صحتِ زباں: پزیر نہیں پذیر....

June 19, 2019

عجیب بات ہے کہ جن الفاظ کا برسوں بلکہ صدیوں سے درست اِملا لکھا جارہا تھا اب اُن کے اِملا میں غیر ضروری تبدیلیاں کرکے انہیں مسخ کرنے کی کوششیںکی جارہی ہیں ۔ ایسے ہی الفاظ میں لفظ ’’پذیر ‘‘ بھی شامل ہے ۔ خدا جانے کیوں اب اس کا اِملا ’’ذ‘‘ (ذال) کے ساتھ کرنے کے بجاے ’’ز ‘‘ (زے ) سے کیا جارہا ہے۔ یعنی اب اسے ’’پذیر ‘‘ کے بجاے ’’پزیر ‘‘ لکھا جارہا ہے۔ اسی طرح ’’پذیرائی ‘‘ کا بھی غلط اِملا رائج کرنے کی غیر ضروری کوشش کی جارہی ہے اور اسے ’’پزیرائی ‘‘ لکھا جارہا ہے، لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔

پذیر دراصل فارسی کے مصدر ’’پذیرفتن ‘‘ سے ہے۔ پذیرفتن کے معنی ہیں:بول کرنا۔ پذیر کا لا حقہ عام طورپر ’’قبول کرنے والا ‘‘کے معنوں میں آتا ہے۔مثلاً تربیت پذیر، سکونت پذیر، ترقی پذیر، زوال پذیر ۔ رشید حسن خان کے بہ قول،پذیر میں ذال ہے اور اس کے مشتقات میں بھی ذال آئے گا۔ مثلا ً پذیرائی، دل پذیر، اثر پذیر، خلل پذیر۔

پذیر کوذال کے بجاے زے سے یعنی ’’ پزیر‘‘ لکھنے کی بدعت کے پیچھے اگر کوئی علمی بحث ہوسکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ ذال تو عربی کا حرف ِ تہجی ہے اور پذیر فارسی کا لفظ ہے، لہٰذا اس میں ذال کے بجاے زے لکھناچاہیے ۔ بعض لوگوں کے خیال میں فارسی میں ذال کا وجود نہیںہے اور فارسی الفاظ میں ذال نہیں آسکتا اور پذیر چوں کہ فارسی کا لفظ ہے اس لیے ان کے خیال میں پزیر(زے سے) درست ہے ۔ اس موضوع پر بہت بحثیں ہوچکی ہیں اورانہیںدہرانے کی ضرورت ہے اور نہ گنجایش۔ مختصراً یہ کہ زبان و ادب اور لسانیات کے علما نے لکھا ہے کہ فارسی میں ذال کا وجود ہے اور پہلے بھی رہا ہے ۔اس بحث میں مرزا غالب کا بھی حصہ ہے۔انہوں نے اپنے ایک خط میں یہ خیال ظاہر کیا کہ فارسی میں ذال کا وجود نہیں ہے،حالاں کہ یہ بات صریحاً غلط ہے۔ڈاکٹر عبدالستار صدیقی جیسے ماہر ِزبان و لسانیات(جو کئی زبانوں کے عالم تھے)نے لکھاہے کہ فارسی میں ذال وجود رکھتی ہے اوربہ قول ان کے ’’غالب نے پہلے نادانی سے پھر سینہ زوری سے ‘‘ضد کی کہ ذال عربی کا حرف ہےاورفارسی میں نہیں ہے،اس لیے اسے فارسی الفاظ میں نہیں آنا چاہیے۔ لیکن غالب کا خیال یہاں سراسر غلط تھا۔

سید قدرت نقوی نے بھی اپنے ایک مقالے میں یہ ثابت کیا ہے کہ قدیم فارسی میں بھی ذال کا وجود تھا اور ’’ذال ‘‘کے تلفظ پر بھی انہوں نے بحث کی ہے ۔ وحید الدین سلیم نے بھی پذیر اور اس کے مرکبات میں ذال لکھی ہے۔اس موضوع پر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں،قاضی عبدالودود،پروفیسر نذیر احمد اور ڈا کٹر فرمان فتح پوری جیسے اہل علم کی اٹھائی گئی بحثوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ان الفاظ کا املا’’ زے ‘‘سے کرنا یعنی انہیں پزیر اور پزیرائی لکھنا قطعاً غلط ہے اور ان الفاظ کا صحیح اِملا ذال کے ساتھ یعنی پذیر اور پذیرائی ہے۔لیکن چند عاقبت نا اندیش اور برخود غلط لوگ ان الفاظ کا غلط اِملا اخبارات میں رائج کر رہے ہیں۔ ان سے پوچھا جاناچاہیے کہ اردو،عربی اور فارسی کے ان جیدماہرین کے دلائل کے جواب میں آپ کے پاس کیا دلائل ہیں۔لیکن وہ شاید ان مباحث سے واقف ہی نہیں ہیں ،پڑھنا توکی دور کی بات ہے۔

اگران نادانوں کی یہ روش برقرار رہی توخطرہ ہے کہ آگے چل کر عربی الفاظ سے بھی ذال کو خارج کردیا جائے گا او رکچھ لوگوں نے تو لذیذ اور تعویذ کو ذال کی بجاے زے کے ساتھ یعنی غلط طورپر لزیز اور تعویز لکھنا بھی شروع کردیا ہے۔دراصل ہندوستان میں ایک زمانے میں یہ تحریک چلی تھی کہ اردو سے عربی حروف ’’ض ‘‘، ’’ذ‘‘ اور’’ ظ‘‘ وغیرہ کو خارج کردیا جائے اور ان کی جگہ’’ ز‘‘ لکھی جائے ۔ اس کے علاوہ ’’ع ‘‘ کی جگہ’’ الف ‘‘اور ’’ح ‘‘ کی جگہ ’’ہ‘‘ لکھی جائے۔ اس تحریک کے ایک بڑے حامی نواب محسن الملک کے بھتیجے ڈاکٹر جعفر حسن تھے اور وہ اس اصول پر عمل کرتے ہوئے اپنا نام ’’جافر ہسن ‘‘ لکھا کرتے تھے۔ اس پر تو اِنَّا لِلّٰہ ہی پڑھی جاسکتی ہے۔