کراچی کے مشہور سینما گھروں کی کہانی

May 28, 2019

وہ بھی کیا خوب صورت دور تھا، جب نیو کراچی سے ٹاور تک سینما گھروں کو نئی فلم کی ریلیز کے موقع پر برقی قمقموں سے دُلہن کی طرح سجایا جاتا تھا۔

سب سے زیادہ سینما کراچی کے علاقے صدر میں تھے، سینما گھروں کا ایک جال بچھا ہوا تھا، بدھ کے روز خواتین کے لیے فلم کے خصوصی شوز ہوتے تھے۔

سینما گھروں میں قائم کینٹین کا اپنا حسن تھا، پان کے کیبن میں حسین یادیں قید ہیں، نئی فلموں کی ریلیز کے موقع پر خوب ہنگامہ ہوتا تھا، ٹکٹوں کی آگے لگائی اور ٹکٹیں بلیک ہوا کرتی تھیں۔

سینما گھروں میں پاکستان کے سیاست دانوں نے ہمیشہ گہری دل چسپی لی، سابق صدر آصف علی زرداری کا بھی سینما انڈسٹری سے تعلق رہا۔

لندن میں اداکاری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے اداکار طلعت حسین نے کراچی کے ایک سینما گھر میں ٹکٹ چیکر کے طورپر کام کیا۔

قائد اعظم کی بہن مادرِ ملّت فاطمہ جناح نے نشاط سینما کا افتتاح کیا، جسے چند برس قبل نذرِ آتش کر دیا گیا، اب وہ کھنڈر کا منظر پیش کر رہا ہے۔

سستی تفریح کی وجہ سے فلمیں اور ان کے گیت سپرہٹ ہوا کرتے تھے، جدید سینما گھروں کی ابتداء ندیم مانڈوی والا نے لاہور کے ڈی ایچ اے سینما سے کی اور اس میں سب سے پہلے جیو اور شعیب منصور کی فلم ’خدا کے لیے‘ نمائش کے لیے پیش ہوئی۔

تھری ڈی سینما کا آغاز بھی کراچی سے ہوا، ایک زمانے میں کراچی کی گلیوں میں پردے پہ فلموں کی نمائش ہوتی تھی، ایک جانب حضرات اور دوسری جانب خواتین بیٹھ کر فلموں سے محظوظ ہوتی تھیں۔

قیام پاکستان کے بعد فلم انڈسٹری نے تیزی کے ساتھ ترقی کی، فلم سازی کے کام میں تیز رفتاری کے سبب یہاں نئے سینما ہائوسز کی ضرورت کو شدت کے ساتھ محسوس کیا گیا، جس کے نتیجے میں پُورے ملک میں نئے سینما تعمیر ہونے لگے، شہر کراچی میں یہ تعداد 126تک پہنچ گئی تھی۔

کراچی کا شمار پاکستان میں سب سے زیادہ سینما گھر والے شہر میں ہوتا تھا، آج پورے پاکستان میں اتنے سینما گھر نہیں ہیں، جتنے کراچی میں ہوا کرتے تھے۔

آج 2019ء میں کوئی بھی پاکستانی فلم صرف 80/70 سینما گھروں میں ریلیز کی جاتی ہے، جب کہ بھارت میں نئی فلم 5 ہزار سینما گھروں کی زینت بنتی ہے، آج ہم کراچی کے ماضی کے سینما گھروں کا ذکر کرتے ہیں۔

جوبلی

14 اگست 1947ء کو پاکستان کے وجود میں آنے کے فوراً بعد ستمبر کے مہینے میں جمیلہ اسٹریٹ پر جوبلی کا افتتاح اداکارہ سورن لتا اور اداکار نذیر کی کاسٹیوم فلم وامق عذرا سے ہوا، اس سینما کو پاکستان کے اولین سینما کا اعزاز حاصل ہوا، بھارتی اور پاکستانی فلموں کا یہ اپنے وقت کا کامیاب سینما تھا۔

رومن طرزِ تعمیر کا یہ حسین شاہکار سینما 1997ء میں مسمار کر دیا گیا، یہاں پیش کی جانے والی آخری فلم کھلونا تھی جس کی ہدایتکارہ سنگیتا بیگم ہیں۔

کوہ نور

جوبلی کے سامنے والی سڑک مارشل اسٹریٹ پر ایک خوبصورت سینما گھر کا افتتاح 23 مارچ 1966ء کو ہوا، اس کا موتیوں کی لڑیوں سے آراستہ پردہ آج بھی اپنی یاد دلاتا ہے۔

اس کا شو روم اور لابی اپنی خوب صورتی میں کسی 5 ستارہ ہوٹل سے کم نہ تھی، خاص طور پر گول زینہ اور اس کے ساتھ فوارہ اور زینے پر ایسے آئینے تراشے گئے تھے، جس میں بیک وقت ایک ساتھ کئی عکس دیکھے جا سکتے تھے۔

1966ء میں بننے والا یہ سینما 1986ء میں 20سال کی جواں عمر میں لینڈ مافیا کی ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو کر ماضی کی حسین یاد بن کر رہ گیا۔

اس سینما میں کئی دفاتر بھی قائم تھے ،ایک فلمی مشہور فلمی اخبار کا دفتر بھی یہیں تھا۔

ریوالی

مارسٹن روڈ جسے وحید مراد روڈ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے پر 25فروی 1960ء میں ریوالی سینما کا افتتاح انگریزی فلم ’نور دی مون بائی نائٹ‘ سے ہوا، یہ کسی زمانے میں ایلائٹ تھیٹر کے نام سے موجود تھا، جہاں صرف اسٹیج ڈرامے ہوا کرتے تھے۔

1991ء میں یہاں ریلیز ہونے والی آخری فلم ’کھڑاک‘ (پنجابی) تھی، اس سینما کی جگہ رہائشی اپارٹمنٹس تعمیر کر دیے گئے ہیں۔

ایروز

ریوالی کے برابر میں ایک وسیع رقبے پر واقع ایروز سینما ہوا کرتا تھا، جو اب ایروز کمپلیکس میں تبدیل ہو چکا ہے، اس سینما کی تعمیر کا آغاز پاکستان بننے کے بعد ہوا جبکہ پاکستان کے پہلے نئے سینما حویلی کی تعمیر کا آغاز 14 اگست 1947ء سے پہلے ہو چکا تھا۔

ایروز سینما کو یہ اولیت حاصل ہے کہ یہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد تعمیر ہونے والا پہلا سینما ہائوس تھا، اس تاریخی یادگار سینما کا افتتاح 21ستمبر 1950ء کو ہوا تھا، دلیپ کمار اور نرگس کی بھارتی فلم ’بابل‘ اس سینما کی پہلی فلم تھی۔

کراچی میں تعمیر کے شعبے میں مہارت رکھنے والی قدیم برادری سلائوٹ جماعت کے انجینئر حاجی ادریس گذدر عرف بابو نے اس سینما کو تعمیر کیا تھا۔

یہ پہلا سینما تھا جس کے اسکرین کے اوپر قائد اعظم کی تصویر آویزاں تھی، شو روم اور ہال میں گائوں کے پنگھٹ پر پانی بھرنے والی دیہاتی عورتوں کی خوب صورت پینٹنگ بھی خوب تھی۔

اس سینما پر پہلی پاکستانی فلم ’دوپٹہ‘ 11جولائی 1952ء کو ریلیز ہوئی تھی، یہ وہ سینما تھا، جہاں 50ءکی دہائی میں بننے والی کئی پاکستانی فلموں کا بزنس غیر معمولی رہا، ایوریڈی کے توسط سے ریلیز ہونے والی فلم ’سسی‘ نے اس سینما پر 34 ہفتوں کا بزنس کر کے پہلی سلور جوبلی فلم کا اعزاز حاصل کیا۔

1994ء میں یہ سینما بند ہو گیا، اس وقت یہاں پنجابی فلم ’موسیٰ خان‘ چل رہی تھی، یہ سینما اب ماضی کی ایک داستان بن چکا ہے۔

قیصر

ایروز کے بالکل عین سامنے قیصر کے نام سے ایک سینما ہوا کرتا تھا جس کا افتتاح بروز اتوار 31جولائی 1955ء کو اردو فلم ’داتا‘ سے ہوا تھا، صبیحہ اور سدھیر نے اس فلم میں مرکزی کردار کیے تھے۔

اس کا شو روم اوپر کی منزل پر واقع تھا، یہ ایک بلڈنگ نما سینما تھا، 1965ءمیں اس سینما کو ایئرکنڈیشنز کا درجہ حاصل ہوا۔

دسمبر 1987ءمیں ریلیز ہونے والی اداکارہ انجمن کی پنجابی فلم ’قیمت‘ اس سینما کی آخری فلم ثابت ہوئی، یہ سینما توڑ کر نعمان سینٹر کی عمارت میں تبدیل ہو گیا۔

گوڈین

جہاں آج کل غازیانی شاپنگ سینٹر ہے، یہاں ماضی میں گوڈین کے نام سے ایک سینما تھا، 1957ءمیں بیگم ناہید اسکندر مرزا نے اس سینما کا افتتاح کیا تھا، یہ اپنے وقت کا انگریزی فلموں کا اہم سینما تھا۔

رینو

انکل سریا اسپتال گارڈن روڈ پر واقع اس سینما کا افتتاح 1963ء میں بھارتی فلم ’داغ‘ سے ہوا تھا۔

بمبینو

لیرک کے سلاتھ بمبینو کے نام سے ایک سینما 1963ء میں قائم ہوا، یہاں پر پیش کی جانے والی پہلی فلم ’سائوتھ پیسیفیک‘ تھی۔

اس سینما کا افتتاح پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا، جو اس وقت کے وزیر خارجہ تھے۔

کیپری

ایم اے جناح روڈ کا ایک معیاری، خو ب صورت، کام یاب سینما کیپری آج بھی اپنی تمام رعنائیوں اور دل کشی کے ساتھ فلم بینوں کے لیے اپنی کشش برقرار رکھے ہوئے ہے۔

26 جولائی 1968ء کو تعمیر ہونے والے اس سینما کا افتتاح انگریزی فلم ’سکریٹ نویژن‘ سے ہوا تھا، یہاں ریلیز ہونے والی پہلی اردو فلم ’صاعقہ‘ تھی جس میں شمیم آراء اور محمدعلی نے مرکزی کردارا دا کیے تھے۔

نشاط

ایم اے جناح روڈ کا ایک اعلیٰ معیار کا خوبصورت سینما نشاط بند حالت میں ماضی کے حسین دور کی یاد دلاتا ہے، اس کا جلا ہوا ڈھانچہ آج بھی فریاد بنکر سوال کررہا ہے کہ میرا قصور کیا ہے جو مجھے سزا دی گئی ہے۔

یہ وہ تاریخی سینما ہے جس کا افتتاح 25دسمبر 1947ء کو محترمہ فاطمہ جناح نے کیا تھا، 1963ء میں اسے معروف فلم ڈسٹری بیوٹر ندیم مانڈوی کے والد کلیم مانڈوی والا نے خرید لیا۔

علی زیب کے فلمی کیریئر کا آغاز بننے والی فلم چراغ جلتا رہا، اسی سینما میں ریلیز ہوئی تھی، 21دسمبر 2012ء کو یہ سینما شرپسندی کا شکار ہوا اور آج اپنی مظلومیت کی داستان ایک ڈھانچے کی شکل میں سنا رہا ہے۔

ریگل

صدر کے تجارتی علاقے میں نئی عمارت کے ساتھ ریگل کا دوبارہ افتتاح منگل 24مئی عیدالفطر کے دن 1955ء کو صبیحہ اور سدھیر کی فلم ’سوہنی‘ سے ہوا تھا۔

یہ پرانا سینما تھا جو 1947ء سے پہلے موجود تھا، اس زمانے میں یہاں بھارتی اور پاکستانی فلموں کا راج تھا، 1991ء میں یہ سینما مسمار کردیا گیا اور اب یہاں اسی سینٹر کے نام سے ایک بہت بڑا تجارتی مرکز موجود ہے۔

اوڈین

ریگل سے کچھ ہی فاصلے پر اوڈین سینما اب یاد ماضی بنکر رہ گیا ہے، 6 دسمبر 1957ء کو شروع ہونے والے اس سینما میں پہلی فلم ’معصوم‘ ریلیز ہوئی تھی جس میں رتن کمار، یاسمین اور حبیب نے اہم کردار ادا کیے تھے۔

لیرک

گارڈن روڈ پر واقع حالیہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے وال لیرک سینما کی عمارت بھی ماضی کے کئی ورق الٹتے ہوئے بتاتی ہے کہ 24مارچ 1960ء کو اس سینما کا افتتاح انگریزی فلم ’گولائیھ اینڈ ڈی باربرین‘ سے ہوا تھا، یہاں زیادہ تر انگریزی فلمیں دکھائی جاتی تھیں۔

ریو

انگریزی فلموں کے حوالے سے شہرت رکھنے والا یہ مرکزی سینما فاطمہ روڈ پر واقع تھا، اس سینما کا شو روم بہت وسیع تھا۔

جولائی 1957ء میں انگریزی فلم ’اٹیلا‘ سے اس کی اوپننگ ہوئی تھی، یہاں پاکستانی فلمیں سائیڈ کے طور پر ریلیز ہوا کرتی تھیں۔

1984ء میں اس سینما کو آڈیٹوریم میں تبدیل کردیا گیا، جہاں پر اسٹیج ڈرامے ہونے لگے، پھر آڈیٹوریم سے دوبارہ سینما بن گیا، اس وقت یہاں پر صرف پشتو فلمیں ریلیز ہونے لگیں، پھر ایک روز اس کی جگہ پر ایک بہت بڑا رہائشی اور کمرشل کمپلیکس تعمیر کردیا گیا۔

ہم نے چند مشہور سینما کی کہانی سُنائی ہے، کاش ماضی کا وہ خوب صورت دور واپس آجائے۔