عبادت گاہوں کی تباہی کیوں…؟

May 26, 2019

تحریر:مسز شمیم ڈیوڈ…لندن
سری لنکا میں عید قیامت المسیح (ایسٹر)کے موقع پر گرجا گھروں اور مغربی طرز پرتعیش ہوٹلز پر دہشت گردوں کا ظالمانہ اور وحشیانہ حملہ کسی بھی مہذب معاشرہ اور گوشتیں دِل رکھنے والے افراد کے لئے نہایت اندوہناک اور دِل تڑپا دینے والا سانحہ ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ تمام مہذب ممالک، معاشروں اور افراد نے اس کی بھر پور مذمت کی ہے لیکن ان ہی مہذب ممالک اور معاشروں میں ایسے افرادبھی ہیں جو ایسے وحشیانہ طرز عمل کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں اور ایسے اعمال پر بہت نازاں ہیں اور پھر ایسے لوگ بھی ہیں جو شاید ایسے اعمال پر نازاں تو نہ ہوں یاعملی طور پر ایسے فعل میں شریک تونہ ہوں مگر ایسے واقعات کی حمایت کرتے یا اس کے حق میں مختلف جواز پیش کرتے ہیں ۔ انسانیت اور انسانی اقدار کی لغت میں ایسے وحشیانہ اعمال کی حمایت میں کبھی کوئی جواز ہو ہی نہیں سکتا۔ کس قدر دکھ ، افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ انسان جو اشرف المخلوقات کا لقب رکھتا ہے ۔ اس قدر درندہ صفت ہو گیا ہے کہ ان مذہبی تعلیمات کا سہارا لے کر انسانی زندگی کو تہہ و بالا اور بے حرمتی کرتا ہے۔ جو تعلیمات انسانی زندگی کی حرمت قدر و منزلت کے تحفظ کا درس دیتی ہیں لیکن ایسے افراد کو انسان کہنا انسانیت کی بے حرمتی ہے جو اپنی درندگی میں عبادت گزار بچوں، بوڑھوں، خواتین، مردوں، جوانوں کو دورانِ عبادت گاجر مولی کی طرح مسخ کرکے خون میں نہلا دے۔ ایسے سانحات کسی بھی عبادت گاہ یعنی گرجا گھر، مسجد ، امام بارگاہ یا مندر میں ہوں انسانیت کے چہرہ پر ایک بدنما سیاہ داغ ہیں۔ سری لنکا کی حکومت کی اس سانحہ کی صورتحال پر فوری ردِ عمل پر ناکامی اور دفاہی اور حفاظتی انتظامات میں غفلت اس سانحہ کو مزید پر درد و تاسف کا موجب بناتی ہے۔ خاص طور پر دیگر ممالک کی خفیہ خبر رساں ایجنسیز اور اداروں نے قبل از وقت ایسا واقعہ رونما ہونے کی اطلاع دی تھی لیکن سری لنکا کی حکومت اپنے اندرونی اختلافات میں اس قدر الجھی ہوئی تھی کہ انہوں نے اس اطلاع پر کوئی عمل نہ کیا ۔ سری لنکا حکومت کی یہ ناقابل معافی و تلافی غفلت ہے۔ اگر حکومت نے بروقت اس اطلاع کے مطابق اقدام کئے ہوتے تو شاید ایسے وسیع پیمانہ پر انسانی جانوں کو نقصان نہ ہو تا۔ اس غفلت کا درد کوئی ہلاک ہونے والوں کے لواحقین سے پوچھے۔ اس سانحہ کا یہ بہت دردناک پہلو ہے۔ عبادت گاہوں پر حملے دہشت گردوں کے ان مذاہب کے پیروکاروں کے لئے شدید نفرت اور انکی تباہی و بربادی کی شدید خواہش کا اظہار ہیں۔ خصوصاً اہم اور مقدس ترین تہواروں کے موقع پر جب اجتماع بھر پور ہو ایسے حملوں کامقصد انتہائی ممکنہ تعداد میں انسانی جانوں کا نقصان مقصود ہوتا ہے۔ سری لنکا میں گرجا گھروں پر حملہ مسیحوں کے خلاف پائی جانے والی نفرت کا اظہار ہے۔ سری لنکا واحد ملک نہیں جہاں پرمسیحیوں پر حملہ کیا گیا ۔ مسیحیت اور مسیحیوں (کلیسا) پر حملے ایذا رسانی، تشدد (پر سیکیشن)کسی ایک ملک یا خطہ سے وابستہ نہیں بلکہ یہ ایک عالمگیر امر بن چکا ہے۔ Pew (پیو) ریسرچ سینٹر جو ایک معتبر ادارہ ہے، ان کی تحقیق کے مطابق مسیحیت اور مسیحی لوگ اس صدی کےسب سے زیادہ تشدد، ظلم، ایذا رسانی اور ستم گری کا شکار ہیں۔ یہ کوئی قصہ پارینہ نہیں بلکہ زمانہ حال کی افسوسناک حقیقت ہے۔ بھارت جو سیکولرازم کا دعویدار ہے وہاں ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے مسیحی لوگوں پر حملے کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ بہت دفعہ مسیحی عبادت گاہوں اور مسیحی آبادیوں پر حملے ہوئے ہیں۔ مذہبی خادمین اور پادری صاحبان پر حملے اور تضحیک کی جاتی ہے۔ ایک پادری صاحب کو چلتی ریل گاڑی سے اسلئے پھینک دیا گیا کہ ان کے ہاتھ میں بائبل مقدس تھی۔ نائجیریا میں مسیحیوں پر تشدد اور ظلم انتہا کی حد کو چھو رہا ہے۔ جس دِن نیوزی لینڈمیں مسجد پر قابل مذمت اور نفرت انگیز حملہ ہوا۔ اسی دِن نائجیریا میں 200کے قریب مسیحی لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔ اور ساری دنیا میں کہیں سے بھی اف تک کی آواز نہیں آئی ۔ بوکو حرام جو ایک انتہا پسند، دہشت گرد تنظیم ہے وہ نائیجیریا سے مسیحیوں کا صفایا چاہتے ہیں۔ یہ بہت جابراور منہ زور تنظیم ہے۔ یہ وہی تنظیم ہے جس نے 250کے قریب سکول کی لڑکیوں کو اغوا کر لیا تھا چنانچہ نائجیریا میں مسیحی لوگوں کی حالت زار کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ پاکستان جو میرا وطن ہے۔ جسکی مٹی سے ایک قدرتی محبت ہے۔ اس حوالہ سے افسوس اور شرم سے کہنا پڑتا ہے کہ وہاں کے حالات بھی کوئی خوش کن نہیں ہیں۔پاکستان میں متعدد دفعہ گرجا گھروں کو بے حرمت اور مسیحی آبادیوں پر تباہ کن حملے ہو چکے ہیں۔ گوجرہ، شانتی نگر ، سانگلہ ہل، جوزف کالونی چند واقعات ہیں جنکا ذکر ناقابل گرید ہے۔ معاشرقی امتیاز، تضحیک اور غیر انسانی سلوک کے واقعات دِل خراش اور روز مرہ کا معمول ہیں۔ جو کہ پاکستان کے مسیحی لوگوں کی مالی، تعلیمی اور سیاسی اور پیشہ ورانہ ترقی میں ناقابل ِ تسخیر رکاوٹ ہے۔ اس وجہ سے اجتماعی طور پر اِس کمیونٹی کی تنزلی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ انڈونیشیا جو کہ رقبہ آبادی اور اقتصادی لحاظ سے اسلامی دنیا کا قابل ِ فخر ملک ہے۔ لیکن مسیحیوں کے خلاف ناروا سلوک اور عبادت گاہوں پر حملوں کے واقعات ہو چکے ہیں۔ شام ، عراق، ترکی جہاں سے مسیحیت شروع ہوئی تھی وہاں پر آج مسیحی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایران، سعودی عرب اور لیبیا کی تاریخ بھی مسیحی اقلیت کے حوالہ سے کوئی زیادہ قابل ِ فخرنہیں۔ مصر میں قاپٹک کرسچیز (قبطی کلیسا) پر حملے اور جبر اخباروں کی شہ سرخیاں وہاں پر مسیحی ایذا رسانی اور تشدد کی شاہد ہیں۔ چین جو کہ ایک ابھرتی ہوئی سپر پاور تصور کیا جاتا ہے۔ مذہبی آزادی پر پابندی چین کی حکومتی فلاسفی کا بنیادی نکتہ ہے۔ لہٰذا کلیسا پر پابندی دخل اندازی اور گرجا گھروں کو مسمار اور تباہ کرنا مزاحمت کرنے والوں پر تشدد اور پابند سلاسل کرنا چینی حکومت کی پالیسی کا حصہ ہیں۔ انگلستان جو کہنے کو ایک مسیحی ملک سمجھا جاتا ہے یہاں پر بھی مسیحی تبلیغ پر کڑی پابندیاں عائد ہیں جائے ملازمت مسیحی مذہبی علامات اور نشانیوں پر پابندیاں ہیں۔ بعض سرکاری دفاتر اور علاقوں میں کرسمس کی بجائے موسمی تہوار کہنے پر زور دیا جاتا ہے۔ مغرب میں دھریت اور الحا دکے پیروکار سب سے زیادی مسیحیت کو زیر عتاب لاتے اور حملہ آور ہوتے ہیں۔ مغرب میں کلیسا الحا د اور دھربت کے ہاتھوں انتہا ی تشدد کا شکار ہے۔ یہ تشدد جسمانی نہ بھی ہو لیکن ذہنی، روحانی ، جذباتی اور قانونی طور پر دھربت مسیحیت کو بری طرح مسخ کرنے کی کوشش کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ یہ تحریک گمنام اور ظاہری جسمانی تشدد سے مبرا نظر آتی ہے۔ لیکن اس کے زہر آلود اثرات جسمانی تشدد سے بھی زیادہ ہولناک اور خطرناک اور دیرپا ہیں۔ سری لنکا میں گرجا گھروں پر حملے عالمگیر کلیسا کی ایذا رسانی کی سلسلہ وار کڑیوں کی ایک کڑی ہے۔ سری لنکا میں ہونے والے سانحہ کے دہشت گردوں کا تعلق داعش کے ساتھ بتایا جاتا ہے۔ داعش اور دیگر انتہا پسند جہادی تنظیمیں اپنے آپ کو اسلام کا محافظ سمجھتی ہیں۔ وہ مغربی تہذیب و تمدن کو اسلام دشمن تسلیم کرتی ہیں۔ اس وجہ سے وہ مغرب کے ساتھ عناد رکھتے ہیں۔ سری لنکا میں مغربی طرز کے پُرتعیش ہوٹلوں اور گرجا گھروں پر حملہ مغرب کے خلاف داعش کا جہاد ہے۔ اپنی منتشر ، الجھی ہوئی اور گڈ مڈ سوچ کی وجہ سے وہ مسیحیت کو محض مغرب کا مذہب خیال کرتے ہیں۔ لہٰذا اُن کی سراسیمہ سوچ کے مطابق سری لنکا میں گرجا گھروں پر حملہ مغرب پر حملہ ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ مسیحیت کو مغربی مذہب تسلیم کرنا محض داعش یا انتہا پسند جہادی تنظیموں تک محدود نہیں بلکہ بہت سے ممالک میں یہ تاثر فرد ِ عام میں بھی پایا جاتا ہے تاریخ کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو یہ جہالت اور کم علمی ہے۔ جو یہ نہیں جانتے کہ مسیحیت کا آغاز ہی مشرق وسطیٰ میں ہوا۔ شام، عراق اور ترکی جیسے ممالک مسیحیت کا گہوارہ تھے۔ جیسے جیسے تاریخی واقعات رونما ہوتے گئے اور تاریخ ممالک معاشروں اور مذاہب پر اثر انداز ہوتی رہی۔ مسیحیت پر بھی تاریخی نقوش اثر انداز ہوئے اور یہ مشرق ِ وسطیٰ سے نکل کر دوسرے خطوں و بر اعظم میں پھیلتی گئی۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مغرب میں مسیحیت نے بہت زور پکڑا۔ لیکن اس سے پہلے دنیا میں مسیحیت پھیل چکی تھی۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی مبلغین اور مشنریز نے افریقہ اور ہندو پاک میں مسیحیت کے پرچار کو مزید وسعت بخشی اور بھرپور کردار ادا کیا۔ جیسے باقی مذاہب تبلیغ اور دعوت کے زور بازو سے دنیا میں وسعت حاصل کرتے گئے ویسے ہی مسیحیت بھی مشرق وسطیٰ سے نکل کر ساری دنیا میں پھیلی۔ لہٰذا مقامی لوگوں کو جنہوں نے مسیحیت قبول کی اُن کو مغرب کے ساتھ نتھی کرنا سراسر مذہبی تفریق اور ان کو قومی حصار سے باہر رکھنے کا بہانہ ہے۔ کیونکہ مذاہب کے لحاظ سے وہ مسیحی ہیں لیکن وہ اپنی اپنی سر زمین کی مٹی کے باسی ہیں۔ اُن کی زبان ، لباس، علم و ادب، موسیقی، خوراک تہذیب و تمدن اور مزاح مقامی ہے۔ پھر ان کو مغرب کے ساتھ کیسے جوڑا جا سکتا ہے اور مغربی مبلغین یا مشنریز کے پرچار پراگر مذہب بدل کر مسیحیت قبول بھی کی گئی ہے تو اس تبدیلی مذہب کو گزرے کئی سو سال ہو چکے ہیں۔ کیا وہ ابھی تک اپنے اپنے ملک کے ویسے شہری نہیں ہو سکتے جیسے باقی اکثریتی شہری ہیں۔ اور جس مغرب کے ساتھ مسیحیت اور مسیحیوں کو جوڑا جا رہا ہے اُن مغربی لیڈران میں تو اتنی سکت اور جرات نہیں کہ وہ سری لنکا کے گرجا گھروں پر حملہ کو مسیحی لوگوں پر حملہ کہہ سکیں۔ بلکہ برطانیہ کی وزیر اعظم ٹریسامے اور سابق صدر استہائے متحدہ امریکہ جناب باراک اوبامہ جیسے لوگ نئی نئی اصلاحات سے اِس حملہ کی مذمت کرتے ہوئے اِن مسیحی شہداء کو (ایسٹر ورشپر) کہہ کر یاد کرتے ہیں۔ اکیسویں صدی سائنسی اور تعلیمی ترقی میں گزشتہ ادوار کو بہت پیچھے چھوڑ آئی ہے۔ اب دنیا کو ایک گلوبل ولیج کا استعارہ حاصل ہے۔ یعنی دنیا سکڑ کر ایک دوسرے کے قریب آچکی ہے۔ اقوام، مذاہب ممالک ایک دوسرے کے قریب آچکے ہیں۔ نسلی و مذہبی رواداری ، ہم آہنگی اور انسانی حقوق کا تحفظ اِس ترقی یافتہ صدی کا طرہ امتیاز ہے۔ تو یہ نہایت ضروری ہے کہ دنیا بھر کے ممالک اور لیڈران مذہب، رنگ، نسل، لسانیت اور جغرافیائی شناخت کی تفریق و امتیاز سے پیدا ہونے والے تشدد، ظلم اور ناروا سلوک کا قلع قمع کریں اور انتہا پسند تنظیموں کا چاہے مشرق میں ہو یا مغرب، دائیں یا بائیں بازو کی سوچ رکھتی ہو مل کر مقابلہ کریں۔ تو پھر ہی اکیسویں صدی اصل معنوں میں ترقی یافتہ صدی کہلانے کی حقدار ہوگی۔