل رہا ہے اور دوسری طرف اسے ایک ایسی رات مل گئی ہے جس کی عبادت و ریاضت ہزار مہینے کی عبادت سے کہیں زیادہ افضل ہے اور صرف یہی نہیں اسے حضرت جبریلِ امینؑ اور ان کے ساتھ اترنے والے بے شمار فرشتوں کی جانب سے ان تمام برکات سے وافر حصہ بھی مل چکا ہے جو انہی خوش نصیبوں کو ملتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ اپنا برگزیدہ و چنیدہ ہو نے کا شرف عطا فرما تے ہیں۔ان تمام فضائل کے ساتھ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اعتکاف کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا قرب اور رضا حاصل کر لے۔ ایک عشرے کے لئے اپنے خاندان، دوست و احباب اور کاروبار سے الگ تھلگ ہونے کا مقصد اس احساس کو تازہ کرنا ہے کہ ایک صاحبِ ایمان کے لئے اللہ تعالیٰ کی معیت ہی سب سے بڑا اعزاز ہے۔ وہ وصالِ رب کی لذت سے آشنا ہونے لئے خلوت کے لمحات کو ترجیح دیتا ہے تا کہ وہ پوری یکسوئی اور انہماک کے ساتھ اپنے خالق و مالک کے ساتھ وابستہ ہو جائے۔ یوں تو اس کی یہ وابستگی ظاہری طور پر نو یا دس دن ہوتی ہے لیکن اس کے نتیجے میں اس کا اپنے رب کے ساتھ اس قدر مضبوط رشتہ استوار ہو جاتا ہے کہ زمانے کی کوئی گردش اسے کمزور نہیں کر سکتی۔ اعتکاف کا ایک مقصد اس احساس کو بھی تازہ کرتا ہے کہ ایک بندہ اللہ تعالیٰ کا مہمان بن کر اس کے آستانے پر آ گیا ہے لہٰذا اس کی حیثیت ایک فقیرکی سی ہے اور وہ جن کا مہمان بن کر آیا ہے وہ اس کائنات کے سب سے زیادہ داد و دہش کرنے والے ہیں۔ اس کا یہ احساس اسے ان تمام خزانوں سے مالا مال کروا دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں۔ پھر یہ بات بھی سو فی صد سچ ہے کہ اگر ہم کسی دنیوی طور پر با اثر اور امیر شخص کے مہمان بنیں تو وہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر اپنے مہمان کی عزت افزائی کرتا ہے تو تصور کیجیے کہ ربِ ذوالجلال جو سارے خزانوں کے مالک و مختار ہیں ان کی فیاضی کا کیا عالم ہو گا۔یاد رکھیے اعتکاف اسی وقت ایک عظیم الشان عبادت بن سکتا ہے جب معتکفین اسے اُس کی روح کے مطابق سرانجام دیں۔