اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے

July 14, 2019

وہ چند تلخ جملے، جو غصّے کے عالم میں میرے منہ سے نکلے، آج تک میرے ضمیر پربوجھ ہیں اور تنہائی میں ڈستے رہتے ہیں۔ پہلے اس واقعے کا مختصر سا پس منظر بتادوں۔ میرا تعلق اندرونِ سندھ کے ایک پس ماندہ گائوں سے ہے، جہاں والد، والدہ اور تین بھائیوں سمیت ہمارا پانچ افراد پر مشتمل گھرانا عسرت زدہ زندگی گزار رہا تھا۔گائوں میں بنیادی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے غربت عروج پر تھی۔ بڑا ہونے کے ناتے، والد صاحب کی مجھ سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں۔ وہ سخت محنت کرتے اور ہمیں اچھا کھلاتے پلاتے تھے۔ مجھےاسکول بھی داخل کروایا ہوا تھا، دو بھائی مجھ سے چھے سات برس چھوٹے تھے، جو قریبی مسجد میں قائم مدرسے میں پڑھ رہے تھے۔ بچپن میں والد صاحب کو مزدوری کرتے دیکھتا، تو مجھے ان پر بہت ترس آتا، میں سوچا کرتا کہ بڑا ہوکر انہیں کام نہیں کرنے دوں گا۔ اسکول میں ذہانت کی وجہ سے مجھے اہمیت دی جاتی تھی، جس کی وجہ سے کچھ مغرور ہوگیا تھا۔ مجھے یہ لگنے لگا تھا کہ میں گائوں کے بچّوں سے کوئی الگ مخلوق ہوں اور غلط گھر اور ماحول میں پیدا ہوگیا ہوں۔ اسی احساسِ برتری کی بنا پر میںجلدازجلد گائوں سے نکل کر شہر جانا چاہتا تھا۔ اس معاملے میں میری اکثر ابّا جی سے نوک جھونک ہوتی رہتی۔ میں ان سے لڑنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا۔ وہ اکثر شدید غصّے میں آکر مجھے ڈانٹ بھی دیا کرتے، مگر ہاتھ کبھی نہیں اٹھاتے تھے، جب کہ میری کوشش ہوتی تھی کہ وہ غصّے کے عالم میں مجھ پر ہاتھ اٹھادیں، تاکہ اس بہانے گھر سے بھاگ کر کراچی چلا جائوں، جو میرے خوابوں کا شہر تھا۔

میرے بہت سے کلاس فیلوز آٹھ جماعت پڑھنے کے بعد کام کاج کی تلاش میں حیدرآباد یا کراچی جاچکے تھے۔ آٹھویں کے بعد اباجی مجھے میٹرک کا امتحان پرائیویٹ طور پر دلوانا چاہتے تھے، مگر میرا موڈ اور اُن سے بات کرنے کا انداز روز بہ روز بگڑتا ہی جارہا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ مجھ سے بات کرنے سے گھبرانے لگے ہیں، جس سے میرا حوصلہ اور بڑھ گیا، میری سرکشی جب حد سے بڑھنے لگی، تو انہوںنے زیادہ تر وقت گھر سے باہر گزارنا شروع کردیا اور میں اپنا غصّہ اپنی ماں پر اتارنے لگا۔ میں حقیقتاً باغی بنتا جارہا تھا۔ ایک روز اچانک والد صاحب نے یہ خبر سنائی کہ ہم لوگ کراچی شفٹ ہورہے ہیں۔ ان کے منہ سے کراچی جانے کی خبر سن کر میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ فخر سے سب کو بتاتا پھر رہا تھا کہ ہم کراچی جارہے ہیں، ہمیشہ کےلیے۔ اُس وقت میری عمر سولہ سال تھی۔ کراچی آنے کے بعدہم گلشن آباد کے علاقے میں چھوٹا سا کرائے کا گھر لے کر وہاں منتقل ہوگئے۔ میری اُڑان کچھ اور اونچی ہوگئی تھی۔ ابّا شہر آنے کے بعد بھی مزید سخت محنت کرنے لگے تھے۔ یہاں مجھے جس اسکول میں داخل کروایا گیا، وہاں گائوں کے برعکس، بچّوں کا معاشی اور معاشرتی چلن مختلف تھا، جس نے کچھ ہی دنوں بعد میری چڑچری طبیعت دوبارہ بحال کردی۔ میں ابّاجی کو اسکول کے بچّوں کو ان کے والدین کی طرف سے میسّر سہولتوں کو بڑھا چڑھا کر بتاتا، تو وہ مجھے سمجھانے کی کوشش کرتے کہ جتنی چادر ہو، بندے کو اُتنے ہی پیر پھیلانے چاہئیں۔ اس وقت میں مزید چِڑجاتا اور بدتمیزی پر اُتر آتا اور انہیں یہ باور کرواتا کہ ’’آپ نے اپنی اولاد کو وہ کچھ نہیں دیا، جو دوسرے والدین دیتے ہیں، اس سے بہتر تھا کہ ہمیں پیدا ہی نہ کرتے۔‘‘ میرے اس طعنے پر والد صاحب کا چہرہ اُترجاتا، اُن کا چہرہ ضبط سے سرخ ہوجاتا، مگر مجھ سے مزید الجھنے کی بجائے، مجھے وہاں سے چلے جانے کا حکم دیتے، لیکن ہاتھ کبھی نہیں اٹھاتے۔

دو سال گزر گئے، اباجی کے مالی حالات قدرے بہتر ہوتے جارہے تھے، میں میٹرک میں آگیا تھا، ابّاجی اگرچہ اچھا خاصا جیب خرچ دیتے لگے تھے، مگر وہ بھی مجھے اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر لگتا۔ ایک روز شام کو ٹیوشن پڑھ کر گھر آیا، تو ابّاجی کو وقت سے پہلے گھر میں دیکھ کر حیرت ہوئی، پوچھنے پر امّی نے بتایا کہ ’’میری طبیعت کئی دنوں سے خراب چل رہی تھی، آج اسپتال لے کر جانا تھا، اس لیے تمہارے ابّو دکان سے آدھی چھٹی لے کر گھر آگئے ہیں۔‘‘ امّی جی کی اس بات پر میں نے حسبِ عادت طنزیہ لہجے میں کہا ’’آپ کو کیا ہوگیا، اچھی بھلی تو نظر آرہی ہیں۔‘‘ ابا جو امّی کے لیے دودھ کا گلاس لے کر کمرے میں آرہے تھے، انہوں نے میری بات سن لی، انہوں نے جواب دیا ’’بیٹا! اگر گھر کے کاموں میں دل چسپی رکھو، تو گھر کے حالات کا پتا چلے، کئی روز سے تمہاری ماں کی طبیعت خراب ہے، کچھ کھا پی بھی نہیں رہی، ہر وقت ہم سب کی خدمت میں خود سے بےخبر رہتی ہے، تم بڑے بیٹے ہو، گھر کا کچھ حال احوال ہی دیکھ لیا کرو۔‘‘ میں نے کہا ’’ابّا! آپ بھول رہے ہیں، گھر کے بڑے آپ ہیں، ہم تو بس آپ کے غلام ہیں، اپنے غلاموں کا خیال رکھنا آپ کا فرض ہے۔‘‘ ابّا نے میرے طنز کا بُرا منائے بغیر مُسکراتے ہوئے جواب دیا ’’چلو غلامو!، آج تم سب کی زوردار دعوت کرواتا ہوں، پہلے منہ میٹھا کرلو۔‘‘ وہ ہمیں ہکّا بکّا چھوڑ کر باورچی خانے میں گئے اور مٹھائی کا ڈبّا لاکر ہمارے سامنے رکھ دیا۔ امّی جی بھی مسلسل مسکرا رہی تھیں۔ دونوں چھوٹے بھائی بھی مزے لے لے کر مٹھائی اڑانے لگے، مگر میں نے ڈبے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا اور ابّاجی سے کہا کہ ’’پہلے مٹھائی لانے کی وجہ بتائیں، پھر مٹھائی کھائوں گا۔‘‘ ابّاجی نے برفی کا ٹکڑا اٹھا کر میری طرف بڑھایا اور کہنے لگے ’’خوش خبری یہ ہے کہ ہمارے گھر ایک ننّھا منّا مہمان آنے والا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ امّی جی کی طرف دیکھ کر مسلسل مسکرارہے تھے۔ میرے چھوٹے بھائی خوشی سے اچھلنے لگے تھے، مجھ سے بھلا یہ منظر کیسے برداشت ہوتا، میں نے اباجی کا ہاتھ پرے کیا اور کہا ’’آپ اسے خوش خبری کہہ رہے ہیں، گھر میں پہلے ہی تنگ دستی نے ڈیرہ ڈالا ہوا ہے، ایک اور فرد کا اضافہ ہوگیا، تو ہمیں فاقے کرنے پڑجائیں گے، اس کا خرچہ کون اٹھائے گا…؟‘‘ ابّاجی کو مجھ سے ایسے ردّعمل کی قطعی توقع نہیں تھی، ان کا چہرہ پہلے زرد اور پھر ایک دم لال بھبھوکا ہوگیا۔ گرج کر بولے، ’’آج تک تیرا خرچہ کس نے اٹھایا ہے، تو کب سے خدا بن گیا۔ جو رازق ہے، وہی اس آنے والے بچّے کا رزق بھی بھیجے گا، تجھے اتنی فکر کیوں ہورہی ہے۔‘‘ میں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا، ’’وہ ہمارے حصّے کا رزق کھانے آرہا ہے، جو پہلے ہی اتنا کم ہے۔‘‘ اباجی نے غصّے سے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے قریب کرکے پوچھا ’’یہ بتائو، تم آج تک کسی بھی دن بھوکے سوئے، تمہارے بدن پر جو کپڑے ہیں، وہ میںنے لاکر نہیںدیئے؟ تمہیں جوتے پہننے کو نہیں دیئے؟ کیا کبھی تمہارے اسکول کی فیس ادا نہیں کی؟ تمہاری خواہش پر اپنے آبائی گھر اور زمینوں کو خیرباد کرکے شہر نہیں آیا، تم مجھ سے ایسی کون سی توقعات اور رکھتے ہو، جو میں پوری نہیں کرپایا۔ تم ایک ناشُکرے اور نافرمان لڑکے ہو، دفع ہوجائو یہاں سے، مجھے اب اپنی شکل مت دکھانا۔‘‘

میں ہکّابکا اُن کی صُورت دیکھ رہا تھا۔ان کا لہجہ اتنا دبنگ اور قطعی تھا کہ میں پہلے حیران ہوا اور پھر قدرے ڈر کر وہاں سے کھسک کر باہر نکل گیا۔ ان کی باتوں پر غور کیا، تو وہ بالکل سچّے لگے، انہوں نے پالنے پوسنے میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر ہماری ناز برداری کی تھی۔ انہیں بیٹی کا بہت ارمان تھا کہ ان کے گھر کے آنگن میں ان کی بیٹی چڑیوں کی طرح چہکتی پھرے، وہ اکثر اپنی اس حسرت کا اظہار کرتے رہتے تھے، غالباً انہیں یقین ہوگیا تھا کہ قدرت اُن کی یہ تشنہ آرزو پوری کرنے جارہی ہے، اسی لیے وہ بہت پُرجوش تھے، انہوں نے میرے اس ردّعمل پر جس برہمی کا اظہار کیا تھا، اس سے مجھے شدید احساس ہوا کہ ان کے سامنے ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا، ان کی ہر بات سچائی پر مبنی تھی کہ میری خواہشات پوری کرنے پر وہ اب تک اپنی خواہشات کا گلا گھونٹتے آئے تھے، زمینیں تک بیچ دیں، اپنا آبائی گھر اور گائوں چھوڑ دیا، پھر بھی میرے نخرے بڑھتے چلے جارہے تھے۔ میں نے ان سے معافی مانگنے کا پہلی بار سوچا، دل چاہا کہ اسی وقت بھاگ کر جائوں اور ان کے پائوں پکڑ کر معافی مانگ لوں، ان کا بے بسی اور حیرانی سے مجھے دیکھنا، میرے لیے شدید باعثِ ندامت بن گیا تھا۔ رات کو ڈھنگ سے کچھ کھایا، اور نہ نیند آئی۔ بے تابی سے صبح کا انتظار کرتا رہا۔ ان کا ایک سوال کہ ’’کیا کبھی کسی ایک رات بھوکے سوئے ہو تم…؟‘‘ بار بار میرے کانوں میں گونجتا رہا۔

صبح فجر کے وقت امّی جی کے کمرے سے چیخوں کی آوازیں سنائی دیں، تو ہڑبڑا کا اٹھ بیٹھا، وہ باربار ناصر، ناصر کہہ کر مجھے پکار رہی تھیں، میں فوراً ان کے کمرے میں پہنچا، تو انہوںنے ابّو کو سنبھالا ہوا تھا، اور مجھے زور زور سے پکار رہی تھیں۔ مَیں ان کے قریب پہنچا، تو انہوں نے بتایا کہ ’’تمہارے ابّو اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہو پارہے ہیں، شاید ان پر فالج کا حملہ ہوا ہے۔‘‘ ابّو کی حالت بہت خراب ہورہی تھی، میں نے فوراً اپنے ماموں اور چاچو کو فون کیا، جن کی رہایش قریب ہی تھی، پھر محلّے کے ڈاکٹر کو بلا کر چیک اپ کروایا، انہوں نے یہ کہہ کر تسلّی دی کہ گھبرانے کی بات نہیں ہے، کم زوری کی وجہ سے کھڑے نہیں ہو پارہے ہیں۔ چاچو اور ماموں آئے، تو باہمی مشورے کے بعد ابّو کو جناح اسپتال لے گئے، جہاں انہیں فوری داخل کرکے خون کی بوتل چڑھادی گئی۔ پھر کئی ٹیسٹس لے گئے۔ اس دوران ابو کی آنکھیں تقریباً بند رہیں، میں نے انہیں اپنی جانب متوجّہ کرنے کی کافی کوششیں کیں، مَیں ان سے معافی مانگنے کےلیے تڑپ رہا تھا، مگر وہ جیسے میری معافی سے بے نیاز ہوچکے تھے۔ میڈیکل ٹیسٹس رپورٹ کے مطابق انہیں فوڈ پوائزننگ ہوئی تھی، لیکن اب خطرے کی کوئی بات نہیں تھی۔ ابّو کی آنکھیں بدستور بند تھیں۔ میری ان سے بات نہ ہوسکی، ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ صبح تک ٹھیک ہوجائیں گے۔ رات کو چھوٹا بھائی آیا، تو اس نے ابّو کے پاس اسپتال میں رہنے کا کہہ کر مجھے گھر جانے کا مشورہ دیا۔ صبح سے بھاگ دوڑنے مجھے کافی تھکا دیا تھا، میں مطمئن ہوکر گھر آگیا اور کھانا کھا کر سوگیا۔ رات تقریباً ایک بجے اچانک ماموں گھر آئے اور مجھے جگا کر یہ روح فرسا خبر سنائی کہ ’’تمہارے ابو کا انتقال ہوگیا ہے، میّت کو گائوں لے کر جانا ہوگا، جلدی سے تیار ہوجائو۔‘‘

میں کتنا بدنصیب تھا کہ باپ سے اپنی نافرمانیوں اور بدتمیزیوں کی معافی تک نہ مانگ سکا۔ ان کے خلوص، محبت اور احسانات کا ادراک ہوا، تو کافی دیر ہوچکی تھی۔ ہم روتے دھوتے میّت لے کر گائوں چلے گئے اور ان کی خواہش کے مطابق انہیں ان کی والدہ کے پہلو میں دفنا دیا گیا۔ ہم ایک ماہ بعد وہاں سے کراچی آگئے، تین مہینے بعد ہمارے گھر اس بہن کی ولادت ہوئی، جس کی خواہش ابو کو ایک عرصے سے تھی اور جو میرے اور ابو کے درمیان آخری جھگڑے کا سبب بنی تھی۔ میرا خیال تھا کہ شاید میں اسے ذہنی طور پر قبول نہیں کر پائوں گا، مگر جیسے ہی امّی کے کہنے پر میں نے اسے گود میں اٹھایا، میرے دل کی دنیا ہی بدل گئی، تین ماہ سے میرے دل کا مرجھایا ہوا پھول یک دم کِھل اٹھا، اس کی ولادت میرے پیارے رسولٖ اکرمﷺ کا یہ واضح پیغام تھا کہ میرے گھر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت بھیج دی ہے۔ سوگ میں ڈوبا گھر پھر سے آباد اور پُررونق ہوگیا، میں نے اپنی غلطیوں کی اصلاح اور تلافی کے لیے خود کو یک سَر بدل ڈالا، میری اس ننّھی منّی بہن میں تو جیسے میری جان تھی، اُسے دیکھتے ہی ساری تھکن اور پریشانی رفو چکّر ہوجاتی، گھر میں رزق کی فراوانی بھی ہوگئی۔ میراوہ فرسودہ خیال کہ اس کے آنے پر ہمارا خرچہ بڑھ جائے گا، اب مجھے شرمندہ کرتا ہے۔ میں نے ابّو کو جس جس بات کے طعنے دیئے تھے، وہ الٹا میرے منہ پر طمانچے بن کر لگے اور پشیمانی روح پر بوجھ بن کے رہ گئی کہ میں اپنے والد سے معافی تک نہ مانگ سکا۔ (شاہد حسین، کراچی)

آپ ہی سے کچھ کہنا ہے

اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے جوکسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث ہے تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور وآگہی میں اضافے کے ساتھ ان کے لیے زندگی کاسفر آسان کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے، نیز ،اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت پڑے تو آسانی ہوسکے۔ ہمیں اپنی کہانیاں اور آراء اس پتے پر بھیجیں ۔

انچارج صفحہ، ناقابلِ فراموش، جنگ سنڈے میگزین،روزنامہ جنگ، اخبار منزل ،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی