تاریخی ورثہ گورا قبرستان

June 27, 2019

یہاں پہلی قبر لیفٹننٹ کرنل جونیپئیر بیرکس کی جواں سالہ بیٹی کی تھی

کراچی میں سرکاری ریکارڈ کے مطابق 182قبرستان ہیں،جن میں سے 163مسلمانوں کے اور 19 غیر مسلموں کے ہیں، ان میں سے 70شہری حکومت کی نگرانی میں کام کررہے ہیں، جب کہ 112کا انتظام مذہبی و رفاہی تنظیموں کےبورڈز اور ٹرسٹ کے پاس ہے ۔ ان ہی میں شاہراہ فیصل پر واقع ’’گورا قبرستان‘‘ بھی شامل ہے، جو مسیحی برادری کا قدیم قبرستان ہے۔لگ بھگ پچیس ایکڑ پر پھیلے اس تاریخی قبرستان کی بنیاد 1850ء سے پہلے انگریزوں کے دور میں رکھی گئی، جس وجہ سے اسے گورا قبرستان کہا جاتا ہے۔ابتدا میں قبرستان کا رقبہ دس مربع ایکڑ پر محیط تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی وسعت میں بھی اضافہ ہوتا گیا ۔ سرکاری دستاویزات میں اس کا’’ مسیحی قبرستان‘‘ کے نام سے اندراج ہے، لیکن پاک و ہند میں یورپ کے لوگوں کو ان کی گوری رنگت کی وجہ سے ’’گورا‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے اس لیے مذکورہ قبرستان بھی اسی کی مناسبت سے مشہور ہوگیا ، تاہم اس قبرستان میں پہلی تدفین کب ہوئی اس سے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن قبرستان میں سب سے پرانی قبر 1885 کی موجود ہے۔ جنگ آزادی سے قبل جب برطانیہ نے کراچی میں اپنا تسلط قائم کیا تو اپنے فوجی افسران اور جوانوں کی رہائش کے لیے بیرکس اور لائنز بنادیں جو جیکب لائن، ٹیونیشیا لائن، بزرٹا لائن، اے بی سینیا لائن ، نیپیئر بیرکس کے نام سے مشہور ہوئیں۔ 1843ء میں جب ایچ ایم 28رجمنٹ کے ایک لیفٹننٹ کرنل جونیپیئر بیرکس کے علاقے میں رہائش پذیرتھے، ان کی جواں سال بیٹی نے وفات پائی تو اسے بزرٹا لائن اور عائشہ باوانی اسکول سے متصل ایک میدان کے اندردفنایا گیا، بعد میں اس کے ساتھ مزید قبریں بنتی گئیں، یوں ڈرگ روڈ یا شاہراہ فیصل پر ایک قبرستان وجود میں آگیا۔تاریخی حوالوں میں اس قبرستان کے قیام کی تاریخ 1845ء درج ہے۔اس کا قدیم حصہ شاہراہ فیصل پر بنے ہوئے مرکزی گیٹ سے داخل ہونے کے بعد دائیں ہاتھ پر واقع ہے، جہاں چٹانی پتھروں سے چوکنڈی طرز کی تقریباً پونے دو سو سال پرانی قبریں بنی ہوئی ہیں۔ ایک قبر پر پتھر کی ایک سلیب پر انگریزی حروف میں کندہ ہے، ’’ ماریا کاٹن کی یاد میں ، جو لیفٹننٹ کرنل کاٹن کی پیاری بیٹی تھی ۔قبرستان میں1887 اور 1891 کی قبریں بھی زبوں حالت میں موجود ہیں، جن پر اس زمانے کے قیمتی پتھر پر سال اور تاریخیں درج ہیں۔

جس زمانے میں یہ قبرستان قائم کیا گیا، اس وقت نیپیئر بیرکس سے ڈرگ روڈ چھاؤنی کے علاقے تک کوئی عمارت نہیں تھی، یہ بالکل سنسان علاقہ تھا۔ قبریں بننے کے بعد اس کے گرد ایک چھوٹی سی چہار دیواری بنائی گئی اور پانی کی فراہمی کے لیے جیکب لائنز کے ذخیرئہ آب تک نصف میل طویل پانی کی لائن ڈالی گئی۔ یہاں کے ماحول کو سر سبز بنانے کے لیے درخت، بیل بوٹے اور خوش رنگ پھول لگائے گئے، صفائی ستھرائی کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے۔ قبرستان میں سنگ مرمر سے ایک یادگارتعمیر کرائی گئی ہے،جس میں مذکورہ شہریوں کی اموات کا تفصیل سے تذکرہ ہے ، شمالی گیٹ کی طرف سے اندر داخل ہوتے ہی تھوڑی دور دائیں جانب یہ تاریخی یادگار واقع ہے۔

اس قبرستان میں پولینڈ اور برطانیہ کے فوجیوں کی بھی قبریں ہیں۔ پہلے گیٹ میں داخل ہوتے ہی پتھر پر بنا ایک بہت بڑا نقشہ ہوا کرتا تھا، مگر جیسے جیسے وقت نے کروٹیں بدلیں اس کے نقشے بدلتے چلے گئے۔ گورا قبرستان کی انفرادیت یہ ہے کہ اسے سب سے پہلے یورپی باشندوں کی میتوں سے آباد کیا گیا تھا، اس میں برطانوی فوجیوں اور سویلین کے ساتھ ساتھ پولینڈ کے باشندے بھی مدفون ہیں ،جب کہ ایک حصے میں جسے ایک چہار دیواری بناکر الگ کردیا گیا ہے۔جنگ عظیم دوم کے دوران جب جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا تو سنہ 1942ء سے 1945ء کی درمیانی مدت میں پولینڈ کے تقریباً 30 ہزار شہریوں نے کراچی میں پناہ لی تھی۔ انہیں کنٹری کلب اور ملیر میں بنائے گئے عارضی کیمپوں میں رکھا گیا تھا۔ پناہ گزینی کے دوران 58پولینڈشہری انتقال کر گئے جو اسی قبرستان میں مدفن ہیں یہ نوآبادیاتی دور کی قبریں ہیں۔2005 میں پولینڈ کے قونصل خانے، نے اپنے 58 افراد کی آخری یادگار کو باقاعدہ سنگ مرمر کی مدد سے تعمیر کرایا اور اس پر واقعے سے متعلق تفصیلات کندہ کرائی۔

ذرائع کے مطابق1930 قبریں ہیں ،جن میں 3 لاکھ کے قریب لوگ دفن ہیں۔ یہ بات یقیناً چونکا دینے والی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ گورا قبرستان کی ایک قبر میں3 سے 4 آدمی دفن ہیں، جگہ کی کمی اور مجبوری کے باعث گورکنوں نے بڑی مہارت سے ایک قبر میں ایک سے زائد لوگ دفنا ئے ہیں۔2005 میں گورا قبرستان کی دیکھ بھال کےلئے 14 ملازم رکھے گئے ہیں، جن کو قبرستان انتظامیہ تنخواہ ادا کرتی ہے، قبرستان میں کل وقتی 5 گورکنوں اور 5 چوکیداروں سمیت 3 خاکروب اور ایک سپروائزر مقرر کیا گیا ہے۔ قبرستان کے ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے 4 ممبران ہوتے ہیں، جن میں سے 2 پروٹیسٹنٹ اور 2 رومن کیتھولک فرقے کے ممبران ہیں جبکہ سیکریٹری ایڈمنسٹریشن کو چرچ آف پاکستان مقرر کرتا ہے، جس کی مدت 5 برس ہوتی ہے،اس مدت کے بعدانتخابات کے تحت ایڈمنسٹریشن کے سیکریٹری کو منتخب کیا جاتا ہے، جو قبرستان کی دیکھ بھال کے لیے چرچ آف پاکستان کے نمائندے کا کام کرتا ہے ۔

قبرستان میں عیسائیوں کے دونوں فرقوں کے لوگ دفن ہیں۔ یہاں عیسائیت میں فرقوں کی کوئی تکرار نہیں ہے ،جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ قبرستان میں پروٹیسٹنٹ اور رومن کیتھولک فرقے کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ دفن ہیں ،جبکہ ایڈمنسٹریشن کمیٹی کے ممبران بھی دونوں فرقوں سے لئے جاتے ہیں۔

قبرستان میں برطانوی راج میں کراچی کے کلیکٹر سر ہینری اسٹیولی لارینس کی بیوی ” فلس لوئس لارینس “ کی قبر بھی موجود ہے۔فلس لوئس کی قبر پر 30 جولائی1912ء کی تاریخ درج ہے، جبکہ قبر مغل دور کی طرز تعمیرپر بنائی گئی ۔ ان کے شوہر ہینری اسٹیولی سے انہیں بہت محبت تھی، جس وجہ سے انہوں نے بیوی کی یاد میں قبرستان کے کونے میں الگ کوٹھی بنوائی، جو اس وقت رہائشی آبادی کے گھیرے میں آچکی ہے،کوٹھی کے دائیں، بائیں اور سامنے والی طرف سے مسلم آبادی کے گھر بن چکے ہیں۔

تاریخی لحاظ سے قبرستان کی عمرتقریباََ 170 سال ہوگئی ہے، لیکن عجب اتفاق ہے کہ اسے آثار قدیمہ نے ابھی تک تاریخی ورثہ قرار نہیں دیا ہے تو اس کا تذکرہ زیادہ واضح نہیں نہ ہی مناسب انداز میں قدیم قبروں کی دیکھ بھال ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قبریں انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، جبکہ بہت ساری قبروں کے تو آثار بھی مادوم ہوگئے ہیں۔بارش کے دنوں میں یہاں پانی کئی کئی فٹ کھڑا ہو جاتا ہے اور اسی پانی کے سبب قبروں کو زیادہ نقصان پہنچا ہے۔یہاںایشیا کی بلند ترین صلیب تعمیر کی جارہی ہے جو 140فٹ اونچی اوراس کی بنیاد 20 فٹ گہری کھودی گئی ہے۔

آبادی کے بڑھنے کے ساتھ بیشتر خاندان نے قبرستان سےملحقہ علاقوں میںرہائش پذیر ہوگئے۔ قبرستان کی جنوبی دیوار کے ساتھ واقع بزرٹا لائن میں رہنے والوں نے اے بی سینیا لائن اور کورنگی روڈ کی طرف جانے کے لیے قبرستان میں سے گزرگاہ بنالی۔ دیواریں مسمار کردی گئیں، لہلہاتے درخت کاٹ دیئے گئے، سبزہ اور پیڑ پودے ختم کردیئے گئے ہیں۔ قبرستان کے پیچھے بڑھتی ہوئی رہائشی آبادی نے قبرستان کے ایک حصے کو کوڑا کرکٹ پھینکنے والی جگہ کے طور پر استعمال کر رکھا ہے۔ قبرستان انتظامیہ کی جانب سے بار بار کہنے کے باوجود رہائشی آبادی نے کچرہ پھینکنے کے سلسلے کو ختم نہیں کیا ۔پہلےاس قبرستاں کا انتظام کا دیکھ کر رشک آتا تھا۔ یہ بہت صاف ستھرا قبرستان ہوتا تھا۔

قبرستان کی حال ہی میں بننے والی قبروں کی تعمیر میں امیر اورغریب کی تفریق نمایاں نظر آتی ہے۔یہاں تین مختلف طرز کی قبریں بنی ہوئی ہیں، کالے پتھروں، سفید سنگ مرمر کے علاوہ کچی قبریں بھی ہیں۔

گورا قبرستان کے ساتھ ’’فوجی قبرستان‘‘ ہے ، اس کا راستہ کورنگی روڈ پر سی ایس ڈی کے سامنے ہے۔ اس میں پاکستان کی کئی اہم شخصیات آرام فرما رہی ہیں ۔ داخلی دروازے سے بائیں طرف ایک چھوٹا سا مقبرہ ہے، جس میں پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل ملک غلام محمدکی قبر ہے ۔ اس سے آگے راشد منہاس شہید محو خواب ہیں، ان کے نزدیک معروف شاعر اور دانش ور جمیل الدین عالی اپنی اہلیہ اور والدہ کے درمیان آرام فرماہیں۔ مذکورہ قبرستان میں 2420قبریں بنی ہوئی ہیں جو انتہائی عالی شان طرز پر بنائی گئی ہیں۔

یہ تو کراچی کاوہ گورا قبرستان ہے جو شاہراہ فیصل پر واقع ہے لیکن گوروں کا ایک قبرستان 1740 ء میں بندرروڈ پر ریڈیو پاکستان کے سامنے بھی بنایا گیا تھاجو قصہ پارینہ ہوگیا ہے اور اس کی جگہ ایک رہائشی پلازہ بنادیا گیا ہے۔ اس میں سب سے پہلےگرینڈئیر رجمنٹ کے کیپٹن ہینڈرز کو دفن کیا گیا جوکراچی میں تعیناتی کے بعد علاقے کی سیر کے لیے نکلا تھا کہ منگھوپیر کے علاقے میں اسے قتل کردیا گیا تھا۔ مذکورہ قبرستان دس ایکڑ کے رقبے پر قائم گیا تھا اور اس کی حدود ایم اے جناح روڈ سے چونا بھٹی کے پاس واقع پارک تک پھیلی ہوئی تھیں ، اس میں تقریباً دو ہزار کے قریب قبریں تھیں جو سب گوروں کی تھیں۔ پاکستان کے قیام کے بعددیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے مذکورہ قبرستان کا وجود ختم ہوتا گیا اور یہاں صرف چند قبریں ہی باقی بچیں۔ قریبی علاقوں میں رہنے والے بچے اسے کھیل کامیدان سمجھ کر کھیلا کرتے تھے۔ لیکن 1978 ء میں اس میدان اور قبرستان کی جگہ ایک کاروباری شخصیت کو الاٹ کردی گئی جس نے اس جگہ ایک تجارتی و رہائشی عمارت تعمیر کرلی۔ آج کراچی کا’’ پہلا گورا قبرستان ‘‘تاریخ کے گمشدہ اوراق کا حصہ بن چکا ہے۔