زراعت کی دنیا میں نئی پیش رفت

May 27, 2019

حذیفہ احمد

دنیا کی آبادی میں تیزی سے ہونے والے اضافے نے زرعی سائنس دانوں کو کاشت کاری کے ایسے طریقوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا ہے جنہیں استعمال کر کے نہ صرف پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیا جاسکے بلکہ زرعی مقاصد کے لیےمخصوص اراضی کو کسی اور مقصد کے لیےبھی استعمال کیا جا سکے۔

ایسے میں ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مستقبل میں انسان بھوکیں مریں گے؟ماہرینِ زراعت کے مطابق اگر آج کے انسان نے ابھی سے خود کو مستقبل کے لیے تیار نہیں کیا تو خدشہ ہے کہ دوتین دہائیوں بعد بہت سے ممالک میں اشیائے خورنی کی شدید قلت ہوجائے گی۔وہ کہتے ہیں کہ اب ہمارے پاس صرف جنگلات ہی باقی بچے ہیں۔ لہٰذا ہمیں کاشت کاری کے طریقوںمیں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے۔

زرعی شعبے پر بڑھتے ہوئے دباؤ پر امریکا کے ایک سرکردہ زرعی تحقیقی مرکز کی جانب سےیہ کہا گیا ہے کہ اس کی دریافت کردہ ایک یا زائد بہتر تدابیر اپنانے سے، مکئی، گندم اور چاول اُگانے والے کسان غلے کی پیداوار میں نمایاں اضافہ اور زیادہ لوگوں کو خوراک مہیا کر سکتے ہیں۔ واشنگٹن میں بین الاقوامی غذائی پالیسی کے تحقیقی ادارے (آئی ایف پی آر آئی) کی ایک رپورٹ کے مصنف، مارک روزگرانٹ کہتے ہیں کہ 2050 میں زرعی ٹیکنالوجی یا کاشت کاری کا کوئی ایک طریقہ دنیا کے لیے خاطر خواہ مقدار میں خوراک مہیا نہیں کر سکے گا۔ واضح رہے کہ روزگرانٹ نے زرعی پیداوار، نرخوں اور بھوک کے حوالے سے زرعی جِدّتوں کے اثرات کی پیمائش کی ہے۔ ان کے مطابق ایک طریقہ یا ٹیکنا لو جی اپنانے کے بجائے ہمیں پیداوارمیں زیادہ سے زیادہ اضافہ کر نے کے لیے ان ٹیکنالوجیز کی مختلف انواع کو استعمال کرنا چاہیے۔

زرعی پیداوار میں 67 فی صد تک اضافہ ممکن ہے

ایک رپورٹ کے مطابق زمین پر روایتی طریقے سے ہل چلائے بغیر مکئی کی پیداوار 20 فی صد تک بڑھا ئی جا سکتی ہے اوران ہی کھیتوں میں آب پاشی سے پیداوار میں 67 فی صد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔اس ضمن میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ترقی یافتہ طریقے نہیں اپنائے گئے تو 2050 تک مکئی کی پیداوار میں 18 فی صد تک کمی آ سکتی ہے، جس سے بڑھتی ہوئی آبادی کو خوراک مہیا کرنا زیادہ مشکل ہو جائے گا۔ خاص طور پر ترقی پذیر مما لک میں بھوک اور ناقص غذائیت کے خطرے سے دو چار افراد کے لیے ٹیکنالوجیز خوراک کے نرخ کم رکھ سکتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک جانب دنیا کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور دوسری جانب 'کسانوں کو موسمیاتی تبدیلی اور کم ہوتی قابلِ کاشت اراضی اور پانی کی کمی کا سامنا ہے ۔ ایسے میں مستقبل کی ٹیکنالوجیز کے ملاپ سے، ترقی پذیر مما لک میں زرعی پیداوار، خوراک کی کھپت، غذائی تحفظ، اور ماحولیاتی معیارپر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

اس رپورٹ میں زرعی تحقیق کی مزید حمایت کرنے اور کسانوں کو ترقی یافتہ ٹیکنالوجیز،مثلا ًزمین پر روایتی طریقے سے ہل چلائے بغیر کھیتی باڑی کرنے اور پانی کے رساؤ اور چھڑکاؤ جیسے طریقوں کا استعمال سکھانے میں مدد دینے پر زور دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ آب پاشی کی رساؤ والی تیکنیک میں ہر پودے کے اردگرد بہ راہ راست تھوڑی مقدار میں پانی دیا جاتا ہے اور چھڑکاؤ والی تیکنیک میں فصلوں کو دباؤ والے پائپس کے ذریعے پانی فراہم کیا جاتاہے۔یہ رپورٹ خشک سالی اور حِدّت برداشت کر نے والے اور کھاد کے استعمال پر اچھا ردعمل ظاہر کرنے والے بیجوں، زراعت کے لیے پانی کا بندوبست کرنے اور کیڑوں مکوڑوں، بیماریوں اور جڑی بوٹیوں سے بہتر طور پر نمٹنےکی ترقی یافتہ ٹیکنالوجیز پر بھی توجہ مرکوز کرتی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پانی کا استعمال اور نائٹروجن کا بہاؤ کم کرنے والی ٹیکنالوجیز ماحول پر زراعت کے اثرات کم سے کم کرنے کے لیے اہم ہیں۔

ماہرین زراعت کے مطابق زرعی زمین کی زرخیزی کا تجزیہ کرانا ضروری اور کاشت کاروں کے لیے فا ئدہ مند ہے۔ پودوں کی نشوونما کے لیے 16مختلف عناصر کی ضر و ر ت ہوتی ہے۔ان میں سے بعض عناصر پودے ہواسے حا صل کرتے ہیں،لیکن زیادہ تک عناصر جڑوں کے ذریعے زمین سے پودوں تک پہنچتے ہیں۔ ان عناصر کی عدم مو جو د گی کی وجہ سےپودے کی مناسب نشوو نما نہیں ہوپاتی ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین کی زرخیزی کا طبعی اور کیمیاوی تجز یہ کرانا بہت ضروری ہے، تاکہ مٹی میں موجود عناصر کی شرح کا علم ہوسکے اور اس کے مطابق کھاداستعمال کی جاسکے۔

بایو کھاد سےپیداوار میں سو فی صد تک اضافہ

بعض ماہرین زراعت کے مطابق بایو کھادکے استعما ل سے زرعی اجناس کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔اس کے ذریعے پھلی والی فصلوں کی پیدا وار میںسو فی صد تک اضافہ ممکن ہے۔ماہرین کے مطابق بایو کھاد ایسے جرثوموں پر مشتمل ہوتی ہے جن کی زمین میں موجودگی نہ صرف اس کی قدرتی زرخیزی برقرار رکھتی ہے بلکہ اس میںاضافے کا بھی سبب بنتی ہے۔

ٹنل کلچر کے فروغ سے بہتر پیداوار

پاکستان کے بعض زرعی ماہرین کا موقف ہے کہ ملک میں ٹنل فارمنگ کے رجحان کو فروغ دے کر بے موسم کی سبزیاں کاشت کر کے بہتر پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔ ان کے مطابق ڈرپ اریگیشن اور اسپرنکلر سسٹم سے پانی کی بچت یقینی بنانے کے علاوہ بہتر اندا ز اور آسان طریقے سے فصل کو پانی دے کر عام سبز یوں اور نقد آور فصلوں کی کاشت سے اخراجات اور محنت کو کم اور آمدن کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ان کے مطابق ٹنل کلچر کے ذریعے بے موسم کی سبزیوں کے مقابلے میں عام سبز یوں کی کاشت سے کاشت کار کم مالی فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ان ماہرین کےبہ قول ٹنل فارمنگ کا گرین سسٹم فصل کو شدید گرمی اور سردی میں مضر موسمی اثرات سے محفو ظ رکھتا ہے ،جس سے پھل دار پودے جہاں زمین کے حسن میں اضافے کا باعث بنتے ہیں وہیں پھلوں کی مقامی ضروریات کو بھی پورا کیا جا سکتا ہے۔ان کے بہ قول ٹنل فارمنگ اپنانے کے خواہش مند کاشت کار محکمہ زراعت اور زرعی ماہرین سے مشاورت کر سکتے ہیں۔

ماہرین زراعت کا کہنا ہے کہ ملک میں ٹنل فارمنگ کے فروغ کے لیے کاشت کاروں کو زرعی تعلیم و تربیت دینے کی اشد ضرورت ہے، کیوں کہ اس کے بغیرسو فی صد ہدف حاصل نہیں کیا جاسکتا۔اگر ایسا ہوجائے تو کسان پیداوار میںدو گنا تک اضافہ کر سکتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے کم سے کم پانی استعمال کر کے بے موسم کی سبز یا ں بھی اُگائی جا سکتی ہیں۔واضح رہے کہ ہمارے کاشت کاروں کو موسمِ سرما کے دوران درجۂ حرارت کم ہونے کی وجہ سے دسمبر سے فروری کے مہینوں تک سبزیوں کی کا شت میں مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ان ہی مسائل کو دیکھتے ہوئے ملک میں ٹنل فارمنگ کا طریقہ کار متعارف کرایا گیا تھا ،جس سے بہت کم درجہ ٔحرارت میں بھی سبزیوں کی کاشت ہو سکتی ہے۔ تاہم مناسب رہنمائی اور آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر کسان روایتی طر یقو ں ہی کوترجیح دیتے رہے۔ لیکن اب بڑے اور درمیانے درجے کےبعض ترقی پسند کاشت کاروں میں ٹنل فارمنگ مقبول ہو رہی ہے۔