حسد کی آگ میں نہ جلیں

July 03, 2019

نفرت کے بیج بونے سے بہتر ہے، آپس میں محبت بانٹیں

ہمارے معاشرے میں عورت کا تصور ایک کمزور وجود کے طور پر کیا جاتا ہے لیکن جب یہی عورت کسی سے حسد اورنفرت کرتی ہے تواس سے زیادہ طاقت وار کوئی دوسرا نظر نہیں آتا ۔موجودہ دور میں ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے ،چاروں طرف سے خبر کے نام پر برائی کو منظر عام پر لایا جا رہا ہے ۔جہاں معاشرہ انتشار کا شکار ہے وہاں مثبت پہلوئوں پر گفتگو کی اشد ضرورت ہے ،مگر حالات اس کے بر عکس نظر آتے ہیں ۔آج کل ٹی وی چینلز کے بیش تر ڈراموں میں خواتین موضوع بحث نظر آتی ہیں ۔اکثر ڈراموںمیں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ خواتین حسد اور جلن میں دوسروں کے گھر اُجاڑ رہی ہیں ۔مزے کی بات یہ ہے کہ ایسے ڈرامو ں کو پسند کیا جارہا ہے ۔ جب کہ اس وقت ہمیں حسد کرداروں کے بجائے ایسے پروگرامز اور کرداروں کی ضرورت ہےجو معاشرے کی اصلاح کرسکیں ۔

ہمارے ہاں مردوںکی نسبت خواتین کی تعداد زیادہ ہے اگر وہ ملکی اور معاشرتی اصلاح میں اپنا کردار ادا کریں تو کتنا اچھا ہو۔ عورت جو معاشرتی اکائی ہے، گھر کی دیکھ بھال اور بچوں کی تربیت کی ذمے داری انجام دے رہی ہے، وہ اپنی اولاد کو انسانیت اور محبت کا درس دے ۔ لیکن اس کے برعکس ہماری خواتین گھریلو جھگڑوں، ساس نندوں کی لڑائیوں سے ہی باہر نکل ہی نہیںپاتیںاور اگر کوئی خاتون نوکری پیشہ ہو تو دوسری خواتین اسے جینے نہیں دیتیں۔اُس سے حسد کرنے لگتی ہیں۔ دراصل کسی سے نفرت کرنا اور حسد کی آگ میںجلنا خود آپ کی اپنی ذات کے لیے نقصان دہ ہے۔

انسان خود اپنی ذات کو تلاش کریں، اپنی صلاحیتوں قابلیتوں کے بل پر آگے بڑھیں دوسروں کی جن باتوںسے آپ حسد کرتی ہیں اگر آپ غور کریںتو وہ اس کی مثبت باتیںہیںجو آپ میں نہیں ، ایسے میں اسے اور خود کو نقصان پہنچانے کے بجائے اپنی اصلاح کریں۔

آپ کی ذات میںجو کمی ہے اسے دور کریں۔ اگر کسی خاتون کا اخلاق اچھا ہے اور لوگ اس کی اسی خوبی کی وجہ سے اس سے محبت کرتے ہیں تو آپ بھی اپنے اخلاق میںبہتری لاسکتی ہیں۔ مثبت کی طرف سفر کا آغاز آپ کے اپنے عمل پر منحصر ہے۔ انسان جب چاہیے اور جہاںسے چاہیے منفی سوچ کو رد کرکے مثبت سفر کا آغاز کرسکتا ہے۔ خواتین کو چاہیے کہ خود میںمثبت اوصاف کا جائزہ لیں، ایسی باتوںکی طرف توجہ دیں جن سے دوسرے آپ کے قریب رہنا پسند کرتے ہوں، تاکہ خود بہتر سمت کا تعین کرسکیں۔

مائوں کو چاہیے کہ بیٹیوں کی اس حوالے سے خصوصی تربیت پر توجہ دیں، کیوں کہ اس مادیت پرستی کے دور میںہماری بچیاں خودسے برتر کلاس کو دیکھ کراُن سے حسد کرتی ہیں اور کبھی خود کو مجبور محسوس کرتی ہیں لہٰذا مائوںکو چاہیے کہ اس حوالے سے اپنی بیٹیوں کے اوصاف کو سمجھیں۔ ان کیحوصلہ افزائی کریں،کیوںکہ آج کی بیٹی کل کی ماںہے۔ اگر اس ماںکا معاشرتی شعور پختہ ہوگا تو یہ اصلاح نسواں اور ترقی نسواںمیںکردار ادا کرسکے گی۔ اگر آج خواتین اپنی بیٹیوں میں ان اوصاف کو اُجاگر کرتی ہیں تو یقیناً اگلی نسل حسد کے جنگل میںنہیںبھٹکے گی۔

خواتین کو چاہیے کہ اپنی آئندہ نسل کو محبت و انسانیت کا درس دیں اپنی اولاد کی بہتر تربیت سے ثابت کریںکہ منفی رجحان ان کی اپنی ذات کے لیے نقصان دہ ہے اور اصل فائدہ مثبت سوچ ،مثبت رویّوںمیںہے جو دشوار ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں۔ ہر دور میںخیر و شر کی قوتیں متصادم رہی ہیں اور رہیںگی ،مگر اب وقت ہے کہ عورت اپنا کردار ادا کرے اور معاشرتی بہتری کے لیے جدو جہد کریںکہ بہتر معاشرے کی تعمیر وہی کرسکتی ہے کوئی دوسرا نہیں۔