’’لکی شاہ صدر‘‘ سادات کا مسکن جہاں آبِ شفا کے چشمے رواں ہیں

June 11, 2019

سرزمین سندھ کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس خطے میں اسلام کی آمد سے قبل اور اس کے بعد بھی مشرقی اور وسطی ایشیاء سے بہت سے نامور عالم دین، شعراء اور درویش یہاں آ کر بس گئے اور بعد میں وہ مستقل طور پراسی سرزمین کے باشندے بن گئے۔ یہ سندھ کے خطے کی تہذیب و تمدن، ثقافت اور سماجی امن و آشتی کا دور تھا، جس کی وجہ سے دیگر علاقوں سے آنے والے بہت سے قبائل، سندھی معاشرے میں ضم ہوگئے۔ اس باہمی اتحاد ویگانگت، الفت اورملاپ کے واضح رجحانات اور نشانات سندھ میں آثار قدیمہ سے دریافت شدہ اشیاء، نوادرات اور تاریخی کتب سے معلوم ہوتے ہیں۔ حضرت شاہ صدرالدین رحمتہ اللہ علیہ کا خاندان بھی ایسے سماجی روابط کی ایک تاریخی اور محترم مثال ہے۔

تحفتہ الکرام کا تیسرا حصہ، سندھ کی تاریخ پر مشتمل ہے، جس میں قدیم شہروں، اہم قبیلوں اور خاص خاص لوگوں کے حالات زندگی درج ہیں۔ یہ سندھ کے نامور مؤرخ،میرعلی شیر قانع ٹھٹھوی کی تالیف ہے جس نے تکملہ کے طور پر کافی تفصیل اور تاریخی اسناد اور ماہ وسال کے اضافے کے ساتھ ایک اور کتاب ’’معیار سالکان طریقت‘‘ بھی تالیف کی ہے۔ میر علی شیر قانع ٹھٹھوی کی شہر آفاق فارسی تصنیف تحفتہ الکرام میںسندھ کے شہروں کی تاریخ اور مشاہیر کا مفصل تذکرہ کیا گیا ہے۔تحفتہ الکرام میںرقم ہے کہ سہون ہرگنہ میں ایک معروف شہر لکی ہے جو سادات کا مسکن ہے۔ یہ وہاں کے پہاڑوں میں ایک ایک تنگ سا درہ ہے۔ درہ کو سندھی زبان میں ’’لک‘‘ کہتے ہیں اور چھوٹا ہونے کی وجہ سے یہ ’’لکی‘‘ کہلاتا ہے۔پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع جامشورو میں ایک قدیم شہر ہے، جو سیہون کے جنوب میں 19 کلومیٹر کے فاصلے پر انڈس ہائی وے کے قریب دریا کے کنارے پر موجود ہے۔ لکی شہر میں صدرالدین شاہ لکیاری کا مزار اور شاہ صدراالدین ریلوے اسٹیشن بھی ہے۔ شہر سے 5 کلومیٹر کے فاصلے پر لکی پہاڑوں میں گرم اور سرد پانی کے قدرتی چشمےہیں۔ان چشموں کے قریب ایک مسجد اورہندوؤں کے دو مندر ہیں۔ یہاں کے گرم چشموں کے پانی میں نہانے سے جلدی بیماریاں ختم ہو جاتی ہے۔ اس شہر میں ہائی اسکول ہے۔ مزار اور ریلوے لائن کے مغرب میں ایک قدیم قبرستان واقع ہے۔ مقابر کی دیواروں پر نقش نگاری کی گئی ہے۔ یہ شہر ’’بھگے ٹھوڑو‘‘ پہاڑاور دریائے سندھ کے درمیان میں واقع ہے۔ پرفضا اور خاموش بستی اور پانی کے چشموں کی وجہ سے بدھ راہبوں کا یہاں بہت بڑا مرکز تھا۔ ان راہبوں نے ہی راجہ داہر کو محمد بن قاسم سے صلح کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ سید علی بن عباس جو کہ حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے، پہلے سید تھے، جنہوں نے یہاں سکونت اختیار کی۔ اسی نسبت سے شہرکا نام ’’لکی علوی‘‘ نام پڑ گیا جس کےمعنی ہیں ’’علی کا درہ‘‘ اور سیدوں کی مناسبت سے اسے لکیاری سادات کہا جاتا ہے۔

میرعلی شیر قانع لکھتے ہیں کہ ’’ سید علی کے آنے سے کچھ عرصہ قبل دلورائے نامی ہندو کے مظالم کی وجہ سے برہمن آباد کا شہر ویران اور برباد ہوچکا تھا۔ راجہ دلورائے اپنے بھائی چھٹو بن آمر کی پند و نصائح کی وجہ سے برے کاموں سے تائب ہوا اور سید صاحب کی خدمت میں حاضرہو کر اپنی بیٹی کا ان سے عقد کیا جس سے چار بیٹے پیدا ہوئے۔ سید محمد، سید مرادیوں، سید حاجی عرف بھرکیو اورسید چنگوہیں۔ ان ہی میں سے اس خاندان کی چار شاخیں سندھ کے مختلف مقامات پر آباد ہوئیں‘‘۔ تحفتہ الکرام میں بھی لکھا ہے کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ چوتھی صدی ہجری میں دلورائے کے بھائی چھٹو بن آمر اپنے بھائی کی غیر اخلاقی حرکتوں کی شکایت لے کر خلیفہ بغداد کے پاس گئے، جس نےسید علی بن عباس کو سامرہ کے ایک سو عرب فوجیوں کے ساتھ سندھ بھیجا جنہوں نے راجہ دلورائے کو شکست سے دوچار کرکے وہیں اقامت اختیار کرلی۔ راجہ دلورائے شکست کے بعد اپنی حرکتوں سے تائب ہوا اور حضرت کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی بیٹی کا نکاح ان سے کردیا ۔سید علی عباس کے چار بیٹوں میں سے محمد بن عباس کے گھر میںصدر الدین شاہ کی ولادت ہوئی۔

کچھ عرصہ کے بعد سیدوں کی کسی معمولی بات پر آپس کی چپقلش ہوئی۔ سخت جنگ اور بڑا فساد پیدا ہوا، جس کی وجہ سے کئی سید ناراض ہوکر اس علاقے سے نقل مکانی کرگئے۔ سیدعلی کی اولاد قبیلوں میں بٹ گئی ، ان چار قبیلوں میں سے ایک قبیلہ آمری میں رہنے لگا۔ آمری کے عنوان کے تحت تحفتہ الکرام میں سید صدرالدین شاہ عرف صدر بن سید محمد کا احوال ملتا ہے جو روشن نشانیوں اور ظاہر کرامتوں کے مالک وقت کے ولی، زمانہ کے مشائخ کے سردار، فخر سادات کرام اور جملہ فیوض وبرکات تھے۔ آپ کی اولاد سندھ میں نجیب الطرفین سید ہونے کی وجہ سے مشہور ہے۔ ان کی اولاد میں سے بعض نے سہون میں بھی رہائش اختیار کی۔سید صدرالدین شاہ پہلے آمری میں رہتے تھے۔ بعد میں اپنے والد محمد کے پاس لکی میں سکونت اختیار کی۔ آپ ساتویں صدی ہجری کے عظیم علماء اور مشائخ میں سے تھے۔

سندھی ادبی بورڈ جامشورو کے سہ ماہی جریدے ،مہران میں لکی شاہ صدر کے لیے سندھ کے معروف محقق، ڈاکٹر عبد المجید سندھی نے تحریر کیا ہےکہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے اپنی ملفوظات میں حضرت صدرالدین شاہ کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے، ’’ سیوستان کے علاقے کے گائوں لکی میں ایک درویش شیخ صدرالدین محمد احمد کو ایک جھونپڑی میں دیکھا جس سے بندگان خدا فیض اٹھا رہے ہیں‘‘۔عبدالمجید سندھی اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ حقیقت ہے کہ ”چھٹی صدی ہجری کے آخر اور ساتویں صدی ہجری کی شروعات میں لکی میں حضرت صدرالدین رہتے تھے۔شیخ کا لقب بزرگ یا اولیائے کرام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کچھ مورخین نے لکی شاہ صدر کا صدرالدین محمد احمد کے نام سے تذکرہ کیا ہے۔ شاہ صدر الدین کی آمد سے پہلے،لکی شہر کا قدیم نام لکی تیرتھ تھا۔ حضرت سید صدرالدین کے صوفیانہ اوصاف، روحانی کمالات اور بزرگانہ شخصیت کی وجہ سے یہ شہر، لکی شاہ صدر کے نام سے مشہور ہو گیا۔ سید صدر الدین شاہ نےطویل عمر پائی۔

سید صدرالدین شاہ کی اولاد میں سید محمد، وقت کے کامل ولی تھے۔ آپ کی تاریخ وفات ’’درود خدا بر محمد بود‘‘ یعنی محمد پر خدا کا درود ہو ،سے نکلتی ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ تین ہزار صلوٰۃ کا وظیفہ روزانہ کرتے تھے۔ گویا تاریخ کا یہ مصرع آپ کے اس شغل کے مدنظر عجیب اتفاق تھا، اس سے ان کی وفات کی تاریخ 1125 ھ نکلتی ہے۔پیر حسام الدین شاہ راشدی مرحوم نے ’’تکملہ مقامات الشعرا میں میر سید علی اصغر شاہ ولد پیرحزب اللہ شاہ مسکین کے احوال کے حاشیہ میں راشدی خاندان کا شجرہ نسب بیان کیا ہے، جس کی تصدیق اصغر سائیں کی منظوم فارسی تصنیف ’’سلسلہ قادریہ‘‘ سے بھی ہوتی ہے۔

سید صدرالدین شاہ کی اولاد کے شجرہ نسب پر تنقید کرتے ہوئے پیر حسام الدین شاہ راشدی نے لکھا ہے کہ اس میں بھی بہت سے مشکوک نام آتے ہیں جو اس ابتدائی اسلامی دورمیں ناقابل فہم و یقین ہیں۔ مثالیں دیتے ہوئے انہوں نے سید مرادیو سید حاجی عرف بھرکیو اور سید چنگو عرف شاہ چھکن کےناموں پر اعتراض کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’چھکن یا چنگو اور بھرکیو خالص سندھی دیہاتی نام ہیں۔ عرب سے آئے ہوئے نووارد سادات کا پہلی پشت ہی میں اپنی اولاد کا دیہاتی نام رکھنا غیر فطری عمل نظر آتا ہے۔ خاص طور پر چوتھی صدی میں جب سادات ایران، ہند، سندھ یا دنیا کے کسی دوسرے گوشتہ میں گئے تو انہوں نے صرف اپنے آبائو اجداد کے نام ہی پر اپنی اولادکے نام رکھے۔ اس طرح ’’حاجی‘‘ کا لفظ بھی بطور نام یا نسبت چوتھی صدی ہجری میں رائج نہیں تھا۔بہرحال سندھ میں اس خاندان نے تصوف اور اسلامی علوم و فنون میں بیش بہا خدمات سرانجام دی ہیں۔ کئی شعراء، اہل کمال اور صاحبان تصوف اور اہل اللہ پیدا ہوئے جن پر سندھ کو بجا طور پر فخر ہے۔

شاہ صدر الدین کی خدمت میں اس دور کے کئی درویش، صوفی اور سالک بزرگ آیا کرتے تھے۔ انیس الارواح یعنی خواجہ عثمان ہارونی کے ملغوظات میں، جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے جمع کئے تھے، بیان کیا گیا ہے کہ سہون کے سفر میں خواجہ عثمان ہارونی نے ایک غار میں ایک درویش کو دیکھا تھا، انہوں نے تعظیم کے طورپر اپنا سرجھکایا ،لیکن اس بزرگ نے انہیں کہا کہ سر اوپر اٹھائو۔اے درویش! آج تک تقریباً 70 سال کا عرصہ گزرا ہے کہ ماسوا اللہ کی عبادت کے، میں کسی بھی چیز میں مشغول نہیں ہوا ہوں۔ اگر تمہیں بھی خدا سے محبت ہے تو خدا کے سوا کسی اورکام میں مشغول مت ہو۔

خواجہ معین الدین چشتی کے ملغوظات و دلیل العارفین، جس کے مرتب خواجہ قطب الدین، بختیار کاکی ہیں، اس میں بتایا گیا ہے کہ خواجہ معین الدین ایک مرتبہ خواجہ عثمان ہارونی کے ساتھ سہون کے سفر میں تھے کہ وہاں ایک جھونپڑے میں شیخ صدرالدین محمد احمدسیوستانی کے پاس (جو عمر رسیدہ بزرگ اور یاد الہٰی میں بیحد مشغول تھے) کئی دن آپ کی صحبت میں رہے۔قیام کے دوران انہوں نے دیکھا کہ جو آدمی جھونپڑے میں آتا وہ خالی ہاتھ نہیںلوٹتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر میں قبر میں اپنا ایمان سلامت لے جائوں تو گویا بڑا کارنامہ ہوگا۔

تاریخ سندھ میں اکثر بزرگوں کے ناموں میں مماثلت دیکھنے میں آتی ہے۔ سندھ میں لکھے ہوئے تذکروں کے مندرجات پر کوئی تحقیقی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ بڑے بڑے خاندان اور خانقاہی نظام کے سجادگان اور متولی بھی اس معاملے میں بے پروا رہے ہیں، اس لئے سندھی ملغوظاتی ذخیرے کا تاریخی پہلو بہت کمزور نظر آتا ہے۔ بہرحال محض قرائن پر بھروسہ کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ ملفوظاتی حوالے شاہ صدرالدین کے متعلق ہیں اور ان کے بلند عارفانہ مقام پر شاہد ہیں۔ علاوہ ازیں قدیم دور سے سندھی میں ایک لوک کہاوت مشہور ہے کہ ’’کھٹے شاہ صدر، کھائے شہباز قلندر‘‘ یعنی ریاضت اور مجاہدے تو شاہ صدر نے کئے، نام شہباز قلندر کا ہوا‘‘۔ قیاس کیا جا سکتا ہے یہ اشارہ بھی شاہ صدرالدین کی طرف ہے کیونکہ شہباز قلندر نے سہون میں بہت عرصہ بعد سکونت اختیار کی تھی اور شاید انہوں نے شاہ صدر سے روحانی طور پر فیض بھی حاصل کیا ہو۔