پنجاب میں ترقیاتی منصوبوں کو ترجیح دینے کا فیصلہ

June 13, 2019

مقصود بٹ، لاہور

وطنِ عزیز میں سیاسی صورتحال کی محاذ آرائی میں اضافہ کے علاوہ معاشی بدحالی، بیروزگاری اور مسلسل بڑھتی ہوئی کمرتوڑ مہنگائی نے عوام کو بے بسی اور بے کسی کے ماحول میں گرفتار کر رکھا ہے ۔یوں محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت نے ’’معاشی خودمختاری‘‘ کو آئی ایم ایف کی شرائط کے سامنے سرنگوں کر دیا ہے۔ اقتصادی سروے میں بیان کی جانے والی صورتحال نے ایک بڑی ’’معاشی دلدل‘‘ کی نشاندہی کر دی ہے ۔ عام پاکستانی یہ سوال کر رہا ہے کہ امور مملکت کو کن قوتوں کے اشاروں پر چلایا جا رہا ہے کہ نئے پاکستان میں تبدیلی کا دعویٰ کرنے والے حکمران بے حسی اور لاپرواہی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔عوام پر بجلی، گیس اور پٹرول بم بار بار گرانے کے باوجود ناتجربہ کار حکمران غیر انسانی طرز عمل پر مبنی توجیہات اور جواز پیش کرکے سابقہ حکومتوں کو موردِالزام ٹھہرا رہے ہیں۔یار لوگوں کا کہنا ہے کہ ابھی تک حکومتی حلقوں میں یہ بات محسوس کی جا رہی ہے کہ ’’کپتان‘‘ نے ’’معاشی منصوبہ بندی‘‘ کے لئے جس قریبی ساتھی کو وفاقی وزیر خزانہ لگایا تھا اسے کن ’’خفیہ ہاتھوں‘‘ کی ایماء پر تبدیل کیا تھا اور اس کی جگہ پر نئی معاشی ٹیم کا ٹرائیکا کس کے کہنے پر قبول کیا ہے ۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور ایف بی آر کے چیئرمین شبرزیدی اور اسٹیٹ بنک کے گورنر رضا باقر کو معیشت کے کھولتے ’’آتش فشاں‘‘ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے لایا گیا ہے یا آئی ایم ایف کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ان کو ’’خودمختاری‘‘ دی گئی ہے ؟ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ٹیم کے پاس کون سی ’’جادو کی چھڑی‘‘ ہے کہ وہ آنِ واحد میں بدترین معاشی حالت کو سنوارنے میں کوئی اہم کردار ادا کر سکیں گے۔اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی رپورٹ کے تناظر میں اگر طائرانہ نظرسے بھی دیکھا جائے تو واضح دکھائی دے رہا ہے کہ مہنگائی میں ڈبل اضافہ ہو چکا ہے اور آنے والے دنوں میں مزید مہنگائی ہوگی جس سے عوام شدید معاشی مشکلات بیروزگاری اور گرانی کی وجہ سے حکومت سے نہ صرف مایوس اور نالاں ہونگے بلکہ حکومت اور عوام میں خلیج مزید بڑھ جائے گی۔عوامی اور سیاسی دبائو بڑھتا دکھائی دے رہا ہے ۔مستقبل قریب میں مہنگائی کے ’’سونامی‘‘ کے آنے کے خدشات اور خطرات نے اپوزیشن جماعتوں کو بھی متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ملک کی نازک معاشی صورتحال اور مہنگائی میں آئی ایم ایف کے ایجنڈے کی وجہ سے حکومتی عدم دلچسپی نے اپوزیشن کو ایوان کے اندر اور باہر احتجاجی مظاہروں کے سلسلہ میں ’’سنٹرپوائنٹ‘‘ بنانے کا لائحہ عمل مرتب کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ بجٹ سے قبل وزیر اعظم عمران خان نے ایمنسٹی سکیم کے حوالہ سے خفیہ اثاثوں کے بارے میں قوم کے نام جو مختصر پیغام نشر کیا ہے اس میں نہ صرف ملک کی معاشی صورتحال کا واضح منظرپیش کر دیا ہے بلکہ ان تمام عناصر کو بھی خبردار کر دیا ہے کہ جو خفیہ اثاثے ڈیکلیئرنہیں کریں گے ان کے بارے میں حکومت کو تمام معلومات حاصل ہو گئی ہیں ۔سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس پیغام کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ ’’ٹیکس نیٹ ‘‘ کو وسیع پیمانے پر بڑھایا جائے گا اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ خفیہ اثاثوں والوں کے خلاف عدم تعاون کی صورت میں کریک ڈائون کیا جائے گا۔دوسری جانب ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے خود اگلے مالی سال کے لئے ٹیکس وصولیوں کا ہدف ساڑھے پانچ ہزار ارب روپے مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اس سال کے مقابلے میں اگلے سال چودہ سو سے پندرہ سو ارب روپے کا اضافی ریونیو اکٹھا کرنا ہو گا جس سے عوامی مشکلات میں اضافے کا واضح امکان ہے ۔واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ ملک کو کئی محاذوں پر بحرانوں کا سامنا ہے جس کی وجہ سے حکومتی مشکلات اور مسائل میں اضافہ دکھائی دے رہا ہے ۔سفارتی محاذ پر بھی علاقائی صورتحال کا منظر بے شمار دشواریوں کی نشاندہی کر رہا ہے ۔گو ایک طرف امریکہ افغان عمل مذاکرات کے سلسلہ میں مثبت پیش رفت کا اشارہ دے رہا ہے جبکہ دوسری طرف چین اور ایران کے حوالہ سے پاکستان کی حیثیت اور کردار کے سلسلہ میں تحفظات اور خدشات کے کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں سپریم جوڈیشل کونسل میں بھجوائے جانے والے ریفرنس نے بھی اپوزیشن اور وکلاء کو احتجاج کا ایک مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرنے کا ایک اور موقع فراہم کر دیا ہے ۔سپریم کورٹ بار کے صدر امان اللہ خان کے احتجاجی اعلان کے بعد حکومت کی طرف سے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل نے اس ریفرنس سے لاتعلقی تو ظاہر کی ہے کہ انہوں نے ایف بی آر سے آنے والے ریفرنس کو تصدیق کے بعد آگے بھجوا دیا ہے اور دوسری طرف حکومت کے حامی وکلاء نے بار کونسلز کی ایکشن کمیٹی کی طرف سے سپریم کورٹ بار کے اعلان کی مخالفت کر دی ہے۔صوبائی دارالحکومت میں بھی سیاسی سرگرمیاں زورشور سے جاری ہیں ۔اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کی لندن سے واپسی نے حکومتی حلقوں کے ان تمام دعوئوں کی نفی کر دی ہے جو ایک طویل عرصہ سے ان پر ’’این آر او‘‘ لینے کا الزام لگا رہے تھے ۔وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد تو ہفتے میں دو دن لاہور آکر شریف برادران اور زرداری کو ٹارگٹ کرتے ہوئے ان کی لوٹ مار اور کرپشن کو موضوع بنا کر میڈیا میں نمایاں رہنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں اپنی وزارت کی کارکردگی کے بارے میں کم گفتگو کرتے جبکہ ’’سیاسی سکورنگ‘‘پر زیادہ توجہ دیتے ہیں ۔اس دفعہ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کی واپسی پر انہوں نے اپنی پرانی ’’پیش گوئی‘‘ کو غلط انداز سے تعبیر کر دیا لیکن ساتھ ہی اپنی حکومت کے ’’شوگرمافیا‘‘ کو دی جانے والی سبسڈی کے علاوہ کئی حکومت کے حامی صنعت کاروں کے گروپ پر سستی بجلی لینے کے بارے میں بھی تنقید کا دروازہ کھول دیا۔وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور ان کی معاشی ٹیم بجٹ کی تیاری میں مصروف ہے ۔وہ صوبائی بجٹ کو تین حصوں میں تقسیم کر رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب، شمالی پنجاب اور وسطی پنجاب کے لئے علیحدہ علیحدہ فنڈز مختص کئے جا رہے ہیں۔جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے لئے بھی تین ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے جنوبی پنجاب کو بجٹ میں زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔ رمضان المبارک کے دوران اور عیدالفطر کے مو قع پر عوام کو بنیادی ضروریات کی اشیاء پر سبسڈی دینے کے لئے رمضان بازار اور عید بازار لگائے گئے لیکن عوام کو آٹا، چینی، سبزی، پھل، خوردنی تیل اور دیگر اشیاء کے حصول کے معاملہ میں قطاروں میں کھڑا ہو کر دشواریوں کا سامنا رہا ۔صوبائی بجٹ کی تیاری کی ہدایات کے سلسلہ میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اپنی معاشی ٹیم کے ہمراہ اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان سے گزشتہ دنوں ملاقات بھی کی تھی۔حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ بجٹ میں ترقیاتی منصوبوں کو بھی ترجیحی بنیادوں پر رکھا جا رہا ہے جبکہ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے لئے فلاحی پروگراموں کو شامل کیا جا رہا ہے ؟