’’اسلام کا فلسفہ عید‘‘

June 05, 2019

ڈاکٹرآسی خرم جہانگیری

تاریخ کی ور ق گردانی سے پتا چلتا ہے کہ خطۂ ارض پر خوشی اور شادمانی، فرحت و مسرت، جشن اور عید کا نقطہ آغاز اس دن سے ہوا جس روز سیدنا آدم علیہ السلام کی توبہ اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوئی۔دوسری عید اور مسرت کا جشن اس لمحہ سعید میں منایا گیا جب سیدنا نوح علیہ السلام اور آپ کی امت کو طوفان نوح علیہ السلام سے نجات ملی۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر جب نار نمرود گلزار کردی گئی اس دن کی مناسبت سے آپ کی امت عید منایا کرتی تھی۔ سیدنا یونس علیہ السلام کی امت اس دن کی یاد میں عید منایا کرتی تھی جس دن آپ کو مچھلی کے پیٹ سے نجات ملی تھی۔ بنی اسرائیل (یہودی) اس دن کی یاد میں عید منایا کرتے تھے جس دن سیدنا حضرت موسی علیہ السلام کی برکت سے انہیں فرعون اور اس کے جبر و ستم سے نجات ملی جب کہ عیسائی اس دن عید مناتے ہیں کہ جس دن حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش ہوئی، مگر بحیثیت مسلمان ہم اہل اسلام کا مسرت و شادمانی، جشن و خوشی کا فکر و فلسفہ منفرد، ایمانی اور نرالی شامل کا حامل ہے۔

ہمیں عید کے لوازمات کے حصول پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جس طرح آج ہم اجتماعی بے حسی، لوٹ مار کا بازار گرم کرکے رشوت بازاری، قتل و غارت گری کرکے، فرقہ واریت کا زہر پھیلاکر، نسلی، لسانی اور مذہبی منافرت کے ذریعے عید کی مسرت کو مسلنے کی کوشش کررہے ہیں کیا ہم اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکام سے صریح روگردانی کرکے روز حشر اس کو منہ دکھانے کے قابل ہیں۔

غرض عید کے جشن مسرت کا جیسا پاکیزہ اور عمدہ تصور اسلام کے پیروکاروں کو بخشا گیا ہے ایسا کسی مذہب میں نہیں۔تیس دن رحمت،مغفرت کی برکت اورجہنم سے نجات والے عمل سے خلاصی کے بعد بندہ ظاہری،باطنی طور پر صاف ستھرا ہو کر نفس مطمئنہ کے قریب تر ہوجاتا ہے۔ حدیث نبویﷺ ہے ’’جب عید کی صبح ہوتی ہے تو حق تعالیٰ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے وہ زمین پر اتر کر گلیوں اور راستوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے پکارتے ہیں جسے جنات اور انسانوں کے علاوہ ہر مخلوق سنتی ہے،اے محمدﷺ کی امت اس رب کریم کی بارگاہ کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے‘‘۔

بے شک امت محمدیﷺ کا جشن عید اور اس کا فکر و فلسفہ تمام ادیان سے مختلف و منفرد ہے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے تابع رہتے ہوئے اسے اتنے بڑے اعزاز و اکرام اورانعام سے نوازا جاتا ہے ضرورت ہے،عید کو عید رہنے دیا جائے وعید بننے نہ دیا جائے۔