کھوٹے سکے اور اے پی سی

May 26, 2019

ہمارے سامنے اس وقت پریس کانفرنس کرتے جناب بلاول بھٹو کی افطار پارٹی میں شریک زعما کی ’اجتماعی‘ تصویر ہے اور خیال میں منیر نیازی کا لافانی شعر!

آنکھوں میں اُڑ رہی ہے لُٹی محفلوں کی دھول

عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو!

یہ روایت ہے کہ کچھ مسائل واقعتاً ایسے ہوتے ہیں کہ سیاسی لیڈر شپ ایک جگہ جمع ہوکر کسی اتحاد یا تحریک کی داغ بیل ڈالتی ہے اور یوں یہ ایک بڑا واقعہ قرار پاتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ ایسے اتحادوں سے بھی عبارت ہے جو اپنا نقش ثبت کرگئے، لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس عام ہوا، عوام نے اس یکجائی کو کوئی اہمیت ہی نہ دی، پھر اپوزیشن کو بھی اس کا اندازہ تھا، یہی وجہ ہے کہ ہر رہنما یہ کہنے پر مجبور تھا کہ ہم حکومت گرانے کیلئے نہیں (بالفاظ دیگر اقتدار کیلئے) یہاں جمع ہوئے ہیں۔ یعنی اپوزیشن یہ مانتی تھی کہ عوام کا چونکہ ہمیں اعتبار حاصل نہیں اس لئے نئے انتخابات یا حکومت گرانے کی بجائے عوام کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا جائے۔ اور جناب افتخار حسین ایسا کہہ بھی گئے ’’ہم عوام کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھیں گے‘‘۔ اب جب اپوزیشن دکھتی رگ پر ہاتھ رکھے گی تو ظاہر ہے عوام مزید چیخیں چلائیں گے۔ یہ کم آگاہی تھی، زباں و بیاں کے اسلوب پر خودکش حملہ یا میاں صاحب دراصل کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ ہم عوام کے دکھوں کا مداوا کریں گے۔ لیکن دیگر رہنمائوں سے منفرد رہنے کے شوق وہ میں ایسا کہہ گئے۔ بہرصورت بعض موقع پرست سیاستدان اپنی اغراض کیلئے عوام کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنا نہیں بھولتے۔ جہاں تک مہنگائی کی بات ہے تو اگرچہ یہ بڑا ایشو ہے لیکن ان سیاستدانوں نے اپنے ادوار میں اگر ملک و عوام کو کسی قابل بنایا ہوتا تو شاید اس مہنگائی کی نوبت ہی نہ آتی۔ یہ حقیقت بھی اپوزیشن جانتی ہے کہ وہ اپنی خفت مٹانے کے ماسوا کوئی پروگرام ہی نہیں رکھتی۔ افطار پارٹی کے اگلے روز شاہ زیب خانزادہ کے پروگرام میں شاہد خاقان عباسی صاحب سے جب سوال کیا گیا کہ اگر آج آپ وزیراعظم ہوتے یا آپ کی حکومت ہوتی تو کیا ڈالر اور مہنگائی قابو میں ہوتی؟ تو سابق وزیراعظم کوئی دلیل نہ دے سکے۔ وزیراعظم عمران خان بھی یہ کہہ کر کہ ’’ہمیں تمام آلائشیں ماضی کی حکومتوں سے ملی ہیں‘‘ اگرچہ بری الزمہ نہیں ہو سکتے، لیکن آلائشیں تو بہرصورت سابق غیر جمہوری و نام نہاد جمہوری حکومتوں ہی کا ناقابل فراموش تحفہ ہیں۔ اور کچھ نہیں اگر ان ادوار کے صرف وہ بیانات سامنے رکھے جائیں جو وزرائے اعظم و وزیروں نے اپنے اپنے ادوار میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے دئیے تھے تو ان کے مطابق تو پاکستان آج پیرس ہونا چاہئے تھا لیکن پاکستان آج جو کنگال اور سندھ جو بے حال ہے، یہ کس کا کرم ہے؟ جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کسی تصوراتی حکمت عملی کی بات ہے تو یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں۔ 1985ء کے بعد یہ سیاستدان ہی تھے جو آمروں کو سندِ حکمرانی عطا کرتے رہے۔ یہ تو ابھی کل ہی کی بات ہے کہ جب میاں نواز شریف خارجی و داخلی سیاست کے لئے ایک نظریہ لیکر آگے بڑھنے لگے تو اُن کا راستہ موجودہ سیاستدانوں کی فوج ظفر فوج ہی کے ذریعے روکا گیا۔ اس حوالے سے ہم نے عام انتخابات سے قبل 25فروری 2018ء کو روزنامہ جنگ میں اپنے کالم ’’بے دم ہوتی سیاسی جماعتیں‘‘ میں لکھا ’’سیاسی جماعتیں کمزور اور سیاست بیزار قوتیں آئے روز مضبوط ہو رہی ہیں۔ دیکھا جائے تو ا س کی بڑی وجہ ابن الوقت جماعتیں ہیں جنہوں نے ہمیشہ اپنے مفاد کیلئے ان قوتوں کا ساتھ دیا۔ نواز شریف اب اپنے کئے پر پچھتا رہے ہیں، پی پی کل زرداری صاحب کے مفاد پرستانہ غیر اصولی عمل پر بین کر رہی ہو گی‘‘ یعنی اس طالبعلم نے 25فروری 2018ء کو لکھ دیا تھا کہ وقتی شکم سیری کے باوجود مستقبل میں پیپلز پارٹی بین کر رہی ہوگی اور آج ایسا ہی ہے۔ دیگر کالموں سے صرف نظر کرتے ہوئے اب ملاخطہ کیجئے 7اگست 2018ء کا ایک کالم ’’موقع پرست سیاست اور نیا اتحاد‘‘ یہ کالم عام انتخابات کے بعد جب اپوزیشن ایسے ہی ایک موقع پر جمع ہوگئی تھی، ہم نے اُس وقت لکھا ’’قبل از انتخابات کے واقعات واضح تھے کہ آنے والی فلم تمام جماعتوں کیلئے کس قدر خوفناک مناظر لئے ہوئے ہو گی، پھر آج کی شکست خوردہ جماعتوں نے اِس طرح کا اتحاد کیوں نہیں بنایا، جس طرح آج وہ باہم بغلگیر ہیں! ماجرا یہ تھا کہ یہ ’ماہر‘ سیاستدان ’پُرامید تھے‘ کہ کچھ قوتوں کی برکت سے انتخابی نتائج کا پری وش بس انہی سے لبِ بام ہونے والا ہے۔‘‘ جناب بلاول کے افطار ڈرامے کے بعد یہ تمام باتیں اس لئے یاد آ رہی ہیں کہ مریم نواز صاحبہ کے اطراف جمع یہ تمام سیاستدان ہی تھےجو میاں نواز شریف کی سیاست پر شب خون مارنے کے بعد مال غنیمت سمیٹنے کیلئے جمہوریت کو گروی رکھنے پر آمادہ بلکہ برسر پیکار تھے۔ یوں کیا آج یہ تمام دودھ سے دُھل کر آئے ہیں کہ ان پر یقین کیا جائے کہ وہ اب سابقہ ’کارناموں‘ سے توبہ تائب ہو چکے ہیں۔ یہ کھوٹے سکے تو آج اس طرح آنسو بہا رہے ہیں جیسے یہ بے حال عوام کل یا تو بینائی سے محروم تھے اور یا کہیں غائب تھے؟ جون ایلیا یاد دلاتے ہیں۔

مل کر تپاک سے نہ ہمیں کیجئے اُداس

خاطر نہ کیجئے کبھی ہم بھی یہاں کے تھے