خواتین کے ساتھ زیادتی کب تک.........؟

June 23, 2019

ایسے واقعات کی روک تھام کے لیےسرسری سماعت کی عدلتیں بنائی جائیں دنیا سائنسی ترقی کی معراج پر پہنچ گئی ہے۔ صنف نازک کہلائی جانے والی بنت حوا، آج مردوں کے شانہ بہ شانہ مختلفشعبہ ہائے زندگی میں کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہیں بلکہ پاکستان سمیت کئی ممالک کی خواتین نہ صرف جہاز اڑاتی ہیں بلکہ لڑاکا طیاروں کی پائلٹ بن چکی ہیں۔ لیکن صد افسوس کہ ہمارے سماج میں خواتین آج بھی ازمنہ وسطیٰ جیسی زندگی بسر کررہی ہیں۔ لیکن اس دور کا موازنہ ازمنہ وسطی سے بھی نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ اس جاہلانہ دور میں بھی انسان اتنی زیادہ پستیوں میں نہیں گرا تھا کہ وہ اپنے ہی جیسے انسانوں کے ساتھ دررندگی کا مظاہرہ کرتا۔خواتین کی عزت و حرمت محفوظ تھی، اور مغربی قوانین کی عدم موجودگی کے باوجودان کے ساتھ حیوانیت کے واقعات کا صرف اکا دکا کیس ہی منظر عام پر آتا تھا۔ 21ویں صدی میں داخلے کے بعد مملکت خداد اد میں خواتین کے ساتھ زیادتیوں کے واقعات رونما ہونا شروع ہوئے، جو رواں صدی کے دوسرے عشرے میں کافی بڑھ گئے۔ خواتین پر تشدد کے خلاف قانون سازی کی گئی جو قانون ساز اداروں کی حد تک ہی محدودرہی کیوں کہ ان قوانین پر عمل درآمد کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کوئی اقدام نہیں کیا گیا، جب کہ عدلیہ نے بھی اس ضمن میں خاموشی اختیار کیے رکھی۔ 2018میں موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے خواتین اور بچوں پر جنسی تشدد اور اجتماعی زیادتیوں کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا ہے اور چند ماہ کے دوران ملک کے مختلف شہروں میں خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے ایک درجن سے زائد واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ خواتین کے حقوق کے نام سے شہرت پانے والی بے شمار تنظیمیں اور این جی اوز اس ملک میں موجود ہیں جو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ہی میڈیا پر جلوہ افروز ہوتی ہیں، بڑے ہوٹلوں میں جلسے و سیمینارز کا انعقاد کرتی ہیں، جو ’’فنڈ ریزنگ ‘‘ مہم کا حصہ ہوتا ہے،اس کے بعد خاموش ہوکر بیٹھ جاتی ہیں۔ خواتین کے ساتھ تشدد کے واقعات پرمذکورہ تنظیموں کیجانب سے شاذونادر ہی ردعمل کا اظہار کیا جاتا ہے

ملک خاص کر سندھ میں خواتین پر جنسی تشدد اور اجتماعی زیادتی کے واقعات پرسول سوسائٹیاور سماجی تنظیمیں آواز اٹھاتی ہیں، لیکن ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آوازثابت ہوتی ہے۔ سول سوسائٹی کی جانب سے شدید ردعمل اور احتجاج کے بعد پولیس حرکت میں آتی ہے لیکن سیاسی دباؤ کا شکار ہوکر وہ اس طرح سے ملزمان کے خلاف کیس بناتی ہے کہ ان واقعات کے ذمہ داراور معصوم بچیوں کی عزت کو تار تار کرنے والے درندے باعزت بری ہوجاتے ہیں۔

ایسا ہی ایک واقعہ عیدکےدوسرے روز ایک نو عمر لڑکی کے ساتھ پیش آیا جو اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ عید کی خوشیاں بانٹنے ڈگری شہر آئی تھی۔ روزنامہ جنگ کوموصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق ڈگری سب ڈویژن کے تعلقہ کو ٹ غلام محمد کے نزدیکی گاوُں سہراب خان لاشاری میں حیدرآباد کے علاقے ٹنڈو فضل سے عید کے دوسرے روز لاشاری برادری کی ایک 19 سالہ دوشیزہ اپنی بہن اور بہنوئی کے ساتھ اپنے رشتے داروں کے پاس عید ملنے آئی تھی کہ اسے گاوُں کی لاشاری برادری کے 6افراد نے اغواء کرکے مبینہ طور سے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ ملزمان کے چنگل سے چھٹکارا پانے کے بعد لڑکی کی شکایت پر اس واقعے کی اطلاع پولیس کو دی گئی۔ پولیس نے زیادتی کا شکار لڑکی کا، کے جی ایم تعلقہ اسپتال میں طبی معائنہ کرایا۔ باخبر ذرائع کے مطابق لیڈی ڈاکٹر نے اپنی ابتدائی میڈیکل رپورٹ میں لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی تصدیق کی جس کے بعد ڈینگان تھانہ کی پولیس نے واقعے میں نام زدہ 6 افراد کے خلاف متاثرہ لڑکی کے والد محرم علی لاشاری کی مدعیت میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 6/7 ATA اور زنابالجبر اور 34PPC کے تحت مقدمہ نمبر 8/2019 درج کرکے ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے۔ نام زد ملزمان میں سے 4 افراد لکاڈنو،سلیم ،ممتاز، اور الھیار کو گرفتار کرلیاگیاجب کہ دو مفرور ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔

ایس ایچ او ڈینگان تھانہ، بادل راجڑ نے نمائندہ جنگ سے باتیں کرتے ہوئے بتایا کہ مذکورہ واقعہ انتہائی شرم ناک ہے، پولیس اس واقعے میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لیے ہر ممکن کوشش کررہی ہے۔ ہم نے 4افراد کو گرفتار کرکے لاک اپ کردیا ہے باقی ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں ۔

انسانی درندگی کے اس واقعے کو سب سے پہلے سوشل میڈیا پر پیش کیا گیا، جس کا ایس ایس پی، ضلع میرپورخاص، جاوید احمد بلوچ نے فوری نوٹس لیا اورعلاقہ پولیس سے مذکورہ واقعے سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے واقعے میں ملوث ملزمان کے خلاف فوری کارروائی کی ہدایت کی، جس کے بعد نہ صرف مقدمہ درج کیا گیابلکہ ملزمان بھی فوری طور پر پولیس کی گرفت میں آئے۔

سول سوسائٹی اور علاقے کی سماجی تنظیموں نے اس واقعے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ چند ماہ کے دوران خواتین و بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے، جس سے عوام خوف و ہراس کا شکار ہیں ، لیکن وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے ان واقعات پرپراسرار خاموشی انتہائی تشویش ناک ہے۔ انہوں نے منتخب اراکین سے مطالبہ کیا کہ خواتین کی عزت و حرمت کے تقدس کی خاطرملک میں اسلامی قوانین کا نفاذ کیا جائے اور اس قسم کے سنگین جرائم کی روک تھام کے لیے سخت سے سخت سزا کا قانون پاس کرائیں اور عورتوں کے ساتھ زیادتی جیسے جرم کا ارتکاب کرنے والے درندوں کو سرسری سماعت کی عدالت سے سزائے موت دلوائی جائے۔