’پرانی نمائش‘ مانوس گلیاں، نامانوس مناظر

June 27, 2019

میرا وہاں جانے کا ارادہ نہیں تھا، ایسی جگہوں پر کوئی جان بوجھ کر جاتا ہے؟میں کہیں اور جا رہا تھا کسی اور جگہ سے نکلا تھا کہ اپنے آپ کو وہاں سے گزرتے ہوئے پایا۔ ہاں۔ایک جگہ سے کسی اور جگہ پہنچنے کے لیے ایسا ہی کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ اس شہر کی آبادی کہیں سے کہیں پہنچ گئی، رقبہ پھیل گیا لیکن پھر بھی کراچی میں کہیں جانے کے لیے نکلو ایک جگہ کو دوسری جگہ سے ملانے والے راستے وہی چند ایک ہیں۔ اتنے عرصےمیں متبادل راستے نہیں بن پائے۔ اس لیے آپ جانا نہ چاہیں تب بھی آپ کو پرانی نمائش سے ضرور گزرنا پڑتا ہے، جیسے میرے ساتھ اس وقت ہوا۔

بہت دیکھے بھالے راستے کی یکسانیت کی وجہ سے میں دیکھتے ہوئے بھی نہیں دیکھ رہا تھا کہ اچانک چونکا، ارے یہ تو پرانی نمائش ہے، میں یہاں کہاں آ گیا۔ لیکن اب آگیا تو وہاں سے گزرنا پڑا اور اس نمائش سے آنکھیں بند کرکےنہیں گزرا جا سکتا۔

دیکھتی آنکھوں کو پرانی نمائش بہت اجنبی، نامانوس، ضرورت سے زیادہ بے تُکی اور گنجان معلوم ہوئی، اتنی بُری لگی کہ مجھے تکلیف سی ہونے لگی۔ اس کا یہ حال بنا دیا گیا ہے، کیوں اور کیسے؟لیکن اب ایسا بھی نہیں کہ مَیں نے جب دیکھا تو کوئی بہت اچھے حال میں دیکھا تھا۔ تقریباً ہر روز ہی وہاں سے گزرنا پڑتا تھا۔ وہ میرے لیے بچپن کے وقت سے کراچی کی ایک جانی پہچانی نشانی تھی۔ وہاں کون سی نمائش لگی تھی؟ یہ معلوم کرنے کی میں نے کوشش بھی نہیں کی، ایک علاقے اور دوسرے علاقے کے درمیان۔ گرومندر کی طرف سے آئو یا خداداد کالونی والے راستے سے،اس کی تب شکل ہی کچھ اور تھی۔قائد اعظم کے مقبرے کے بعد یہ جگہ ایک طرح کی نشانی تھی ۔ ایمپریس مارکیٹ سے آگے جاکر میرے اسکول کی ڈیڑھ سو سالہ عمارت ہے۔ اگر مُڑے نہیں اور سیدھے چلے جائیں تو بندر روڈ پر پہنچ جائیں گے، جس کے نزدیک میرا کالج ہوا کرتا تھا۔ پرکار کے مرکز کی طرح اس پرانی نمائش سے راستے چاروں طرف کو جاتے ہیں۔

اسی کے حوالے سے میں نے کراچی کے ان پرانے راستوں پر چلنا اور گھومنا شروع کیا۔ چوراہے کے ایک طرف سماعت اور گویائی سے محروم بچّوں کا اسکول تھا۔ یہ راستہ لائنز ایریا کے اندر نکل جاتا تھا اور مجھے یاد ہے، ایک زمانے میں پکوان اور مٹھائی کی دکانوں سے پٹا پڑا تھا۔ وہ مٹھائیاں جو باقی شہر میں ڈھونڈے سے ملتی تھیں، یہاں تھال کے تھال سجے نظر آتے۔ اندرسے کی گولیاں، لُقمیاں، گُجیاں، پیٹھا، میسوپاک، میٹھی ٹکیاں، قلاقندپرانے موسموں کی برف کی طرح جانے یہ سب کہاں گئے۔ جیکب لائنز میں کھپریل والے مکانوں کے درمیان وہ مشہور مسجد تھی اور لڑکیوں کا اسکول ،جہاں سے میری والدہ نے پڑھا تھا۔دوسری طرف بریٹو روڈ ،جہاں سے گارڈن کو راستہ جاتا تھا۔ آغا خان کا جماعت خانہ نمایاں نظر آتا تھا اور اس سے پہلے سولجر بازار، سُنا ہے وہاں پرانا مندر اب بھی \موجود ہے لیکن عمارتوں کے درمیان کہیںکھو گیا ہے۔ اس سے ذرا آگے خاموش، صاف ستھری گلیوں میں سینٹ لارنس چرچ اور میرے عزیز دوست میلون کا گھر ہوا کرتا تھا، جس کو مسمار کرکے اس جگہ کو فلیٹ بنادیئے گئے ہیں۔ سولجر بازار میں وہ ہیومیوپیتھک ڈاکٹر کا مطب تھا ،جن کی میٹھی میٹھی گولیوں میں بچپن کے نہ جانے کون کون سے آزار رفع ہوئے۔ اس کے قریب ہولی فیملی اسپتال اور پارسی کالونی کے ہوا دار، کُھلے کُھلے بنگلے جو اب بھوتوں کی بستی میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ اکا دکا مکانوں میں کوئی بوڑھا بیٹھا ہوا ہے۔ بندر روڈ سے آمدورفت روکنے کے لیے کسی جلوس کی حفاظت کےلیے جو کنٹینر لگائے گئے تھے، ان کو پھر اٹھایا نہیں گیا۔ میں نے کئی دفعہ ان خوب صورت مکانوں کے درمیان گھومنے کی کوشش کی لیکن کیا کروں، راستہ نہیں ملا۔

پرانی نمائش کے ان ہی مکانوں میں شمیمہ خالہ کا گھر بھی تھا۔ پرانی وضع کی عمارت، ان بھورے مٹیالے پتھروں سے بنی ہوئی جو تقسیم سے پہلے کراچی میں عام تھا اور جس کی مضبوطی کی وجہ سے یہ عمارتیں اب تک باقی رہ گئیں۔ اونچی چھت اور موٹی موٹی دیواروں والا گھر آج بھی میرے حافظے میں قائم ہے۔ میرا بہت جی چاہتا ہے کہ اس مکان کی خیریت پوچھوں لیکن اس گلی کے کونے پر ایک بینک کا جگ مگ کرتا اشتہار اور گاڑیوں کا شوروم راستہ روک لیتا ہے۔

آج اتنے دنوں بعد وہاں سے گزرا تو وہ گلی اور اس کے مکان مجھے پہچاننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ایک سوکھا پیڑ کھڑا تھا، جس کی خشک ٹہنیوں پر کسی نے کپڑے کا \بینر باندھ دیا تھالیکن ایک یہی درخت کیوں؟ ہر طرف جیسے اشتہار، بینرز، بل بورڈز جیسے زمین کے چپّے چپّے سے پھوٹے پڑ رہے تھے ۔جیسے ایک شور ہے ،جس میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی اور ہر ایک آپ کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے، توجّہ میں حصّہ ہٹانا چاہتا ہے۔ان سب کو چھوڑ کر میں اس طرف دیکھ رہا ہوں جہاں فٹ پاتھ ہونا چاہیے تھی۔ وہاں ریت کی بوریاں ڈھیر کرکے مورچہ سا بنا دیا گیا ہے۔ واقعی یہ شہر کے بیچوں بیچ ہے اوران بوریوں کی قطار کے پیچھے ایک طویل بورڈ دسترخوان امام حسنؓ ۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ کیا اس دسترخوان ہے

اس کے قریب ہی دھات کی چادروں کا ایک کائونٹر بنا ہوا ہے جس کے اوپر اونٹ کی تصویر نمایاں ہے۔ غذائیت سے بھرپور، صحت بخش اور خالص اس کے نیچے جلی حروف میں پینٹ کر دیا گیا ہے’ اونٹنی کا دودھ‘۔

وہاں جو لوگ کھڑے ہوئے ہیں، میں ان سے بہت کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔ لیکن ٹریفک کا ریلا ہے اور میرے عین کانوں کے قریب ایک رکشے والا اپنا بھونپو بجائے جارہا ہے۔

سڑک کے دوسری جانب میری نظر پڑی ہے تو لوہے کا پنجرہ فٹ پاتھ پر نصب ہے۔ اس میں تین چار بکرے بیٹھے ہوئے ہیں۔ صورت سے مریض نظر آرہے ہیں۔ صدقے کے بکرے، اوپر بینر لگا ہوا ہے۔ ایک فلاحی ادارے کا نام اور ٹیلی فون نمبر ہے۔دنیا اور آخرت دونوں کی نیکیاں کراچی میں بھلا اور کس جگہ مل سکتی ہیں، میں فحر سے اپنا سینہ پُھلانے کی تیاری کرنے لگتا ہوں۔ خصوصی بچّوں کے اسکول پر نظر پڑتی ہے، وہ بھی ایک بڑی سی مسجد کی گلابی دیواروں کے سائے تلے سہم سا گیا ہے۔

پتہ نہیں کیوں، مجھے ایسا لگا یہ سارا علاقہ یرغمال بن گیا ہے۔ پاکستان کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے، وہ اس سڑک پر نظر آرہا ہے۔ لائنیں کھینچ رہی ہیں، انقطاع واضح \۔ ریت کی بوریاں بھی رکھ دی گئی ہیں۔اس سے زیادہ میں سوچ نہیں سکتا کہ گاڑیوں کی ایک پوری قطار مخالف سمت سے چلی آرہی ہے۔ صحیح اور غلط، ٹریفک ہر طرف سے چل رہا ہے۔

اس کے بالکل نیچے بلقیس ایدھی کی طرف سے لنگر کے لیے اتنی جگہ نشان زد کر لی گئی ہے۔ بڑی بڑی تصویروں کے ساتھ چھیپا ایمبولینس سروس۔ سیلانی کی مختلف سماجی خدمات کا اعلان۔ سڑک کے اتنے حصّے میں ان تمام سماجی خدمات کی یاد دہانی جن کے بغیر کراچی شہر، یتیم اور بے آسرا بن کر رہ جاتا ہے۔