آپ کا صفحہ.... طوفان آکے گزر گیا.....

July 14, 2019

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کچھ نہ کچھ حاصل

ایڈیٹر صاحبہ! میں آپ کی کوششوں، کاوشوں کو دل سے سراہتی ہوں۔ ’’سنڈے میگزین‘‘ اپنی پوری آب و تاب سے چَھپ رہا ہے، واللہ بہت اچھا لگتا ہے۔ انبیائے کرام کی حیات اور حالاتِ زندگی کے بیان کا سلسلہ بہت اچھا ہے۔ باقی مضامین بھی لاجواب ہوتے ہیں۔ ڈائجسٹ، ناقابل ِ فراموش میرے مَن پسند سلسلے ہیں۔ ویسے تو پورا جریدہ ہی پڑھنے لائق ہوتا ہےکہ بہ خدا کبھی بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ پڑھ کے وقت ضایع کیا ہے۔ ہر تحریرہی سے کچھ نہ کچھ ضرور حاصل ہوتا ہے۔ (عذرا جمیل، میڈیا ٹاؤن، اسلام آباد)

ج: جی عذرا… ہماری بھی بھرپور کوشش تو یہی ہوتی ہے کہ ہمارے قارئین کو اپنےپسندیدہ میگزین سے کوئی ناامیدی، مایوسی نہ ہو، اِس کے ساتھ گزارا وقت قیمتی ہی لگے، نہ کہ زیاں کا احساس ہو۔

طوفان آکے گزر گیا

آداب میڈم!! میں آپ کی خیریت نیک چاہتا ہوں۔ ایک عرصے بعد دوبارہ حاضرِ خدمت ہوں۔ آپ کے سنڈے میگزین کے تمام ہی سلسلے بہت اچھے ہیں، خاص طور پر ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ’’قصص الانبیاء‘‘ بہت دل چسپی سے پڑھ رہا ہوں۔ اور میڈم! آپ کے جوابات بھی دل کی گہرائیوں سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے، آپ بہت باوقار شخصیت کی مالک ہیں۔ میڈم! اتنے ماہ جو میں سنڈے میگزین سے دُور رہا، تو اُس کی ایک وجہ میری زندگی میں آنے والا وہ طوفان ہے، جو اپنے ساتھ میری والدہ اور چھوٹے بھائی کو بہالے گیا۔ ماہِ جنوری میں پہلے میری والدہ اور پھر چھوٹا بھائی رضائے الٰہی سے انتقال کرگئے۔ آپ اور قارئین کرام سے اُن کے لیے دعائے مغفرت کی درخواست ہے۔ (حسن شیرازی، کراچی)

ج: انا للہ وانا علیہ راجعون۔ حسن!! اللہ پاک آپ کو صبرِِجمیل عطا فرمائے۔ گرچہ دنیا کی کسی لُغت میں اتنے بڑے نقصان / المیے پر اظہارِ افسوس کے الفاظ نہیں ملتے۔ مگر علاوہ صبر کے، کچھ کیا بھی تو نہیں جا سکتا۔ گزرتے وقت کے سوا، آپ کے دُکھ کا کوئی مداوا، مرہم نہیں۔ اللہ کریم آپ کی والدہ، بھائی کو غریقِ رحمت کرے، جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔

اندازِ تحریر نے متاثر کیا

سنڈے میگزین پڑھا، بہت اچھا لگا۔ شفق رفیع کی تحریر خاص طور پر پسند آئی۔ محمود میاں نجمی کی دونوں تحریریں بھی بہت اچھی تھیں۔ اسٹائل میں ماڈل آیت خان پر تمام ملبوسات اچھے لگے۔ حکیم سرفراز احمد نور اور ہدایت حسین نظر کے اندازِ تحریر نے متاثر کیا۔(محمد علی، آستانہ بغدادی، شیخوپورہ روڈ، گوجرانوالہ)

ج:ویسےایک بات ہے، آپ سنڈےمیگزین کےاُن’’متاثرین‘‘ میں شامل ہیں۔ جنہیں، کبھی بھی، کچھ بھی متاثر کر سکتا ہے۔

مشروبات کی تراکیب

مَیں پہلی دفعہ جنگ، سنڈے میگزین میں شرکت کررہی ہوں ۔ پلیز، میرا خط ضرور شایع کیجیے گا کہ میں آپ کا روزنامہ اور سنڈے میگزین بہت ہی شوق سے پڑھتی ہوں۔ اس بار مجھے ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ اور ’’پیارا گھر‘‘ کے صفحات بہت زیادہ پسند آئے۔ ممکن ہو تو ’’پیارا گھر‘‘ میں ذائقے دار مشروبات کی تراکیب بھی شامل کریں اور جنگ، اُردو پزل سے متعلق بھی کچھ بتائیں کہ اس کے حل کے لیے کیا کرنا ہوتا ہے۔ (نادیہ مغل، مریم رحمانی، شیخوپورہ)

ج: مشروبات کی تراکیب تو وقتاً فوقتاً شامل کی جاہی رہی ہیں اور ’’جنگ پزل‘‘ سے متعلق معلومات کے لیے آپ کو جنگ، لاہور کے دفتر فون کرنا ہوگا کہ یہ ایک بالکل علیحدہ شعبہ ہے اور جنگ، لاہور سے آپریٹ ہوتا ہے۔

بچپن یاد آگیا

سنڈے میگزین میں اس مرتبہ ’’لازم و ملزوم‘‘ میں ڈاکٹر قمر عباس نے ہمدرد نونہال اور مسعود احمد برکاتی پر کیا ہی خُوب صُورت مضمون لکھا، ہم کو اپنا بچپن یاد آگیا، جب ہم چار آنے کا نونہال خرید کر بہت ہی ذوق و شوق سے پڑھا کرتے تھے۔ سرِورق پر اس بار ڈاکٹر منظور چوہدری اینڈ فیملی کا شوٹ شایع ہوا۔ ماشاء اللہ سب کے دُعا کے لیے اُٹھے ہوئے ہاتھ دیکھ کر دل بےحد خوش ہوا۔ عالمی اُفق پر منور مرزا امریکا، ایران کے ساتھ آئے۔ اُن کے تجزئیات تو بس علمیت و قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہوتے ہیں۔ اس بار ’’پیارا گھر‘‘ کا دستر خوان بہت اچھا لگا، تو ڈائجسٹ کی کہانی بھی زبردست تھی۔ شہزادہ بشیر محمد کو ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ کی مبارک باد قبول ہو۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: ’’چار آنے کا نونہال…‘‘ اب تو ایسی باتیں پڑھ کر سچ مُچ چکر آجاتے ہیں۔ پچھلے ادوار میں تو پھر بھی ہضم ہوجاتی تھیں۔ موجودہ حکومت نے تو 10ماہ میں منہگائی کے ہاتھوں ایسی پٹخنیاں دی ہیں کہ غریب اور متوسّط طبقات تو دُور، اچھے خاصے کھاتے پیتوں کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ خدارا اب یہ چار، آٹھ آنے کی باتیں مت بتایا کریں، ایویں ای دل پہ ہاتھ سا پڑتاہے۔

نئی تصویر شایع کریں

رمضان المبارک اور ہمارے رویّوں پر شفق رفیع نے بہت اچھا مضمون قلم بند کیا۔ بات چیت خاصی مناسب اور موضوع سے عین مطابق تھی۔ محمود میاں نجمی نے ’’قصص الانبیاء‘‘ میں حضرت یونس ؑ کی شخصیت اور ساتھ ہی رمضان المبارک کی ذمّے داریوں پر بہت عُمدگی اور سادہ اسلوب میں شان دار مضمون تحریر فرمایا۔ خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ، محمود خان کی گفتگو کافی دل چسپ رہی۔ جب کہ قانون دان عبداللطیف یوسف زئی سے ملاقات بس خانہ پُری ہی تھی۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس میں ہر سال ہی ماہِ صیام میں ذیابطیس، بلڈپریشر اور امراضِ قلب کے مریضوں کے لیے احتیاطی تدابیر لازماً تحریر کی جاتی ہیں، جو کہ اب ازبر ہوچکی ہیں۔ اس ہفتے ڈاکٹر شکیل نے ذیابطیس کے مریضوں کے لیے نسبتاً بہتر تحریر لکھی۔ پیارا گھر، بس پیارا ہی تھا۔ شہر اولیاء اللہ ’’اوچ شریف‘‘ اور سیّاحتی مقام ’’گلگت بلتستان‘‘ سے متعلق پڑھ کر البتہ طبیعت ضرور مچلی کہ ان جگہوں پر ایک بار ضرور جائیں گے۔ رعنا فاروقی موقعے کی مناسبت سے اچھی کہانیوں کے ساتھ نظر آئیں۔ ایک درخواست ہے، اب رعنا فاروقی کی نئی تصویر شایع کی جائے تاکہ اندازہ تو ہو، اب وہ کس عُمر کو پہنچ چکی ہیں۔ (چاچا چھکن، گلشن اقبال،کراچی)

ج: خود تو آپ اپنے حقیقی نام کے ساتھ بھی آنے کو تیار نہیں اور رعنا جی کی نئی تصویر کی درخواست کررہے ہیں۔ پچھلے کچھ خطوط میں آپ نے اپنے حُسن کے جو بے شمار قصیدے پڑھے، تو ذرا ہمیں بھی اپنی ایک عددتصویر ارسال فرمادیں، ہم بھی تو دیکھیں، آپ کہاں کے شہزادہ گلفام ہیں۔ رعنا جی جیسی ہیں، بہت اچھی ہیں۔ آپ بس اُن کا کام دیکھا کریں۔ نئی تصویروں کے لیے، اسٹائل پر ٹکٹکی باندھے رکھتے ہیں، تو وہیں تک محدود رہیں۔

ایک سوال اُٹھتا ہے

تازہ شمارے نے قلب و ذہن میں ’’ماہِ مقدّس‘‘ کا نور سا پھیلا دیا۔ بہترین سرورق پلٹتے ہی شفق رفیع کے عوامی سروے پر نظر پڑی۔ بچیوں کا اچھا کام دیکھ کہ بہ خدا دل سے خُوشی ہوتی ہے۔ محمود میاں نجمی کے دو مضامین شامل ِ اشاعت تھے۔ وزیراعلیٰ کے پی کے کا انٹرویو پسند آیا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کے دونوں مضامین بھی بہترین رہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ حقیقتاً اس بار نورِ رمضان کو سمیٹے طلوع ہوا، واہ واہ! پچھلی بار جتنا ’’اوکھا شمارہ‘‘ رمضان اسپیشل کے نام پر نکلا، اس ہفتے وہی بیس صفحات بہترین ’’رمضان اسپیشل‘‘ تھے۔ ہدایت حسین نظر ’’گلگت‘‘ کی حسین وادی کا تذکرہ کررہےتھے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں اس مرتبہ بھی ’’آپا صاحبہ‘‘ نے ایک پروفیسر پر روایتی غیظ و غضب کےکوڑے برسائے۔ میرے کٹے پھٹے، دس دس ہزار بار ایڈٹ زدہ چیتھڑے (تبصرے) کے جواب میں ایسی تلخی، حدہےبھئی۔ خیر، اگلا شمارہ پڑھ کر احساس ہوا کہ واقعی ’’سنڈے میگزین‘‘ کوئی عام، عوامی میگزین نہیں، ایک کانٹوں بَھری راہ ہے، جس پر چلنا بھی ہے اور پیچھے آنے والوں کی راہ میں نرم و نازک گلاب بھی بچھانے ہیں۔ کیوںکہ عوام ایک بوجھل، ثقیل تحقیق کو کیا جانیں۔ بے شک ڈاکٹر قمر عباس نے ’’ہمدرد ِ نونہال اور مسعود احمد برکاتی‘‘ کا میدان مار لیا، لیکن ڈاکٹر صاحب سے وہی گزارش، جو ہر محقّق سے کرتا ہوں کہ تحریر کا اصل حوالہ اور ذیلی حوالہ لازماً دیا کریں۔ مدیرہ کی میگزین پر ادارتی دست رس اور ماہرانہ ’’ہولڈ‘‘ (تسلّط) کا یہ عالم ہے کہ مرکزی صفحات میں بھی ’’تَیِقُّنُ‘‘ کا لفظ برَتا، دھڑ سے ’’یقین‘‘ نہیں لکھ دیا، ویسے لڑکی! تمہاری عُمر، تعلیمی پس منظر، اساتذہ کرام کے اسمائے گرامی، یہ سب کچھ پَردوں میں ہے، وگرنہ یہ الفاظ ’’تحریرات، تَیقُّن، للک، حال آنکہ، مُبارَک، متشکّر (بجائے مشکور)، التزاماً، مرغ زار، الوہیات، وفیات، اُمم، ملل، منہدی، منہگائی، جُز بندی وغیرہ آج کی ساٹھ سالہ نسل بھی نہیں جانتی، یہ تراکیب یا تو کوئی 70سالہ اُردو پروفیسر جان سکتا ہے یا اُس کے اساتذہ کرام۔ ذہن میں ایک سوال ضرور اٹھتا ہے کہ ’’سنڈے میگزین‘‘ کی ’’نرجس ملک‘‘ آخر کون ہے اور کس کی شاگردہ؟ طلعت عمران نےمیاں نواز شریف کے استادِ محترم پروفیسر سجاد میر کا انٹرویو پیش کیا، جس میں محترم پروفیسر نے اُسی سچ اور حق کو بیان فرمایا، جو پروفیسرز کا خاصّہ ہے۔ شمارے کا ’’خاندانی افطار سرِورق‘‘ لُطف دے گیا۔ ماشاء اللہ بھرا پُرا گھرانہ، اندرونی صفحات میں بارہ عدد شان دار تصاویر ایک ہنستے بستے پُرسکون گھر کی نوید سُنا رہی تھیں۔ منور راجپوت کا مضمون بھی تیسرے عشرۂ رمضان المبارک کے سبب ضروری تھا، لیکن ’’فتح مکّہ‘‘پرمضمون رہ گیا۔ غالباً قلتِ صفحات کےسبب۔ عذرا انتصار نعت گو شاعرہ نورین طلعت کی باتیں لائیں، تو شفق رفیع آگہیٔ تعلیمِ بالغاں برائے خواتین معلومات دے گئیں۔ ڈاکٹر اقبال پیرزادہ اور ڈاکٹر سہیل اختر ’’عالمی یومِ انسداد تمباکو نوشی‘‘ کےحوالے سے ماہِ رمضان کی ایک اور نفسانی تربیت ’’ترکِ سگریٹ نوشی‘‘ کے ساتھ تشریف لائے، بہترین تجاویز اور خیالات پر مبنی مضامین تھے۔ اور’’خزینۂ مراغبات‘‘ الموسوم ’’پیارا گھر‘‘ بھی ماشاء اللہ اپنی روایتی آن بان شان والی تحریریں لیے آیا۔ نذیر احمد ہیڈ ماسٹر (ر) ظفروال، نارووال کو دیا گیا تمھارا جواب پڑھ کر گھنٹوں باورچی خانے میں جا کر ہنستا رہا۔ بشیر نقش بندی نے بھی کسی بڈھے کے ’’اندر سے کچھ کھوکھلے‘‘ تراشے کا رونا رویا۔ اسی طرح واپڈا ٹائون کے رہائشی، معدوم برق کے اندھیروں میں ڈوبے ایک صاحب نے میرے نام کی جگہ، لمبے چوڑے اشارے ابھی تک ترک نہ فرماتے ہوئے، گلبرگ ٹائون والے کا دائمی رونا رویا، تو مجھ پر بھی تو تعزیت واجب ہوئی۔ اور واپڈا والے مہاراجے سے بھی یہی التجا ہے کہ میرے مہربانو، قدردانوں، سرتاپا نادانو، ہر چیزکا ’’اندرونا‘‘، مت جھانکا، تاکا کرو، ظاہر کا بھی اعتبار کرنا سیکھو۔ (پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی، گلبرگ ٹائون، کراچی)

ج: ربِ کریم کا احسانِ عظیم ہے کہ نرجس ملک کو جو اساتذہ ملے،وہ صحیح معنوں میں اساتذہ کہلانے کے لائق تھے اور صدشُکر کہ ایڈیٹر کو کم از کم یہ استحقاق تو ضرور حاصل ہے کہ وہ کسی کے بھی غیر متعلقہ سوالات کا جواب دینے کا ہرگز مکلّف نہیں۔

براہِ راست سوال، حوصلہ ، برداشت

جنگ، سنڈے میگزین میںہر گزرتے دن کے ساتھ نکھار آرہا ہے۔ گو کہ صحت مسلسل گر رہی ہے، لیکن ہر شمارے سے نت نئی معلومات ملتی رہتی ہیں، خصوصاً ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سے ہم بہت فیض یاب ہورہے ہیں۔ یہ بہت اچھا سلسلہ ہے۔ اللہ آپ اور آپ کی ٹیم کو اس کا اجر ضرور دے گا، لیکن کبھی کبھی کسی جگہ کوئی تشنگی سی بھی محسوس ہوتی ہے، تو کیا اس سلسلے میں ہم نجمی صاحب سے براہِ راست رابطہ کرسکتے ہیں۔ براہِ مہربانی اس سلسلے میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔ ڈاکٹر قمر عباس نے نونہال اور مسعود احمد برکاتی کے بارے میں خُوب لکھا۔ مسعود احمد برکاتی سے جُڑی بچپن کی یادیںتازہ ہوگئیں۔ ممکن ہو تو ہمدرد فائونڈیشن کی صدر، محترمہ سعدیہ راشدکا انٹرویو بھی شایع کریں، آپ کی بڑی نوازش ہوگی۔ ایڈیٹر صاحبہ!عرصہ ہوا ایک قیدی حبیب اللہ نیازی اڈیالہ جیل سے اس محفل میںشریک ہوتے تھے، اُن کی کوئی خیرخبر نہیں۔ اُن کے بارے میں اگر آپ کے پاس کوئی معلومات ہو تو ضرور بتائیں۔ اس کے علاوہ پروفیسر ساجد میر کا انٹرویو بہت پسند آیا۔ اور ہاں، ایک چیز کی تعریف نہ کرنا تو سخت زیادتی ہوگی، اور وہ ہے، آپ کا حوصلہ اور برداشت۔ یہ بس آپ ہی کا ظرف ہے، جو لوگوں کےاس قدر الٹے سیدھے سوالات اور تبصرے، تجزیئے سہہ جاتی ہیں۔(راشد علی، علی محمد محلہ، کلری، لیاری، کراچی)

ج: محمود میاں نجمی صاحب سے جو بھی سوال کرنا چاہیں، جنگ، سنڈے میگزین کی آئی ڈی پر بھیج دیں۔ سوالات انہیںفارورڈ کردیئے جاتے ہیں اور وہ براہِ راست جواب بھی دیتے ہیں۔ سعدیہ راشد صاحبہ کا تفصیلی انٹرویو تو آپ نے ملاحظہ کر ہی لیا ہوگا۔ حبیب اللہ نیازی سے متعلق آخری بات یہی علم میںآئی تھی کہ وہ رہا ہوگئے ہیں، اُس کے بعد کی کچھ خبر نہیں۔ اور رہی بات تحمّل و برداشت اور صبر کی، تو ہرپوزیشن، عُہدے کا ایک تقاضا ہوتا ہے، اس ایڈیٹر شپ کے بھی کچھ تقاضے ہیں۔ سو، وہی نبھانے کی کوششکرتے ہیں۔

فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

رنگینیوں، روشنیوں میں ڈوبا، خوشبوؤں کے ریلے میں معطّر، مہکا مہکا سرِورقِ عید الفطر خوشیوں، شوخیوں، محبتوں، چاہتوں کے تمام رنگوں سے مہک رہا تھا گویا ؎ نکہت و رنگ لیے،نور کا سیلاب لیے......عید آئی ہے محبت کا نیا باب لیے۔ قرنِ حاضرمیں جس طرح بیگانیت کا غلبہ ہے۔ صد شکر کہ رمضان کی عبادتوں، ریاضتوں کے طفیل ملنے والے انعام و تحفۂ خدا وندی عید کہ جس کی بہ دولت یک دل و یک جا ہونے اور اپنوں کے ساتھ مل بیٹھے کی خوشی تو مل جاتی ہے۔ بہ قول اسرار رازی؎ سب کے لیے خوشی کا ہے پیغام عید کا......ثانی ہے کوئی اور نہ ہم نام عید کا.......رمضان بھر ہمیں سحر افطار کے طفیل.....کتنا حسین عطا ہوا انعام عید کا۔ ’’عید اسپیشل‘‘ میں طلعت عمران ٹیکنالوجی کی بہ دولت معاشرتی رویّوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے متعلق معروف شخصیات کی رائے پیش کر رہے تھے۔ اکثریت ٹیکنالوجی کی افادیت تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ، ایّامِ عید کے میل ملاپ کی خُوب صُورت و خوش کُن روایت ڈیجیٹل ڈیوائسزکی نذر ہونے پرتاسف کا اظہار کر رہی تھی کیوں کہ ؎ ہے میل جول، دوسرا اِک نام عید کا۔ فاروق اقدس سیاسی منظر نامے پر تبصرہ کرتے ہوئے انکشاف کررہے تھے کہ اپوزیشن، عید بعد عوام کی مشکلات کے پیشِ نظر نہیں، بلکہ اپنے مفاد میں تحریک چلائے گی۔ بھئی ہمیں تو پہلے ہی ان سیاست دانوں سے کوئی اُمید نہیں کہ یہ کب عوام سے محبت کرنے والے، ان کے مسائل سمجھنے والے ہیں، ان کا مطمحِ نظر تو صرف اپنا مفاد ہوتا ہے ،لہذا ؎ ان سے اُمید نہ رکھ، ہیں یہ سیاست والے.......یہ کسی سے بھی محبت نہیں کرنے والے۔ ’’عید اسپیشل‘‘ میں حامد فیّاض ایّامِ عید میں بسیار خوری سے اجتناب برتنے اور اعتدال کی روش اختیار کرنے کی نصیحت کر رہے تھے۔ غالباً اس بار ’’عید اسپیشل‘‘ کے ذریعے ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ اور ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ ’’عید الفطر.....انعامِ الٰہی کا دن‘‘، ’’سر چشمۂ ہدایت‘‘ کے متبادل کے طور پر پیش کیےگئے، ویسےاگر’’کہی ان کہی‘‘ اور ’’متفرق‘‘ کے بہ جائے یہ دونوں صفحات بھی شیڈول کیے جاتے تو ’’عید شمارہ‘‘ مکمل ’’عید شمارہ‘‘ لگتا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزابھارتی الیکشن کے نتا ئج کے بعد پاک، بھارت تعلقات کی بہتری سے متعلق پیش گوئیاں کررہے تھے۔ ویسے ماضی میں جس طرح عمران بھارتی حکومت کو شدید تنقید کانشانہ بناتے اور نفرتیں پھیلاتے رہے اوربھارت جس طرح پاکستان کی مذاکرات کی پیش کشوں کو مسترد کررہا ہے، پاک، بھارت دوستی کی فضا پیدا ہونے کے آثار کم ہی ہیں ،ہو ں بھی کیسے کہ جب؎ فضا میں گھول دی ہیں نفرتیں اہلِ سیاست نے۔ صدشُکر کہ اس افسردہ ماحول میں منور راجپوت ہلکی پھلکی مُسکراتی تحریر ’’ذکر کچھ خاص افراد کی عید کا‘‘ لیے چلے آئے اور لبوں پہ مسکراہٹ بکھیر دی۔ آپ کی’’اسپیشل عید تحریر‘‘ عید کی مٹھاس بھی لیے تھی اور حقیقتوں کی تلخی بھی۔ ’’عید چاند‘‘ کے ناراض ہونے کی بات خوب کہی آپ نے، واقعی؎ پہلے ہنستی تھی،ہنساتی تھی،کھلاتی تھی مجھے .......اب تو وہ پاس بھی آتی ہے، تو روجاتی ہے......ہم کبھی عید مناتے تھے، منانے کی طرح.......اب تو بس وقت گزرتا ہے،تو ہوجاتی ہے ۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ’’ عید کو بادِ گُل فِشاں کہیے‘‘ اور ’’پیامِ عید ہے‘‘ عُمدہ انتخاب تھا۔ کنول بہزاد کے افسانے نے چہار سُو روشنی کی تتلیاں بکھیردیں تو،’’ایک پیغام،پیاروں کےنام‘‘ بھی اظہارِ محبت کے دل کش رنگ لیے مہک رہاتھا اور ہمارے ’’پیارا گھر‘‘ نے بھی خوش رنگ میٹھے پکوانوں کی خوشبو ہر سُو پھیلا دی۔ گویا ’’عید شمارہ‘‘ خاص الخاص بنانے کو رنگ، آہنگ، روشنی، خوشبو سب یک جا تھے۔ المختصر، خوشیوں کے دھنک رنگ، خوشبوؤں کے سارے انگ،ساتھ تلخ حقیقتوں کے پھول بھی لیے شمارۂ عید، ہماری پیاری عید کا سچا عکّاس، عید کی حقیقی خوشی دے گیا۔ ماناکہ پہلے جیسی نہ سہی، مگر اس دورِ ابتلا میں اب بھی ہمارے یہ مذہبی و ملی تہوار ’’عیدین‘‘ شاہراہِ ہستی پرخوشیوں کے دیے روشن کرنے، چمنِ دل کھلانے کا ذریعہ ہیں۔ ( نادیہ ناز غوری، لانڈھی،کراچی)

ج: بہت خوب نادیہ۔ ایسی چِٹھیوں کو ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ قرار دے کر ہمیںکس قدر خوشی ہوتی ہے، بتا نہیںسکتے۔

گوشہ برقی خُطوط

ج: آپ جو بھی کچھ لکھ کے بھیجنا چاہتے ہیں، اسی ای میل آئی ڈی پر بھیج دیں۔ یہ جنگ، ’’سنڈے میگزین‘‘ کی آفیشل آئی ڈی ہے۔

ج: او بھئی، ہمیں بخش دیں۔ صفحات کو آگے پیچھے کرنے کےعلاوہ بھی بڑے مسئلے، مسائل ہیں ہماری زندگی میں۔ اور آپ لوگ بھی کوشش کیا کریں کہ صلاحیتیں تعمیری کاموں میں استعمال ہوں۔

ج: اپنا پورٹ فولیو بھیج دیں۔ فوٹو گرافر کو فارورڈ کردیا جائے گا۔

ج:رامین! میڈیا انڈسٹری کی ابتر صورتِحال کے باعث اب تو جریدے کےصفحات اس قدر کم کردیئے گئے ہیںکہ کسی نئے صفحے کا اجراء ناممکن ہی معلوم ہوتا ہے۔ اور کمیاں بھی کئی ایک نظر آرہی ہیں، مگر کیا کریں، ہم تو خود بے حد مجبور ہیں۔

ج: یہاں حال کے احوال کی اشاعت مشکل ہے۔ ماضی کے فن کاروں، صداکاروں سے متعلق کیا شایع کریں۔

قارئینِ کرام!

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazinejanggroup.com.pk