کچی آبادیاں

June 20, 2019

کراچی ایک گنجان آباد شہر ہے ،جس کی آبادی کی ایک بڑی تعداد دوسرے صوبوں سے آئے ہوئے لوگوں پر مشتمل ہے، کراچی کے ایک کروڑ 30 لاکھ شہری آج بھی کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہیں جو مجموعی آبادی کا 62 فیصد ہے۔ یہاں باقی شہروں کے مقابلے میں کاروبار اور ملازمتوں کے مواقع سب سے زیادہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں اور علاقوں سے لوگوں کی آمدکا سلسلہ سارے سال جاری رہتا ہے، جس کے باعث اب صورتِ حال یہاں تک آ پہنچی ہے کہ دوسرے علاقوں سے آنے والوں کی یہ ’عارضی جنت‘ شہر کے لیے ’سزا‘ بنتی جارہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر کے مسائل تو دن رات بڑھ ہی رہے ہیں، شہر کو مسلسل آبادی کے دباؤ کا بھی سامنا ہے، جس کی وجہ سے کچی بستیوں میں اضافہ ہورہا ہے اور بے گھر افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔بے گھر افراد کی تعداد میں پچھلے 25 سے 30 برسوں کے درمیان سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ نئی نئی بستیاں اور گوٹھ آباد ہونے کے بعد ان بستیوں میں بھی جگہ ختم ہوگئی ہے اور لوگ سڑکوں کے کنارے، پلوں کے نیچے، ریلوے اسٹیشنز، اسپتالوں کے باہر اور جھونپڑیاں بنا کر رہ رہے ہیں

بوسیدہ مکانوں کی خستہ درو دیواریں ،کچی گلیاں،اطراف میں بہتے ندی نالے اور کچرے کے ڈھیر شاید یہ سب کچی آبادیوں کےمکینوں کامقدرہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شہرقائد میں آباد کچی آبادیوں کے مکینوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ان آبادیوں میں بڑی تعداد دیہاڑی پر کام کرنے والے مزدوروں کی ہے، جن کے مسائل ہمیشہ وسائل پر حاوی رہتے ہیں۔ کراچی میں جہاں غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ اور صحت کی نامناسب سہولیات کو اموات میں اضافے کی اہم وجوہات قرار دیا جا رہا ہے، وہیں شہر میں پھیلی ہوئی کچی آبادیوں کے مکانات بھی گرمی میں موت کا جال بن جاتے ہیں، جہاں ہوا اور روشنی کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔مزید براں‘ ان آبادیوں کی حالت اس حد تک خستہ اور گندی ہوتی ہے کہ وہاں پر صحت و صفائی کا نظام نہ ہونے کے برابرہوتا ہے، جس کی وجہ سے یہ علاقے بیماریوں کی آماجگا ہ بن جاتے ہیں۔

سرجانی ٹاؤن، گلستان جوہر، نارتھ کراچی، نیو کراچی، گلشن اقبال، لیاقت آباد، گلبرگ، ڈیفنس، صفورا گوٹھ، سہراب گوٹھ، سپرہائی وے، لانڈھی، ملیر، اولڈ سٹی ایریا، ایم اے جناح روڈ، طارق روڈ، سوسائٹی، شاہراہ فیصل، محمود آباد، چنیسر گوٹھ، سائٹ ایریا، اورنگی ٹاؤن، کورنگی، ڈیفنس، کلفٹن کوئی ایسا علاقہ نہیں ،جہاں آبادی کا دباؤ محسوس نہ ہوتا ہو یا جہاں لوگ سڑکوں کے کنارے، کھلے آسمان تلے یا کچی آبادیوں میں نہ رہتے ہوں۔ آبادی میں مسلسل اضافے سے وسائل کم سے کم ہوتے جارہے ہیں حتیٰ کہ کرائے کے مکانات میں بھی کمی کا سامنا ہے۔ پانی کا بحران بے قابو ہورہا ہے، بجلی کی رسد اور کھپت میں فرق بڑھتا جارہا ہے، اسپتالوں میں جگہ نہیں، اسکولوں میں داخلہ نہیں، سڑکوں پر ٹریفک بے ہنگم ہے، گندگی کے ڈھیر بڑھ رہے ہیں اور لوگ قطار در قطار ملازمتوں کے انتظار میں بوڑھے ہورہے ہیں۔

دنیا چاند سے واپس آکر مریخ پر جانے کے لئے کمر بستہ ہے، مگر پاکستان جیسے غریب ممالک کے افراد گھر کی تلاش میں سر گرداں ہیں ۔دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ رہائش ایک وبالِ جان بنتی جارہی ہے شہر میں قدیم آبادیوں میں کیڑے مکوڑوں کی طرح غیر انسانی رہائش اختیار کر نے والے سات سات افرادایک کمرے کے گھر میں رہتے ہیں۔ان آبادیوں میں چار قدم چلنا محال ہے، ہر طرف کچرے کے ڈھیر نظر آتے ہیں جن کی بدبو سے دماغ پھٹنے لگتا ہے۔دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ نکاسی آب کی خرابی کے باعث گلی گلی کیچڑ بہتی ہے،جس میں اینٹیں رکھ کر آگے بڑھا جاسکتاہے۔ مقامی افراد اپنی مدد آپ کے تحت صفائی کرنا گوارا نہیں کرتے اور گندگی بڑھتی چلی جاتی ہے، ان ہی گلیوں میں بے پناہ بچے دوڑتے بھاگتے اور کھیلتے رہتے ہیں۔جن کی مائیں کارخانوں اور گھروں میں ملازمت کر کے گھر کا خرچ چلاتی ہیں۔

اگرچہ ہم 21 ویں صدی میں جی رہے ہیں، مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم شماریات کو بہت کم اہمیت دیتے ہیں۔داخلی تارکین اب کراچی کے تقریبا ًمستقل باشندے ہیںاور تمام بنیادی سہولتیں استعمال کر رہے ہیں۔چنانچہ منصوبہ بندی کے دوران صوبائی اور سٹی گورنمنٹ کو کراچی کی 19 ملین سے زیادہ آبادی کے لیے سہولتیں فراہم کرنا ہوتی ہیں۔یہ اعداد و شمار سٹی گورنمنٹ کے اعداد و شمار سے مطابقت نہیں رکھتی۔المیہ یہ ہے کہ شہری سہولتوں میں سرمایہ کاری کبھی بھی آبادی میں اضافے کی شرح کے مطابق نہیں رہی۔ سہولتوں کی طلب اور رسد کے مسائل اتنے زیادہ ہوگئے کہ اب ان کا پہاڑ بن گیا ہے۔یہ الگ بحث ہے کہ کراچی کو اس حال پر کس نے پہنچایا، اب تو کراچی کی حالت بدلنے کی فکر کرنی چاہیے، لیکن یہ حالت کون بدلے گاکیسے بدلے گا۔غریب آدمی کا وہ خواب کہ اُس کا اپنا چھوٹا سا گھر ہو‘ وہ خواب ہی رہتا ہے۔

کراچی کے گورنر ہاؤس میں کراچی ٹرانسفارمیشن کمیٹی کے اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم نے شہر کے لیے پیکیج کا اعلان کیا۔وزیراعظم نے کہا کہ یہ پیکیج اپنے وسائل اور پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ سے تیار کیا ہے، پیکیج میں 18 منصوبے ہیں ،جس میں سے پبلک ٹرانسپورٹ کے 10 اور واٹر سیوریج کے 7 منصوبے ہیں۔وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ کراچی کی ترقی سارے پاکستان کی ترقی کےلئے ضروری ہے، کراچی کا ماسٹر پلان بہت اہم ہے، شہر اب صرف کنکریٹ لگتا ہے یہاں گرین ایریاز ختم ہوچکے ہیں اور کراچی پھیلتا جارہا ہے، اتنے پھیلتے ہوئے شہر کو پانی اور سیوریج سمیت دیگر سہولیات نہیں دی جاسکتیں، اس طرح کے شہر میں سب کچھ مشکل ہوجاتا ہے، اس لیے بہت ضروری ہےکہ شہر کا ماسٹر پلان جلد بنایا جائے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں فیصلہ کرنا ہےکہ کراچی ایک خاص ایریا سے زیادہ نہیں پھیلے گا، جب تک پورا ماسٹر پلان نہیں بنتا عبوری فیصلے کرنا ہیں، کئی چیزیں شہر میں روکنی ہیں، اگر ایسا نہ کیا تو شہر کہیں سے کہیں پہنچ جائے گا، شہر میں سب سے زیادہ کچی آبادیاں ہیں، ہمیں شہر کو محدود کرکے کچی آبادیوں کو ترقی دینا ہے۔ کراچی میں دستیاب جگہ بچانے کے لیے کثیرالمنزلہ عمارتوں کی ضرورت ہے ۔