ڈالر کا بائیکاٹ

May 26, 2019

امریکہ اور چین کے درمیان جو تجارتی چپقلش جاری ہے اس میں اس وقت تک امریکہ چار سو انیس ارب ڈالر تجارتی خسارے میں ہے۔امریکہ چاہتا ہے کہ چین بھی امریکہ اشیا ءخریدے کہ تجارتی خسارے میں کمی واقع ہو مگر وہ کچھ اورخریدنے پر تیار ہی نہیں۔ پاکستان بھی ایسی ہی صورتحال سے نبردآزما ہے ۔تجارتی خسارے کا حجم اتنا بڑھ گیا ہے کہ ڈالر عفریت محسوس ہونے لگا ہے۔اسی سبب ملک میں ڈالر کے ساتھ جنگ کی سی کیفیت ہے ۔پچھلے کچھ دنوں میں ڈالر کی قیمت تیزی کے ساتھ اوپر گئی تو بہت شور اٹھا اور بڑی بڑی خوفناک پیشن گوئیاں سنائی دینے لگیں ۔اہم ترین ماہرینِ معیشت نےیہی خیال آرائی کی کہ کچھ عرصہ تک اگر ڈالر ایک سو پچاس روپے کے ارد گرد رہا تویقینی طور پرمعیشت میں استحکام آ جائے گا ۔بے شک ہمیں ’’ڈالرکی محبت نے کہیں کا نہیں رکھا‘‘ مگرلوگ کہہ رہے ہیں کہ ’’ ڈالر کا بائیکاٹ ‘‘ کی عوامی تحریک کی کامیابی کے امکانات بہت زیادہ ہیں ۔عوام بڑی تیزی سے اس تحریک کا حصہ بن رہے ہیں ، عوام مسلسل ڈالر فروخت کررہے ہیں ،جیسے جیسے یہ تحریک مضبوط ہوتی جائے گی ڈالر کی قیمت گرتی چلی جائے گی ۔اس تحریک کے توسط سے کچھ اورتجاویز بھی سامنے آ رہی ہیں ۔ عوام کواُن اشیا کے بائیکاٹ کا مشورہ بھی دیا جارہا ہے جن کی در آمد صرف ڈالر سے ممکن ہے ۔ ڈالر کوچھوڑ کر چینی کرنسی یوآن میں کاروبار بڑھانے کا مشورہ بھی خاصا اہم ہے ۔تیل کی ادائیگی سعودی ریال میں کرنے کی تجویز بھی زیرِ غور ہے۔ کسی زمانے میں کرنسی کی مضبوطی کا تعلق سونے کے ذخائر سے ہوتا تھا مگر اب امریکی ڈالرز کے ریزرواتار چڑھائو ہونے لگا ہے۔شاید اسی لئےیورپ نے یورو کی کرنسی متعارف کرائی تھی کہ ڈالر کی پیش قدمی کو روکا جائے، مگرابھی تک زیادہ ترممالک لین دین ڈالر میں ہی کر رہے ہیں ۔ایک تجویز یہ بھی ہے کہ پاکستان تمام دوست ممالک کے ساتھ لین دین یوآن میں کرے، چاہے کرنسی کی قیمت کا تعین ڈالر سے ہی کیوں نہ کیا جائے۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں سعودی عرب نے بھی کہاتھا کہ وہ چین کو یوآن کے عوض تیل دینے پر غور کررہا ہے مگر ابھی تک ایسا نہیں ہوسکا۔ترکی نے بھی ایک نیامعاشی نظام بنانے کی آغاز کیا ہےجس کے تحت ،ایران ، چین اور یوکرائن کے ساتھ تجارت مقامی کرنسیوں میں ہونی ہے ۔ایران تو کئی ممالک کے ساتھ مقامی کرنسیوں میں کاروبارکررہا ہے۔ وہ جو تیل روس کو بیچتا ہے اس کے عوض ڈالر نہیں روبل وصول کرتا ہے ۔ بھارت بھی کافی عرصہ روس سے دفاعی سازو سامان کی خریداری روسی کرنسی میں کررہا ہے۔میں روس دو مرتبہ گیا پہلی بار ماسکو سوویت یونین زمانے میں گیا اس وقت مجھے چار ڈالر کا ایک روبل ملا تھا ۔ دوسری مرتبہ انیس سو نوے میں گیا جب سوویت یونین ٹوٹ چکا تھا اس وقت مجھے ایک ڈالر کے عوض ساڑھے تیرہ سو روبل ملے تھے مگر روبل نے بڑی ہمت کی ،اپنی ساکھ تیزی سے اضافہ کیا،اس وقت ایک ڈالر کے عوض تقریباً چونسٹھ روبل مل رہے ہیں۔ ان شاءاللہ پاکستانی روپے کی ساکھ بہت جلد بہت بہتر ہوجائے گی ۔اس وقت دنیا کے کئی ممالک اس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح امریکی ڈالر کی حاکمیت ختم کی جائے ۔بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ڈالر سے علیحدہ ہوتے ہی وہ ممالک اپنے کاروباری معاہدوں میں ’’ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن سے علیحدہ ہوجاتے ہیں ۔ تجارت کے عالمی نظام پر ڈالر کی گرفت بہت مضبوط ہے ۔عمران خان نے بھی حکومت میں آتے ہی ڈالر کی خدائی تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔انہوں نے سب سے پہلے چین کے ساتھ یوآن میں تجارت کا معاہدہ کیا۔اس وقت چین کے ساتھ پاکستان کی تجارت کا حجم تقریباًبیس ارب ڈالر کے قریب پہنچنے والاہے ۔جیسے ہی یہ تجارت مکمل طور پر چینی کرنسی میں شروع ہوجائے گی ڈالر میں تیزی سے گراوٹ آئے گی۔پاکستان کو ڈالر کی سب سے زیادہ ضرورت دفاعی ساز و سامان کی خریداری میں ہوتی ہے اگر ہم اس معاملے میں خودکو چین تک محدود کرلیں توپاکستان میں ڈالر کی قیمت کوایک بڑا دھچکا لگ سکتا ہے۔عرب ممالک کے ساتھ ریال میں کاروبار سے بھی معاملات بہتری آسکتی ہے۔یورپ کے ساتھ جو کاروبار ہے اس میں ڈالر سے زیادہ یورو کو اہمیت دی جانے چاہئیے۔یہ وہ تجاویز ہیں جن پر عمل کرنے سے روپیہ ڈالر کے سامنے کھڑابھی ہوگااور تجارت کی عالمی منڈی کے ساتھ جڑا بھی رہے گا ۔کچھ ممالک ایسے ہیں جو ڈالر میں بالکل کاروبار نہیں کرتے جن میں سر فہرست شمالی کوریا ہےلیکن اس کی زیادہ تر تجارت چین کے ساتھ ہے ۔ ممکن ہے مستقبل میں چینی یوآن دنیا بھر میں ڈالر کی جگہ لےلے مگر یہ اتنےجلدی ممکن نہیں لیکن عمران خان کی موجودہ معاشی پالیسوں سے لگ رہا ہے کہ پاکستان میں بہت جلد ڈالر زمین پر گرنے والا ہے ،یہ جو کہا جارہا ہے کہ عمران خان کی حکومت جب اپنے پانچ سال مکمل کرے گی تو آئی ایم ایف کا تمام قرضہ پاکستان اتار چکا ہو گا شاید اس کے پس منظر میں یہی ڈالر کا معاملہ ہے ۔یہ بھی کہاجارہا ہے کہ اگلے کچھ ماہ ڈالر کی قیمت یک لخت نیچے آ جائے گی ۔بے شک پاکستانی قرضوں کا حجم ڈالر کی قیمت کے ساتھ جڑا ہواہے۔قرضے ڈالر کی قیمت کے ساتھ بڑھتے اور کم ہوتے ہیں ۔بہرحال موجودہ حکومت کی معاشی پالیسی یہی ہے کہ جتنا جلد ہوسکے ڈالرکی قیمت پاکستان کی اوپن مارکیٹ میں گرا دی جائے ۔توقع ہے کہ ڈالر کے بائیکاٹ کی تحریک سے اتنا ڈالر اسٹیٹ بینک کے پاس جمع ہوجائے گا کہ وہ روزانہ کئی ملین ڈالر مارکیٹ میں پھیلا سکے گا جیسے ہی اسٹیٹ بینک نے ڈالر کو مارکیٹ میں ڈالنا شروع کیا اور دوسری طرف ڈالر خریدار موجود نہ ہوا تو ڈالرحیرت انگیز طور پر گراوٹ کی طرف جائے گا ۔ایک اطلاع کے مطابق آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے کے فوری بعد جو ڈالر کی شرح میں اچانک بہت زیادہ اضافہ ہوا وہ بھی مصنوعی تھا کہ کچھ سیاسی سرمایہ داروں نے پاکستان کی اوپن مارکیٹ سے یک لخت ڈالر اٹھا لیا تھا، دراصل جیسے ہی انہیں معلوم ہواکہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے پا گیا ہے کہ ڈالر کی قیمت اوپن مارکیٹ میں طے ہوگی تو انہوں نے حکومت کوٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا۔معاشی بحران کو بڑھانے کی بھرپور کوشش کی۔میں نے کسی دور میں کہا تھا

ریٹ ڈالر کا بڑھا دیں گے فرشتے منصور

پھر کسی کوٹھی پہ اللہ کی رحمت ہو گی