ضمانت قبل از گرفتاری:نیا نظام

May 26, 2019

چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید خان کھوسہ نے ضمانت قبل از گرفتاری کے اصولوں پر دوبارہ غور کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ضابطہ فوجداری ضمانت قبل از گرفتاری کی اجازت نہیں دیتا جبکہ ہر کیس میں اس کی درخواستیں آ جاتی ہیں۔ فاضل چیف جسٹس نے ڈکیتی کے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران 1949ء میں مشہور ہدایت اللہ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اس وقت کسی عزت دار کو مقدمے میں پھنسانے سے بچانے کے لئے یہ گنجائش نکالی گئی تھی لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے۔ ان ریمارکس کی روشنی میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ شواہد کی رو سے وطن عزیز میں ضمانت قبل از گرفتاری کا سب سے زیادہ فائدہ جرائم پیشہ افراد اٹھاتے ہیں۔ وہ باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جرم کرتے ہیں جس کے بعد کیس کو سرد خانے میں ڈال دینا، کرپشن، بدعنوانی خصوصاً پولیس کا منفی کردار جیسے عوامل انصاف کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ ان برائیوں کے خاتمے کے لئے چیف جسٹس کی سوچ عدالتی اصلاحات کی طرف ایک اہم قدم ہے، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ شرفا کو جھوٹے مقدموں میں پھنسانے یا انہیں بلیک میل کرنے کے رجحانات معاشرے میں عام ہیں اور فی الحقیقت زیادہ تر غریب اور مجبور لوگ ہی ایسے مقدمات کا سامنا کرتے ہیں جو وسائل نہ ہونے کی بنا پر اپنی ضمانت بھی نہیں کروا سکتے جبکہ بااثر افراد کو جھوٹے مقدموں میں پھنسانا آسان نہیں ہوتا۔ ماضی میں منظر عام پر آنے والے کیسوں کے حوالے سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ضمانت قبل از گرفتاری کا زیادہ تر منفی فائدہ اٹھایا گیا لیکن قانون سب کیلئے یکساں ہے جبکہ عدالتی اصلاحات کے عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی متذکرہ چھوٹ اور حکم امتناعی کا ناجائز استعمال ہی ہے۔ پھر بھی اگر ہدایت اللہ کیس جیسی صورت حال کا سامنا ہو تو اس بارے میں قانونی ماہرین کی آراء کی روشنی میں مروجہ قوانین میں ترمیم پر غور کیا جانا مناسب ہوگا۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998