ادبی لطائف....

June 26, 2019

بات بھروسے کی نہیں

مشہور افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی ریل میں سفر کر رہے تھے ۔ دورانِ سفر ٹکٹ چیکر نے ان سے ٹکٹ مانگا تو بیدی صاحب نے اپنی جیبیں ٹٹولیں، مگر ٹکٹ کا پتا نہیں تھا ۔

ٹکٹ چیکر بیدی صاحب کو پہچانتا تھا ۔ کہنے لگا :’’ مجھے آپ پر بھروسہ ہے ، آپ نے یقیناً ٹکٹ خریدا ہوگا ‘‘۔

بیدی صاحب پریشانی سے بولے:’’ بھائی ! بات آپ کے بھروسے کی نہیں ، مسئلہ تو سفر کا ہے ۔ اگر ٹکٹ نہ ملا تو یہ کس طرح معلوم ہوگا کہ مجھے اُترنا کہاں ہے۔‘‘

……٭٭……

میں پری شان ہوں

پشتو کے مشہور ادیب،پری شان خٹک مرحوم کو ایک سیمینار کے سلسلے میں کراچی جانا تھا۔ منتظمین نے انہیں لینےکےلیےگاڑی ایئر پورٹ بھیجی تھی جس کا ڈرائیور ایک ان پڑھ پٹھان تھا۔ وہ ایک تختی اٹھائے، جس پر پری شان خٹک کا نام لکھا تھا، جہاز کے آنے کا انتظار کر رہا تھا۔ شومئی قسمت،جہاز لیٹ ہو گیا۔جب پری شان خٹک جہاز سے اتر کر باہر آئے تو دیکھا ایک شخص ان کے نام کی تختی اٹھائے کھڑا ہے۔ وہ سیدھا اس کے پاس گئے اور بہ طور تعارف کہا: ’’میں پری شان ہوں‘‘۔

ڈرائیور نے انہیں غصے میں دیکھا اور کہا:’’ زہ مڑہ! ہم تم سے زیادہ پریشان ہے‘‘۔

……٭٭……

مے کشو! شرم

ایک محفل میں مولانا آزاد اور مولانا ظفر علی خان حاضر تھے۔ مولانا آزاد کو پیاس محسوس ہوئی تو ایک بزرگ جلدی سے پانی کا پیالہ لے آئے۔ مولانا آزاد نے ہنس کرارشاد کیا:

لے کے اک پیرِ مُغاں ہاتھ میں مینا، آیا

مولانا ظفر علی خان نے برجستہ دوسرا مصرع کہا:

مے کشو! شرم، کہ اس پر بھی نہ پینا آیا

……٭٭……

کوئی سمجھا کہ بے خود ہے

ایک محفل میں کچھ شاعربے خود دہلوی اورسائل دہلوی کا ذکر کر رہے تھے۔ ایک شاعر نے شعر سنائے جس میں دونوں کے تخلص نظم تھے۔ وہاں حیدر دہلوی بھی موجود تھے۔ شعر سن کر کہنے لگے:

’’اس شعر میں سائل اوربے خود تخلص صرف نام معلوم ہوتے ہیں۔ کمال تو یہ تھا کہ شعر میں تخلص بھی نظم ہو اور محض نام معلوم نہ ہو‘‘۔

کسی نے کہا یہ کیسے ممکن ہے؟حیدر نے وہیں برجستہ یہ شعر کہہ کر سب کو حیران کر دیا:

پڑا ہوں میکدے کے در پر اس انداز سے حیدر

کوئی سمجھا کہ بے خود ہے، کوئی سمجھا کہ سائل ہے