تلاشِ وجود، ختم ہوئی

June 12, 2019

ڈاکٹر انور سجاد نے ہمیشہ مظلوم اور زیردست طبقے کے حق میں آواز بلند کی،خواہ وہ افسانے کی صورت میں ہو، اسٹیج ڈراما ہو ، ٹی وی کاکھیل ہو، کارزارِ سیاست ہو یا کینوس پر بکھرے ہوئے رنگ ہوں

ڈاکٹر انور سجاد کی ہمہ جہت شخصیت کے کئی روپ تھے اور شخصیت کا ہر پہلو اپنے اندر فنونِ لطیفہ کے کئی دل کش رنگ سمیٹے ہوئے تھا۔ ٹی وی اورا سٹیج کے اداکار، ہدایت کار، کہانی کار، ناول نگار، ڈراما نویس، استاد، مترجم، مریضوں کے غم گسار، سیاست کار اور نہ جانے ان کی شخصیت میں فنون لطیفہ کی کتنی پرتیں مستور تھیں۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ وہ بنیادی طور پر کہانی نویس تھےجو اپنے گرد و پیش کی تلخیوں اور شیرینی کا رس نچوڑ کر اپنی کہانیوں کا عنوان بناتے تھے۔

اندرون لاہور، چونا منڈی میں 1935ء میں جنم لینے والے ڈاکٹر انور سجاد کا بچپن تنگ، ٹیڑھی میڑھی گلیوں اور گنجان آباد چوباروں اور حویلیوں میں گزرا۔ اندرون شہر بسنے والے لاہوریوں کی گرم جوشی، ملنساری، زندہ دلی ان کی شخصیت کا حصہ بن گئی جس کی چھاپ ان کے طرزعمل میں نمایاں نظر آتی تھی۔ لیکن اس سے بھی زیادہ وہ ماحول اور گرد و پیش ہے جس میں ان کے شعور نے آنکھ کھولی۔ان کے والد اندرون شہر کے ایک مشہور ڈاکٹر تھے جن کے کلینک میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ تو آتے ہی تھے، لیکن 1950کی دہائی میں ان کے گھر پر جو علمی و ادبی محفلیں جمتی تھیں اس نے ڈاکٹر انور سجاد کی علمی و ادبی نشو و نما میں نمایاں کردار ادا کیا۔ دسویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے انہوں نے اس دور کے نام ور ادیبوں اور شاعروں کو پڑھ لیا تھا۔ اور شاید ان ہی ادبی محفلوں اور بڑی شخصیات کے بحث و مباحثہ اور گفتگو کا اثر تھا کہ ان سے ایک ایسے انور سجاد نے جنم لیا جس کا تخلیقی سفر 1952ء سے شروع ہوا تو اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ان کے کریڈٹ پر لاتعداد افسانے، اسٹیج اور ٹیلی ویژن کے ڈرامے، انٹرویوز، ناول، ترجمے اور مضامین ہیں۔ لیکن 82سال کی عمر میں، نصف صدی تک فنونِ لطیفہ کے شعبوں میں آبلہ پائی کرنےکے بعد وہ سفر حیات کے جس مقام پر پہنچے تھے اس کے بارے میں شاید انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا اور نہ ہی کبھی یہ خیال دامن گیر ہوا ہو گا کہ معاشرتی ناانصافیوں کے خلاف لکھی گئی اپنی کہانیوں کا وہ خود عنوان بن جائیں گے۔

کچھ عرصہ قبل جب یہ خبر شائع ہوئی کہ ڈاکٹر انور سجاد صاحبِ فراش ہیں اور علاج معالجے کے ضمن میں انہیں دشواریوں کا سامنا ہے تواس پر علمی و ادبی حلقوں میں تشویش کا پیدا ہونا فطری بات تھی۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ افسانہ نویسی اور ڈراما نگاری کا ایک بڑا نام، جنہیں ادب کی دنیا میں ’’دیوتا‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، علالت کے باعث لاہور میں کس مپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بہ قول انور سجاد انہیں ادب کی خدمت کا جائز حق نہ ملا اور ان سے ناانصافیاں روا رکھی گئیں تو وہ آواز اٹھانے پر مجبور ہو گئے۔بعد ازاں حکومت کی جانب سے انہیں پانچ لاکھ روپے کا چیک دیا گیا تھا۔

مصوّر انیس ناگی کی ڈاکٹر انور سجاد
کے ساتھ ایک یادگار تصویر

پوری زندگی ادب اور فنونِ لطیفہ کی خدمت کرنے والے ڈاکٹر انور سجاد کے ساتھ معاشرے کی روایتی بے حسی کسی المیے سے کم نہیں۔ 1950کی دہائی میں جب گھر پر منعقدہ علمی و ادبی محافل کی وجہ سے ان میں کچھ لکھنے لکھانے کی تحریک پیدا ہو رہی تھی، اس وقت معاشرہ اتنی بے حسی کا شکار نہیں تھا۔ لوگوں کے دل بھی اتنے مردہ نہیں ہوئے تھے۔انسان دوستی کی اسی فضا میں انہوں نے میٹرک تک پہنچتے پہنچتے منٹو، فیض، احمد ندیم قاسمی اور دیگر بڑے ادیبوں اور شعرا کو نہ صرف پڑھ لیا تھا بلکہ ان سے بالمشافہ ملنے کی خواہش بھی تھی۔ منٹو سے بالمشافہ ملنے کی خواہش تو ان کے والد کے ایک ملنے والے ادیب، نصیر انور نے یوں پوری کر دی کہ انجمن ترقی پسند مصنّفین کی ایک تقریب میں انہیں منٹو سے ملوا دیاتھا۔

بعد ازاں گورنمنٹ کالج سے ایف ایس سی اور ایف سی کالج سے گریجویشن کی اور تعلیم کا یہ سلسلہ آگے بھی چلا۔ وہ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ایک ڈپلوما کورس کے لیے لندن بھی گئے۔ لیکن وہاں بھی طب سے زیادہ فنونِ لطیفہ ان کی توجہ کا مرکز رہا۔ واپسی پر انہوں نے اندرون شہر کلینک سنبھالا ،لیکن مریضوں کے علاج معالجےکے ساتھ، علم و ادب کے میدان میں بھی نشتر زنی جاری رہی۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں معاشرتی ناسوروں کینہ صرف جرّاحی کی بلکہ ان کی مرہم پٹی بھی کی۔ وقت کے ساتھ ان کی علمی و ادبی شخصیت کے رنگ قوس قزح کی طرح نکھرتے چلے گئے۔ اور70ء اور 80کی دہائی میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب بہ یک وقت افسانہ نویسی، ڈراما نگاری، اداکاری، صداکاری، ہدایت کاری، رقص اور درس و تدریس کی صلاحیتیں ایک ہی فرد میں سمٹ گئی تھیں۔ بعض اوقات جب الفاظ ان کا ساتھ نہیں دیتے تھے تو وہ یہی کام کینوس پر رنگ بکھیرکر انجام دیتے اور جب رنگ پھیکے پڑنے لگتے تو وہ ا سٹیج کا رخ کرتے اور جب صداکاری سے مطمئن نہ ہوتے تو ٹیلی ڈراموں سے اپنا کتھارسس کرتے۔ ان کے ایک دوست کا کہنا تھاکہ ’’انور سجاد کے اندر تخلیقی قوتوں کا ٹی این ٹی بارود بھرا ہوا ہے۔ اسے صرف چنگاری دکھانے کی دیر ہے، پھر دیکھئے وہ کیسے اپنا آپ دکھاتے ہیں۔ ‘‘بھارت کے معروف ادیب شمس الرحمٰن فاروقی نے انہیں جدید افسانے کا معمارِ اعظم قرار دیا۔

انور سجاد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جب پاکستان میں ٹی وی آیا تو 1964ء میں انہوں نے پی ٹی وی کے لیے پہلا کمرشل ڈراما ’’رس ملائی‘‘ لکھا۔ تین سال بعد ناول ’’رگِ سنگ‘‘ منظر عام پر آیا۔ 1964ء میں ان کا پہلا باقاعدہ کھیل ‘‘لائیبل‘‘ا سٹیج پر پیش کیاگیا۔ ان کی دیگر تخلیقات کچھ اس طرح ہیں:

ہوا کے دوش پر، پہلا مطبوعہ افسانہ جو 17سال کی عمر میں 1952ء میں نقوش میں چھپا۔استعا ر ے (پہلا افسانوی مجموعہ) ۔ خوشیوں کا باغ (ناول)۔نیلی نوٹ بک (ناول ،ترجمہ)۔ صبا اور سمندر (ٹیلی ڈرامے) ۔ تلاشِ وجود (مضامین کا مجموعہ)۔چوراہا۔رگِ سنگ (ناولٹ /1955)۔آ ج ۔پہلی کہا نیا ں ۔ زرد کو نپل ۔ نگار خانہ(ٹیلی کہانیاں)۔جنم روپ (ناول ) ۔رسی کی زنجیر۔رات کا پچھلا پہر۔رات کے مسافر۔ سورج کو ذرا دیکھ۔مجموعہ ڈاکٹر انور سجاد۔

انور سجاد اور فیض احمد فیض محوِ گفتگو ہیں، دائیں جانب مستنصر حسین تارڑ بھی موجود ہیں

انور سجاد فنون لطیفہ کے تمام شعبوں کو ایک دوسرے سے مربوط سمجھتے تھے اس لیےانہوں نے خود کو کسی ایک شعبے تک محدود نہیں رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں موسیقی کے آہنگ اور مصوّری کے رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ 1981ء میں جب ان کا ناول ’’خوشیوں کا باغ‘‘ منظر عام پر آیا تو اسے زبردست پذیرائی ملی۔ یہ ناول پاکستان اوربھارت کی کئی جامعات کے نصاب میں شامل ہے۔ یہ ناول سیاسی نوعیت کا ہے۔ وہ سیاست کو شجر ممنوعہ نہیںبلکہ اسے عوام کے حالات میں بہتری لانےکا وسیلہ سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عملی سیاست سے بھی وابستہ رہے۔ بھٹو صاحب ان کے پسندیدہ لیڈر تھے۔ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی رکن کی حیثیت سے سیاست کا آغاز کیا۔ اس سلسلے میں انہیں دوبار قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں جس کے دوران انہوں نے روسی ناول کا اردو میں ترجمہ کیا۔ انہیں 1979ء میں ان کی ادبی خدمات پر صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی دیا گیا۔

ڈاکٹر انور سجاد پر ایک تنقید یہ کی جاتی ہے کہ وہ اپنے آئیڈیاز غیر ملکی اہل قلم سے مستعار لیتے تھے، لیکن ان کا کہنا تھاکہ اگر میں کسی غیرملکی مصنف کا معترف ہوں تو برصغیر پاک و ہند کے بعض ہم عصر رائٹرز بھی ان کے آ ئیڈ یل ہیں۔ ان کا کہناتھا: ’’میرے نزدیک ہمارا معاشرہ ابھی اتنا بانجھ نہیں ہوا کہ ہمیں کوئی کہانی نہ دے سکے۔ یہ لکھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح معاشرے کی تلخیوں اور شیرینی کا رس نچوڑتا ہے۔ ‘‘

ڈاکٹر انور سجاد نے ہمیشہ مظلوم اور زیردست طبقے کے حق میں آواز بلند کی،خواہ وہ افسانے کی صورت میں ہو، اسٹیج ڈراما ہو ، ٹی وی کاکھیل ہو، کارزارِ سیاست ہو یا کینوس پر بکھرے ہوئے رنگ ہوں۔ انہوں نے تو ایک ڈرامے میں خود رقص کر کے اس میڈیم کو بھی استعمال کیا۔ نقادوں نے جب ان پر تنقید کی تو ان کا کہنا تھا: ’’رقص ایک ردھم، ہم آہنگی، ایک تال اور تناسب کا نام ہے۔ پوری کائنات ہم آہنگی اور ردھم کا نام ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو سب کچھ ایک دوسرے سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے‘‘۔

ان سے ایک بار پوچھا گیا کہ ان کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے تو انہوں نے کہاتھا: ’’میرے نزدیک مستقبل، محنت کش طبقے کا ہے اور میری خواہش ہے کہ متوسط طبقہ ان کی اس جدوجہد میں ان کا ساتھ دے۔ ان کی ایک بڑی خواہش یہ بھی تھی: ’’میرا دل چاہتا ہے کہ میں سچائی کا وہ لفظ کہہ سکوں جو اس دنیا کو، جو میرے نزدیک بری ہو، اس کا خاتمہ کر دے ‘‘۔ انور سجاد پاکستانی حکم رانوں سے بھی نالاں تھے، جنہوں نے صرف اپنے مفاد کے لیے کہ لوگوں میں کہیں شعور اور آگہی پیدا نہ ہو جائے، تعلیم کو دانستہ طور پر فروغ نہیں دیا۔ ان کے نزدیک حکم رانوں کے صرف چہرے بدلتے رہے ہیں، اندر سے سب ایک ہی مفاد کے حامل ہیں کہ عوام کے حالات بدلیں نہ بدلیں، ان کے حالات بدل جائیں۔ تمام حکم راںایک دوسرے پر الزامات لگا کر عوام کو بیوقوف بناتے رہے۔ ان کے نزدیک جنرل ضیاء الحق کا دورِ حکومت پاکستان کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ تھا۔ ان کا خیال تھا کہ ہمارے تمام اداروں میں بنیادی انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ جس کے بغیر یہ ملک کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔

انور سجاد کے افسانوں اور ڈراموں کے کرداروں کے بارے میں بعض ناقدین کہتے ہیں کہ وہ خوشیوں کی تلاش میں تاریکی میں بھٹکتے رہتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کو بھی سراہتے ہیں کہ یہ کردار کسی پیڑ کے نیچے مزار پر یونہی نہیں پڑے رہتے بلکہ آخری دم تک مزاحمت کی قوت سے لیس حوصلہ ہارے بغیر، نامساعد حالات سے نبرد آزما رہتے ہیں اور وہ بحرانی کیفیت کا شکار ہونے کے بعد صحت یاب بھی ہو جاتے ہیں۔