مشتاق احمد یوسفی کی کتابیں پڑھیں، ہنسیں اور صحت مند رہیں

June 20, 2019

مشہور و مؤقر انگریزی ماہنامے ’’ریڈرز ڈائجسٹ ‘‘ کا مقبول سیکشن Laughter is the Best Medicine،اس کی فروخت اور سرکولیشن میںاضافے کا باعث تھا۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاںہے کہ ہنسی خوشی رہنے والے شخص کو بیماریاںنہیںہوتیں اوراگر کسی وجہ سے اس کی صحت متاثر ہو بھی جائے تو وہ ہنسی کا سامان کرکے بیماریوں کو خود پر طاری نہیںکرتا اور توقع سے زیادہ زندگی جی لیتاہے ۔

قہقہے لگانا کس قدر مفید ہوسکتاہے ، اس کاشاید ہمیں اندازہ نہیں۔ جدید ریسرچ کہتی ہے کہ ہنسنے اور قہقہے لگانے سے نہ صرف ذہنی دبائو کم ہوتاہے بلکہ اس سے یادداشت بھی تیز ہوتی ہے اور صحت میں بہتری آتی ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ قہقہے لگانا ایساہی ہے جیسے آپ یکسوئی سے مراقبہ کررہے ہوں۔ ہنسنے اور قہقہے لگانے کا عمل ذہنی دبائو کے ہارمونز کا اثر کم کرتا اور دماغ کو سکون پہنچاتاہے ۔

ہنسی بہترین دوا ہے،اس پر کی گئی ریسرچ سے مزید فوائد سامنے آئے، جیسے کہ ہنسنے سے بلڈپریشر کم اور دل کا دورہ پڑنے کا خدشہ کم ہوتاہے۔ یہاںتک کہ ہنسی کینسر سے شفایابی کا سبب بھی بن سکتی ہے ، کیونکہ ہنسنے سے جسم میںایسے خلیوںکا اضافہ ہوتاہے جو جسم میں غیرمعمولی ٹیومرز کی نشوونما کو روکنےوالے مدافعتی نظام کو مضبوط بناتے ہیں۔

ہنسنے کیلئے آپ دوستوں کی محفل میں بیٹھیں، خوش گپیوں اور لطائف کی محفل جمائیں ، مزاح سے بھرپور پروگرامز یا فلمیں دیکھیں، کچھ اور نہیںتو مشتاق احمد یوسفی کی کتابیں پڑھیں،جن کے عہد یوسفی میںقہقہے لگانے والے لاکھوں نہیں، کروڑوںلوگ جب بھی مشتاق یوسفی کا نام سنتے ہیں، ان کے چہرے پر مسکراہٹ رینگ جاتی ہے۔ خود اس خاکسار نے مشتاق یوسفی کی کتابیںکئی بار پڑھیں اور بلند آواز سے قہقہے لگائے۔اگر ان تحریروں کی وجہ سے لگائے گئےقہقہوں سے ہماری یا کسی کی بھی زندگی میں غم و اندوہ کے بادل چھٹتے ہیں یا انسان غم کی گہرائیوں سے باہر نکل آتا ہے تو سمجھیں ، مشتاق احمد یوسفی کا یہ اقدام انسانیت پر ایک عظیم احسان ہے۔

مشتاق احمد یوسفی 1923ء میںراجستھان کے شہر ٹونک میںپیدا ہوئے، اپنے آبائی وطن جےپور میںانہوں نے گریجویشن مکمل کی، پھر علی گڑھ یونیورسٹی سے ایم اے اور ایل ایل بی کیا۔ بعدازاں 1950ء تک بھارت میںڈپٹی کمشنر کے عہدے پر فائز رہے۔ 1950ء میںجب ان کے والدین ہجرت کرکے کراچی آئے تو یوسفی صاحب بھی ان کے ہمراہ آگئے اور یہاں شعبہ بینکاری کو بطور پروفیشنل کیریئر اختیار کرلیا۔ بینکاری کرتے ہوئے انہوں نے لندن کا سفر بھی کیا اور وہاں11سال گزارے۔ ان کی بینکنگ کے زمانے کی موشگافیاںا ور طنزومزاح سے بھرپور کہانیاں پڑھنی ہوں تو آپ ان کی بینکارانہ سوانح عمری ’’زرگزشت ‘‘پڑھیں ، میرا یہ ماننا ہے کہ ہنسی مذاق میںبینکنگ سیکھنے کے لیے اس سے بہتر کوئی کتاب نہیں۔

مشتاق یوسفی نے اپنے ادبی سفر کا آغاز ’’صنف ِ لاغر‘‘ سے کیا، جو لاہور کے جریدے میںشائع ہوا۔ مختلف رسالوںمیں لکھے ہوئے مضامین کو جب یکجاکیا گیا تو 1961ء میںان کا پہلا مجموعہ ’’چراغ تلے ‘‘ منظر عام پر آیا۔ اس کے بعد ان کے مزاح کی چاشنی سے لبریزاور قہقہوں کا طوفان لئے مزید کتابیںپڑھنے والوں کو ان کا گرویدہ بناتی چلیگئیں۔ ان میںخاکم بدہن (1970ء) ، زرگزشت (1976ء) ، آب گم (1989ء) اور شام ِ شعر یاراں (2014ء)شامل ہیں،جو آ ج بھی دنیا بھرکے قارئین کو اپنا اسیر بنائے ہوئے ہیں۔

مزاح کے بہتے جھرنے میںجب آپ یوسفی صاحب کے طرز تحریر کی چاشنی میںتیرتے جارہے ہوتے ہیں، مسکراہٹ آپ کے چہرے پر رقصاں ہوتی ہے، تو کبھی کبھار آپ کا قہقہہ بھی بلند ہوجاتاہے ، لیکن جب وہ زمانے کی سفاکیت اور انسانی پہلوئوں کی کربناکیوں کو سامنے لاتے ہیں تو آپ کا دل مسوس کر بھی رہ جاتاہے اور اگر آپ حساس ہیںتوشاید اپنے آنسوئوںکو بھی نکلنے سے نہ روک سکیں۔

یوسفی صاحب کی کتابوںمیں ان کے بچپن ، جوانی، سماج اوررسم و رواج کی جھلکیاںبہت ہی شستہ اور برجستہ انداز میں سامنے آتی ہیں اور وہ عام سی بات کو بھی مزاح کا ایسا رنگ دیتے ہیںکہ پڑھنے والا ان کی حسِ مزاح کی داد دیے بغیر نہیں رہ پاتا، مثلاً اپنے آبائی علاقے کا ایک مشاہدہ وہ اس طرح سامنے لاتے ہیں:

’’راجستھان کے راجپوتوں میں الٹا دستور ہے، اونٹ پر بیٹھی ہوئی عورت کے انداز نشست کو دیکھ کر ایک میل دور سے بتلا سکتے ہیں کہ وہ سوار کی بہن ہے یا بیوی، بہن کو راجپوت سردا رہمیشہ آگے بٹھاتےہیںتاکہ خدانخواستہ گرپڑے تو فوراً پتہ چل جائے۔ بیوی کو پیچھے بٹھاتے ہیں‘‘۔

مشتاق احمد یوسفی کے اقتباسات، شگوفوںاور پُرمزاح جملے آج کل سوشل میڈیا پر بہت مقبول ہیں، ان میںکچھ آ پ کی نظر ہیں:

میرا تعلق اس بھولی بھالی نسل سے رہا ہے، جو خلوص ِدل سے سمجھتی ہے کہ بچے بزرگوں کی دعائوں سے پیدا ہوتے ہیں۔

■ کہتے ہیں، بیماری جان کا صدقہ ہوتی ہے، لیکن ہمارے لیے تو یہ صدقہ جاریہ ہوگیاہے۔

انسان کو موت ہمیشہ قبل ازوقت اور شادی ہمیشہ بعد از وقت معلوم ہوتی ہے۔

■ خون، مشک ، عشق اور ناجائز دولت کی طرح عمر بھی چھپائے نہیںچھپتی ۔

■ہر آزاد قوم کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنے منہ اور معدے کے ساتھ جیسا سلوک چاہے کرے، بے روک ٹوک کرے۔

■ پاکستانی افواہوںکی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ سچ نکلتی ہیں۔

■ آدھا بیٹ ٹوٹ جانے کے بعد بھی کرکٹ جاری رہے تو امریکا میں اسے بیس بال کہتے ہیں۔

اردو ادب کا مایہ ناز ادیب، ظرافت نگار اور طنزو مزاح کا بے تاج بادشاہ اپنے عہد یوسفی میں کروڑوںلوگوںکوہنساتا اور رُلاتا ہوا20جون 2018ءکو 95سال کی عمر میں کراچی میں ملکِ عدم روانہ ہوا۔