ریاستی بقاء پر توجہ کی ضرورت ہے

June 14, 2019

فکر فردا … راجہ اکبردادخان
مجھ جیسے کروڑوں پاکستانی اس مقام پر جہاںآج یہ نیوکلیئر ریاست کھڑی دکھائی دیتی ہے کو ایک تکلیف دہ حقیقت سمجھتے تو ضرور ہیں۔ مگر اسے قبول کرنے کیلئے تیار نہیں، یہ صورتحال پچھلے 10ماہ میںپروان نہیں چڑھی، بلکہ ہماری دیرینہ ناقص اندرونی اور بیرونی پالیسیسوں کا آئینہ ہے جو ہم نے کم و بیش پچھلے 10-15برسوں سے اپنا رکھی ہیں ریاستیں کمزور ہونے کی عمومی وجوہات غیر محفوظ سرحدیں، سیاسی خلفشاری، کرپشن میںڈوبی بیوروکریسی اور اشرافیہ کے علاوہ کمزور اعلیٰ نظام عدل ہے جنکے ساتھ معاشی ناہمواری اور مذہبی عدم آہنگی مل کر ایک ایسا ماحول ترتیب دے دیتی ہیںجہاں آئین اور قانون کی حکمرانی کا نام و نشان نہیں مل پاتا اور ایسے ماحول میںدھونس دھاندلی میں درست کم غلط رویوں سے افراتفری کے ماحول پیدا ہوکر معاشرے کی جڑیں کمزور کردیتے ہیں۔ ایسا ہی ماحول آج میرے آبائی وطن میں ہے چار صوبوں کی شکل میںملک کی تقسیم سے مقامی جاگیردار اور وڈیرے تو فائدہ میںرہے مگر اس تقسیم نے وقت گزرنے کے ساتھ ملک کو مضبوط کرنے کی بجائے اسے مزید تقسیم اور کمزور کردیا۔ چاروں صوبے ملکر مرکز کو مضبوط کرتے نظر نہیںآتے پچھلی حکومت کے دورانیہ میںنیشنل ایکشن پلان بنا تو ضرور مگر سیاسی وجوہات کی بنا پر دو صوبوں میں اس پر پوری طرح عمل نہ ہوسکا۔ اس وقت تک ملک مکمل طور پر دہشت گردی کی لپیٹ میں آچکا تھا۔ ملکی مفاد میں یہی تھا کہ ہمارے دشمن کے تیار کردہ ان منصوبہ جات سے بھرپور انداز میںابتدا سے ہی نمٹ لیا جاتا مگر ملک کو اندرونی طور پر کمزور کرنیکے ایسے منصوبہ جات نے ہمیںکمزور کردیا جس سے ہم تاحال سنبھل نہیںسکے ہیں۔ کیونکہ دشمن ہمیںصفحہ ہستی سے مٹا دینے کے پیچھے ہے بحیثیت ریاست ہم نے ان خطرات سے نمٹنے میںدیر کردی ہے جس طرف دیکھیں دشمن ارادوں کے نشان ملتے ہیں۔ صورتحال کو مزید سمجھنے کیلئے ہمیںدشمن کی ایسی آوازوں کہ وہ پاکستان کو دنیا میں تنہا کردیںگے وغیرہ پر کہیں زیادہ توجہ دیکر ان کے توڑ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ پچھلے پانچ سال کے دوران کل وقتی وزیرخارجہ نہ ہونے کے ثمرات پاکستان کی جھولی میں گر رہے ہیں۔ پاکستان کو جس طرح معاشی اور سیاسی سطح پر گھیر لیا گیا ہے۔ جہاں سیاست کے کئی حصے اور نظام حکومت کے کئی پہلو ملک دشمن راہوں پر چلتے ملتے ہیں اعلیٰ نظام عدل کو ہی لے لیجئے، عدلیہ کے کئی حصوں کا ریاست کے اندر ایک اور ریاست کا ماحول بنائے پائے جانا۔ اعلیٰ ترین سطح پر ریاست شکنی کے زمرے میںآتا ہے وقت کی ضرورت ہے کہ عدلیہ آہنی فیصلوں سے ریاست کو مضبوط کرے۔ بدقسمتی سے ریاست کے اس اہم ستون کے اندر موجود تقسیم ملکی استحکام کیلئے ایسے خطرناک اشارے ہیں جن سے معاشرہ افراتفری کا شکار ہورہا ہے جسے روکنے میں ریاست کامیاب نہیں ہورہی ملک کے اندر حکومتی رٹ بھی ہر قدم پر چیلنج ہورہی ہے یہاں پرانا نظام نئے کے پائوں نہیں لگنے دے رہا معاملات نیب تحقیقات کے ہوںیا نیب پراسیکیوشن کے ہوں سیاستدانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ ان معاملات کو سیاسی رنگ دیکر معاملات آگے نہیں بڑھنے دے رہا اس سیاسی اشرافیہ کو بیوروکریسی کے اہم حصوں کی بھی حمایت حاصل ہے کیونکہ دونوں طبقات عوامی وسائل کی چراہ گاہ سے اکٹھے مال کی لوٹ مار کرنے کے اتحادی ہیں انہی وجوہات کی بنا پر حکومت نہ تو لوٹی دولت واپس لانے اور نہ ہی مار دھاڑ کرنے والے افراد واپس پاکستان لانے میںتاحال کامیاب ہوسکی ہے۔ صوبوں کے درمیان نفرتیں بڑھنے سے وفاقی رٹ کمزور ہورہی ہے افواج پاکستان ملکی سرحدوں میں گہرے انداز میں مصروف ہونے کے علاوہ جس طرح بلوچستان میں دشمن کی طرف سے پرموٹ کی گئی بھارت سے نمٹنے میں مصروف ہیںسے واضح ہوتا ہے کہ صرف یہی ایک ادارہ ہے جو ملکی بقا اور استحکام کے معاملات سے نمٹنے میں دلچسپی بھی رکھتا ہے اور ممکن حد تک ان سے نمٹنے کی اہلیت بھی اس کے درمیان موجود ہے۔ نظام کے دیگر اہم ناکام ہوتے حصوں کا ہر دفعہ بوجھ افواج پاکستان کے کندھوںپر ڈال دینا بھی کمزور ہوتی ریاست کی نشانیوں میںسے ایک ہے۔ سوال اٹھتے ہیںکہ اتنے کم عرصہ میںایک متحرک ریاست کو کن وجوہات کی بنا پر یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں کہ لوگ پاکستان کے ساتھ انگیج ہونے سے کترانا شروع ہوچکے ہیں وہ کونسل سیاسی اور عسکری پالیسیاں ہیں جنکی وجہ سے ہمارے ہمسائے بالخصوص بھارت اور افغانستان ہمارے گہرے دشمن بن چکے ہیں؟ بھارت کے ساتھ 70سالہ دیرینہ کشمیر ایشو پر کبھی حالات اتنی خراب سطح پر نہیں پہنچے جہاںآج ہیں ہمارا مخالف ملک اس ایشو پر ہمیں دفاعی پوزیشن پر لے آیا ہے ملک کے سیاسی اور دفاعی مائنڈ سیٹ کو اپنے اردگرد کے آن گرائونڈ حالات کے مطابق ایڈجسٹ ہونے کی ضرورت ہے۔ کئی ممالک کو پاکستانی نیوکلیئر صلاحیت ایک آنکھ نہیںبھاتی۔ لیکن ہماری نہ کام کرتی سفارتکاری بھی ہمارے ناراض دوستوں کو اپنے کیمپ میں نہیںلاسکی ہے۔ ہمارے مخالفین کے لگائے ہوئے الزامات کہ پاکستان دنیا بھر میں دہشت گردی پھیلانے میں مصروف ہے کو ہم ناکارہ نہیںبناسکے۔ اس مشکل صورتحال سے نکلنے کیلئے ایک نیا کام کرتا بیانیہ پرموٹ ہونے کی ضرورت ہے۔ حکومت کے مختلف اعضا بھی کام نہیں کررہے۔ سیاسی سٹرکچر گالی گلوچ دینے اور لینے کا ایک میدان بنا ہوا ہے۔ بات خواہ عید کے حوالے سے ہو یا رمضان شروع ہونے کے حوالے سے ہو ایسے چھوٹے معاملات پر بھی نظام موجودہ حکومت کی رٹ تسلیم کرنے سے انکاری ہے جو تشویشناک ہے۔ دشمن ممالک کا پاکستان دشمن ایجنڈا ہر محاذ پر آگے بڑھ رہا ہے۔ اگر ریاست کے اندر طاقت اور حکومتی مشینری کے اندر موجود لوگوں نے معاملات کی درستگی کیلئے مشترکہ عزم کے ساتھ اقدامات نہ اٹھائے تو خدشہ ہے کہ ملک کہیں مزید افراتفری کا شکار نہ ہوجائے۔ جمود کا شکار حکومت اس اہل دکھائی نہیں دے رہی کہ وہ مشکلات میں گھری ریاست کو مضبوطی سے کھڑے رکھ سکتی ہے۔ حکومت کے پاس ایمرجنسی کا آپشن ہے جسے استعمال کرتے ہوئے آئینی تبدیلیوں کے ذریعہ کچھ عرصہ کیلئے اس ریاست کو ایک قومی سطح کے ایسے خول میںڈھال دیا جائے جس سے قومی سلامتی اور حکومتی رٹ مضبوط ہوسکیں۔ انتہائی مشکل معاشی حالات سے کم از کم دو سال تک ہمارا واسطہ رہے گا۔ لہٰذا اہم معاشی ماہرین اور غیر نیب زدہ سیاستدانوں پر مشتمل درمیانی مدت کیلئے ایک قومی حکومت بھی ایک معقول آپشن ہے جو ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹ سکتا ہے۔ یہ واضح ہے کہ حکومت این آر اوز کے حوالے سے دبائو میں ہے یہ دبائو نہ صرف اپوزیشن کی طرف سے بلکہ جس طرح کچھ سیاستدانوں کے معاملات سے نمٹا جارہا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ اور طاقتور لوگ بھی اس دبائو میں شامل ہیں۔ جب آئین اور قانون کی حکمرانی کی تلقین سبھی کرتے ہیں تو اس پر عمل بھی اسی سپرٹ میںہونا چاہئے اور ایسی ہی راہوں پر چل کر ریاست اپنی منزل طے کرلے گی۔ وزیراعظم محترم کو صوبائی دارالحکومتوں میںزیادہ وقت گزارنے کی ضرورت ہے تاکہ حکومت کا یہ پیغام کہ اسے پورے ملک کی فکر ہے۔ مضبوط ہوکر ایک مضبوط پاکستان کو اوپر اٹھانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہے۔