ورلڈ کپ سیمی فائنل جنگ کا آج سے آغاز

July 09, 2019

12ویں ورلڈ کپ 2019 کے سیمی فائنل مرحلے کا وقت آن پہنچا،4 ٹیمیں،3 میچ ،2 فتوحات اور ایک چیمپئن ،یہ اگلی مہم کا خلاصہ ہے کہ فائنل سمیت 3میچزباقی ہیں ،4 ٹیمیں ایکشن میں ہیں،اور ورلڈ چیمپئن کی اکلوتی ٹرافی ، 2 فتوحات ،2 قدم کی دوری پر ہے، مانچسٹر کے اولڈ ٹریفورڈ گراؤنڈ میں پہلا سیمی فائنل بھارت اور نیوزی لینڈ کے درمیان منگل 9 جولائی کو کھیلا جارہا ہے،11 جولائی جمعرات کو دوسر ا سیمی فائنل دفاعی چیمپئن آسٹریلیا اور میزبان انگلینڈ کے مابین برمنگھم میں ہوگا اور ایونٹ کا فائنل اتوار 14 جولائی کولارڈز میں ہوگا،جنوبی افریقا کی آسٹریلیا کے خلاف آخری رائونڈ میچ کی فتح نے ٹاپ ون کی پوزیشن بدل دی، بھارت کو پہلی پوزیشن ملی اور آسٹریلیا کو دوسرے نمبر پر آنا پڑا جس کے بعد سیمی فائنل میں بھارت کا آسان حریف نیوزی لینڈ سے مقابلہ پڑ گیا ،ویسے تاریخی بات ہو جائے کہ ورلڈ کپ کی 44 سالہ تاریخ میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے ریکارڈ 8ویں بار سیمی فائنل میں پیش قدمی کی ہے،بھارتی ٹیم کی سیمی فائنل میں 7ویں انٹری ہے،سیمی فائنل میں اسے کبھی بھارت کے خلاف مقابلے کا موقع نہیں ملا ،حریف بھارت اس سے کہیں زیادہ مضبوط اور اعتماد میں ہے مسلسل فتوحات اسکے کریڈٹ پر ہیں ،روہت شرما سمیت ٹاپ آرڈر فارم میں ہے،کیوی ٹیم کے پاس اچھےبولر موجود ہیں،فیلڈنگ میں بھی یہ ٹیم بہترین ہے،اگر شرما کا کسی نے کیچ نہ چھوڑا اور کوہلی کو جلد قابو کرلیا گیا تو شاید تاریخ رقم ہوجائے،کیویز ٹیم ایونٹ میں آخری مسلسل 3 ناکامیوں سے دبائو میں ہے،نیوزی لینڈ کو رائونڈ میں بھارت سے مقابلے کا موقع نہیں ملا،بارش کی وجہ سے میچ نہیں ہوسکا تھا،دوسری جانب انگلش کرکٹ ٹیم جو اس مرتبہ یہ ایونٹ جیتنے کی مضبوط امیدوا ر ہے،آخری 2 اہم میچز سے جیت رہی ہے،رائونڈ میچ میں آسٹریلیا سے شکست کے باوجود چٹان جیسے یقین اور جیتنے کے عزم کے ساتھ میدان میں اترے گی لیکن اسکے راستے میں ورلڈ کپ کی ایک تاریخی روایت آڑے آرہی ہے اور وہ یہ کہ آسٹریلیا کا بھی کیویز کی طرح یہ 8واں سیمی فائنل ہے،ورلڈ کپ تاریخ میں کینگروز کبھی بھی سیمی فائنل نہیں ہارے،وہ جب بھی سیمی فائنل میں پہنچے ہیں

انہوں نے فائنل ضرور کھیلا ہے ، آسٹریلیا کی جنوبی افریقا سے آخری رائونڈ میچ میں شکست اور فٹنس مسائل انگلش ٹیم کے لیے منزلیں مزید آسان کر رہی ہے۔ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ میں پاکستان کا سفر تمام ہوا،ٹیم نے بنگلہ دیش سے میچ تو جیت لیا مگر نیٹ رن ریٹ کا جو چیلنج درپیش تھا ،وہ دریا عبور نہیں ہوسکا،9 میچز میں 5فتوحات،3 شکستیں اور ایک میچ بارش کی نذر،یہی نتائج کیویز کے بھی ہیں مگر انکا نیٹ رن ریٹ بہت ہی بہتر رہا،پاکستان نے بھارت کے خلاف میچ کے لئے جو سلیکشن کی اور جیسی فیلڈنگ و بیٹنگ کی وہ بھی بھلانے والی نہیں ہے،ورلڈ کپ سے قبل پاکستانی ٹیم کو انگلینڈ میں 40 دن ملے،میزبان ٹیم سے سیریز ملی،جو مواقع اور ماحول پاکستان کو ملا کسی کے پاس نہیں تھا،ویسٹ انڈیز ٹیم کی کارکردگی گزشتہ 4 سال میں افغانستان اور سری لنکا سے بھی بدترین تھی،اسے کوالیفائر کھیلنا پڑا،وہ آپ سے جیتے یا افغانستان سے،بنگلہ دیش نے ان کو جیتنے نہیں دیا، کوئی ٹیم 22 اوورز میں 105پر ہتھیار پھینک کر نہیں گئی اور کسی ٹیم نے اس طرح 13 اوورز میں ہدف نہیں بنوایا،یہ بڑی منفی کارکردگی تھی جس کا ازالہ آسٹریلیا ، جنوبی افریقا ،نیوزی لینڈ اورافغانستان کے خلاف نہیں کیا گیا،پروٹیز کے خلاف ہاف درجن کیچ چھوڑ کر نیٹ رن ریٹ بہتر کرنے کا موقع گنوایا گیا،نیوزی لینڈ کے خلاف بابر اعظم اور ٹیم میں جگہ بنانے کی جنگ لڑتے حارث سہیل نے سلو بیٹنگ کی ،رن ریٹ بہتر نہیں کیا اور افغانستان کے خلاف امام اور دیگر 2کھلاڑیوں کا غیر ذمہ داری سے آئوٹ ہونا کیا غلطی نہیں ہے؟محمد حفیظ کا ایک ہی انداز میں 4 بار کیچ دینا حیرت انگیز تھا کیا یہ غلطیاں نہیں ،کیا ان پر معذرت نہیں بنتی۔

پاکستانی کپتان کہتے ہیں کہ وہ ٹیم کی کارکردگی سے مطمئن ہیں،ویری گڈ ، اگلے ورلڈ کپ 2023 کےلئے قوم تیار رہے کہ بھارتی میدانوں میں ٹیم اسی طر ح اطمینان بخش پوزیشن تک ہی رہےگی،ایک فاتح کپتان،ایک سپہ سالار،ایک جیت کی بھوک رکھنے والا قائد کسی ایک فتح پر بھی مطمئن نہیں ہوتا بلکہ اسکے پلان میں اگلے ہدف ہوتے ہیں،یہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا کام ہے کہ وہ دیکھے کہ کیا کچھ قابل اطمینان چل رہا ہے ، وزیر اعظم عمران خان بھی دیکھیں کہ کیا واقعی سب ٹھیک ہورہا ہے اور ورلڈ کپ میں سب قابل اطمینان تھا۔