کامیاب طلباء کی مشترکہ قدریں

June 23, 2019

طالب علموں کی تعلیمی میدان میں کارکردگی کا دارومدار جن عوامل پر ہوتا ہے؟ اس حوالے سے اکثر بحث کی جاتی ہے۔ کیا تعلیم کے میدان میں نتائج طالب علموں کی محنت کا نتیجہ ہوتے ہیں یا صرف ذہانت ہی کافی ہوتی ہے؟ موروثیت کا بھی اس میں کوئی کردار ہوتا ہے؟ یا پھر اس کے علاوہ بھی کچھ خصوصیات ہوتی ہیں، جو بچوں کے تعلیمی نتائج پر اثرانداز ہوتی ہیں؟

آسٹریلیا کی گریفتھ یونیورسٹی نے حال ہی میں ایک تحقیق جاری کی ہے، جسے ماہرِ نفسیات آرتھر پوروپاٹ نے تیار کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’فرض شناس‘‘ بچے اسکول میں اکثر ٹاپ کرتے ہیں۔

تحقیق کیا بتاتی ہے؟

امریکا اور دنیا کے دیگر ملکوں میںپڑھائی میں کامیابی کے لیے ذہانت کو بنیادی اشاریہ تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم متذکرہ بالا تحقیق اس تصور کو رَد کرتی ہے کہ ذہین اور ’’کتابی کیڑوں‘‘ کا کلاس میں ٹاپ کرنا فطری ہوتاہے۔ بہ الفاظِ دیگر گریفتھ یونیورسٹی کی تحقیق ہمیں یہ بتا رہی ہے کہ اسکول میں کامیابی حاصل کرنے اور خصوصاً ٹاپ کرنے کے لیے ذہانت (IQ)کا ہونا اتنا اہم نہیں ہے، جتنا اہم ایک طالب علم کا ’’فرض شناس‘‘ ہونا ہے۔

نظم و ضبط ضروری ہے

تحقیق کے مطابق، اہداف حاصل کرنے کے لیے فرض شناس بچے زیادہ نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جو بچے اپنے ذہنوں کو بڑی چیزوں کے لیے کھلا رکھتے ہیں، ان میں زیادہ تجسس پایا جاتا ہے اور وہ نئے تصورات کو جلد قبول کرنے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔ جس طالب علم میں یہ دونوں خصوصیات پائی جاتی ہیں، وہ چیلنجز کو بہ یک وقت مضبوط قوّت ارادی اور لچک کے ساتھ لیتا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر، وہ بار بار کوشش کرنے پر یقین رکھتا ہے، نا کہ ایک بار ناکام ہوگئے تو تھک ہار کر بیٹھ گئے یا راستہ بدل لیا۔

پوروپاٹ کی یہ تحقیق ’’لرننگ اینڈ اِنڈیویجوئل ڈِفرنسز‘‘ کے حالیہ شمارے میں شائع ہوئی ہے۔ اس تحقیق نے دیگر محققین کو بھی حیران کردیا ہے، جو عموماً ذہانت اور تعلیمی کامیابی کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھ پاتے۔ تاہم، اساتذہ کو اس نئی تحقیق کے نتائج پر زیادہ حیرانی نہیں ہے۔ اساتذہ اور ماہرینِ تعلیم طلبا میں ان خصوصیات کی جلد ہی نشاندہی کرلیتے ہیں، جنھیں ان کی ذہنی صلاحیتوں کے ساتھ جوڑا جاسکتا ہے۔ ’ذہن کا کھلا ہونا‘ایک ایسی ہی شخصی خصوصیت ہے جبکہ جستجوئے حصول دانش اور اعلیٰ عقلی صلاحیتوں میں تعلق سے کون انکار کرسکتا ہے؟

پوروپاٹ کہتے ہیں، ’’ہم سمجھتے ہیں کہ علم کی جستجو اور ذہانت ساتھ ساتھ ہوتی ہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں ایک ہی چیز کے دو نام نہیں ہیں۔ اہم یہ ہے کہ آپ ان خصوصیات کو کس طرح عملی زندگی میں اپناتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آپ ذہین ہوں، تاہم اگر آپ ایک حد سے آگے سیکھنے کے لیے تیار نہیں یا علم حاصل کرنے کی جستجو ہی نہیں رکھتے تو کوئی بھی کبھی آپ کی ذہانت کا اندازہ نہیں لگاپائے گا‘‘۔

ذہین پیدا ہوناکافی نہیں ہے

اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ماہرِ نفسیات کارول ڈیویک کا کہنا ہے، ’’لوگوں کا یا تو ’فکسڈ مائنڈ سیٹ‘ ہوتا ہے یا پھر وہ ’گروتھ مائنڈسیٹ‘ رکھتے ہیں‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ ذہانت ایک ایسی خصوصیت ہے، جسے محنت اور مسلسل کوشش کے ذریعے بڑھایا جاسکتا ہے۔ ’فکسڈ مائنڈسیٹ‘ کے بارے میں ماہرین یقین رکھتے ہیں او رسمجھتے ہیں کہ ذہانت ایک نہ بدلنے والی خصوصیت ہوتی ہے، جو یا تو آپ میں ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس، ’گروتھ مائنڈسیٹ‘ کو وہ ایک ایسی ذہانت کے طور پر دیکھتے ہیں، جسے عمل کے ذریعے بڑھایا جاسکتا ہے۔

ماہرینِ نفسیات کی ایک اور قسم ، جن میں اینجیلا لی ڈَک ورتھ بھی شامل ہیں، وہ ذہانت کی تیسری قسم کے لیے Gritکا لفظ استعمال کرتی ہیں، جس کا مطلب ہے طویل مدتی اہداف کے حصول کے لیے تسلسل اور صبر کا جذبہ ہونا چاہیے۔ڈَک ورتھ نے ’نیشنل اسپیلنگ بی‘ مقابلوں میں شریک ہونے والے طلبا کے مشاہدے میں دیکھا کہ ’دانستہ‘ اور ’مرتکز‘ کوشش کسی بھی شخص کو اپنے شعبہ میں ’کامل‘ بنا سکتی ہے۔ انھوں نے دیکھا کہ وہ طلبا جنھوں نے متعین کردہ طریقہ کار کے تحت اسپیلنگ بی کے لیے جس قدر تیار ی کی تھی، اس مقابلے میں ان کی کارکردگی کافی اچھی رہی۔ ڈَک ورتھ کہتی ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ زیادہ محنت کرنے والے طلباء نے اس اسپیلنگ بی سے اس قدر زیادہ لطف بھی اُٹھایا ہو (کیونکہ وہ کہتی ہیں کہ ان کے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ کچھ طلبا یونانی اور دیگر زبانوں کے الفاظ کے ہجے کرتے وقت لطف اندوز نہیں ہورہے تھے) لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ جن طلبا نے زیادہ محنت کی تھی، ان کے نتائج بھی اتنے ہی بہتر آئے۔

کامیابی کے کئی اور بھی نظریے موجود ہیں۔ جیسے ایک طبقہ یہ کہتا ہے کہ، ’’شخصیت سب سے اہم ہے‘‘۔ اس کیمپ کے حامی ماہرنفسیات مارٹن سیلیگمان نے ’تعلیمی اصلاحات‘ میں کردارسازی کو بنیادی اور اہم ترین سنگِ میل قرار دیا ہے۔ اس کے بعد ایک اور ماہرِ نفسیات میلکم گلیڈویل ہیں،جو ’ذہانت کے قصوں‘ پر بالکل بھی یقین نہیں رکھتے۔ وہ غیرمعمولی کامیابی کو ’زیادہ سے زیادہ وقت دینے‘ سے منسوب کرتے ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر، آپ پڑھائی کو جتنا زیادہ وقت دیں گے، آپ اتنے ہی ذہین ہونگے۔

کامیابی کا ٹکٹ

ہر ممکن حد تک زیادہ سے زیادہ فرض شناس بنیں۔ بچوں کے رویے بدلنے میں اساتذہ ان کی مدد کرسکتے ہیں۔ اساتذہ، طلباء کے شخصی رویہ اور رجحان میں تبدیلی کی سب سے بڑی علامت ہیں۔ وہ اپنے طلبا کے سیکھنے کے رویوں میں بہتری لاکران کی اسکول اور بعد کی زندگی میں کامیابی کے امکانات کو بڑھا سکتے ہیں۔ پوروپاٹ سمجھتے ہیں کہ یہی وہ نکتہ ہے، جہاں کام اور حقیقی زندگی کا ملاپ ہوتا ہے۔