وہ اسرار نہ کُھل سکے

July 14, 2019

میرے والد صاحب بھارت میں ریلوے پولیس میں ملازم تھے۔ جب تقسیم پاک و ہند کے بعد کراچی ہجرت کی، تو انہیں سول پولیس میں ملازمت مل گئی اور ان کی پوسٹنگ کیماڑی کے علاقے میں ہوئی۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے کیماڑی کے پولیس کوارٹر میں رہایش کی درخواست بھیجی، جو منظور ہوگئی۔ ہم کراچی آنے کے بعد ایک پرانی فلیٹ نما بلڈنگ کی چوتھی منزل پر مقیم تھے، جہاں سیڑھیوں سے چڑھنا ،اترنا خاصا دقّت طلب تھا۔ کوارٹر ملا، تو بے حد خوشی ہوئی کہ اس اذیّت سے جان چُھوٹی۔ کیماڑی میں ہمیں ایک کشادہ کوارٹر ملا تھا۔ جب ہم وہاں شفٹ ہونے لگے، تو آس پڑوس کے لوگوں نے بتایا کہ ’’یہ کوارٹر عرصے سے خالی پڑا ہے، کوئی اسے لینے کو تیار نہیں ہوتا، کیوںکہ یہاں جو بھی آتا ہے، اسے کوئی نہ کوئی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ سال بھر پہلے ایک فیملی کو یہاں آئےچند روز ہی ہوئے تھے کہ ان کا چھے سات سال کا بچّہ چھت سے گر کر ہلاک ہوگیا۔ وہ اُن کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس سانحے کے بعد وہ لوگ گھر چھوڑ کر چلے گئے۔ اُن کے بعد ایک اور فیملی آئی، جو پندرہ روز بعد ہی گھر چھوڑ گئی۔ اُن کے ساتھ بھی تقریباً اسی طرح کا واقعہ پیش آیا۔ اُن کا بیٹا کوارٹر کے پیچھے واقع گٹر میں گرکر ہلاک ہوگیا۔ جس کے بعد انہوں نے بھی فوری طور پر اس کوارٹر کو خالی کردیا اور کہیں اور شفٹ ہوگئے۔‘‘

میری والدہ نماز روزے کی پا بند، تہجد گزار او رراسخ العقیدہ خاتون تھیں۔ بھوت پریت پر یقین نہیں رکھتی تھیں۔ اس لیے جب انہیں اس کوارٹر کے بارے میں بتایا گیا، تو انہوں نے اسے سنی سنائی باتیں، افواہیں اور توہّم پرستی قرار دے کررد کردیا اور کہا کہ ’’جب تک ہم وہاں رہ کر تصدیق نہ کرلیں، اس طرح کی باتیں مناسب نہیں، لیکن اگرپھر بھی اس میں کچھ حقیقت ہوئی، تو ان نادیدہ قوتوں سے لڑنے بھڑنے کی بجائے ہم گھر چھوڑ دیں گے۔ اس دوران اللہ ہماری نگہبانی کرے گا۔‘‘ والدہ کا حوصلہ دیکھ کر والد صاحب نے رہایش کے لیے کوارٹر حاصل کرلیا اور منتقل ہوگئے۔ ہمیں قریبی اسکول میںداخل کروادیا گیا۔ اُس زمانے میں ان کوارٹرز میں بجلی نہیں آئی تھی۔ مغرب کی اذان ہوتے ہی لالٹینیں جلا کر مقررہ جگہ پر لٹکادی جاتیں۔ ایک صحن میں اور دو کمرے کے اندر۔ گھر میں مدھم سی روشنی ہمیشہ رہتی تھی۔ ہمیں وہاں ایک مہینہ ہوگیا تھا اور کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوئی تھی۔ محلّے کے لوگ بھی اس وہم کو دل سے نکال چکے تھے کہ اس گھر میں کسی نادیدہ مخلوق کا بسیراہے۔

ایک رات گرمی بہت تھی۔ والد صاحب اس روز کسی سرکاری کام سے حیدر آباد گئے ہوئے تھے۔ والدہ کمرے میں اکیلی تھیں۔ انہوں نے اپنی چارپائی کھڑکی کے نیچے بچھائی۔ یہ کھڑکی دوسرے کمرے کے اندرونی دروازے کے ساتھ تھی۔ والدہ صاحبہ نے سونے کے ارادے سے لالٹین کی لَو ہلکی کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا، تو معاًان کی نظر ملحقہ کمرے کے اندر پڑی، اُن کا ہاتھ وہیں رُک گیا۔ کمرے میں بیچوں بیچ ایک موٹا تگڑا آدمی اکڑوں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کا بدن لالٹین کی روشنی میں چمک رہا تھا اور جسم پر صرف ایک لنگوٹ تھا۔ والدہ صاحبہ یہ منظر دیکھ کر سہم گئیں۔ انہوں نے قرآنی آیات کا ورد شروع کردیا، لیکن وہ شخص اسی انداز میں فرش پر بیٹھا رہا۔ والدہ نے کھڑکی بند کردی اور بستر پر لیٹ کر قرآنی آیات پڑھنے لگیں۔ صبح اس جگہ کا جائزہ لیا، تو وہ شخص جہاںبیٹھا ہوا تھا، عین اسی جگہ تیل کی چکناہٹ بتارہی تھی کہ وہاں ضرور کوئی انوکھی بات تھی۔ والدہ نے یہ بات صرف ابّو کو بتائی۔ انہیںجس کمرے میں وہ شخص دکھائی دیا تھا، اس میں پہلے روز سے ہم نے ایک عجیب سی بُو محسوس کی تھی، جس کی وجہ سے وہ خالی چھوڑ دیا گیا تھا کہ رنگ روغن اور صفائی ستھرائی کے بعد اسے استعمال میںلایا جائے گا۔ بہرحال، گزشتہ رات کا منظر دیکھ کر والدہ کچھ محتاط ہوگئی تھیں، تاہم چند روز تک انہیں دوبارہ ایسا کچھ نظر نہیں آیا۔

چند ہفتے گزرے تھے کہ ایک روز وہ اسی کمرے سے گزر کر کچن کی طرف جارہی تھیں، جو گھر کے آخری حصّے میں تھا۔ ابھی انہوںنے کمرے کے اندر قدم رکھا ہی تھا کہ عین اسی جگہ پہلوان نما شخص اکڑوں بیٹھا دوبارہ دکھائی دیا۔ رات کا وقت تھا، والدہ کی ہاتھ میں لالٹین تھی، وہ الٹے قدموں اپنے کمرے میں واپس آگئیں۔ وہ شخص اسی مخصوص پوز میں کچھ دیر دکھائی دیا، پھر یک لخت غائب ہوگیا۔ والدہ نے اس واقعے کا ذکر محلّے کی ایک بزرگ خاتون سے کیا، تو انہوں نے بتایا کہ ’’اس گھر میں قیامِ پاکستان سے بہت پہلے ایک ہندوسپاہی تنہا رہتا تھا۔ اس کے پاس اکثر ایک عورت ملنے آتی تھی، جو بڑے سے گھیردار سفید برقعے میں ملبوس ہوتی تھی۔ اس کا چہرہ کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ عورت کے گھر میںداخل ہونے کے کچھ دیر بعد لڑنے جھگڑنے کی آوازیں آنے لگتیں۔ پھر اچانک اس عورت کا آنا جانا بند ہوگیا۔ وہ سپاہی، پہلوانوں جیسے جثّے والا تھا، کچھ جنتر منتر بھی جانتا تھا، کسی سے علیک سلیک نہیںرکھتا تھا، اس لیے کالونی کے لوگ بھی اس سے کتراتے تھے۔ پھر ایک دن اس کے بند کوارٹر سے بدبو آنے لگی، دروازہ توڑا گیا، تو کمرے کے وسط میں وہ اکڑوں حالت میں مُردہ پایا گیا۔ اس کی موت اتنی پُراسرار تھی کہ علاقے میں مہینوں خوف طاری رہا۔ اس کے ورثاء کے بارے میں بھی کسی کو کچھ علم نہیں تھا۔ لاش اس قدر گل سڑگئی تھی کہ عین اسی جگہ اس کی چِتا تیار کرکے آگ لگا دی گئی۔ اس پہلوان سپاہی کی موت کے بعد اس عورت نے بھی پھر کبھی یہاں کا رُخ نہیں کیا۔ بعد میں سپاہی کی پُراسرار موت اور گھیر دار سفید برقعے والی عورت کے حوالے سے بے شمار کہانیاں گھڑی گئیں، مگر حقیقت سے پردہ نہ اُٹھ سکا۔‘‘

یہ واقعہ سُن کر والدہ صاحبہ مزید محتاط ہوگئیں اور کمرے کو تالا لگواکر گھر کے بچّوں کو اُس کمرے میں جانے سے سختی سے منع کردیا۔ پرانی تعمیر تھی، اس لیے مردوں اور عورتوں کے الگ الگ بیت الخلاء گھروں سے باہر بنے ہوئے تھے۔ ایک رات والدہ بیت الخلاء جانے کےلیے باہر نکلیں، تو انہیں سامنے والے کوارٹر کی سیڑھیوں سے پڑوسن اُترتی دکھائی دی۔ والدہ نے انہیں آواز دی اور کہا ’’ٹھہرو میں بھی تمہارے ساتھ آرہی ہوں۔‘‘ والدہ کی بات سن کر وہ رُک گئیں۔ والدہ نے جلدی سے شال کھول کر دوبارہ لپیٹی اور تیزی سے اس طرف بڑھیں، مگر وہ انہیں اس جگہ نظر نہیں آئیں، پلک جھپکتے ہی نہ جانے کہاں غائب ہوگئیں۔ چند لمحے والدہ نے اُن کا انتظار کیا، پھر یہ سوچ کر کہ شاید وہ جلدی میںبیت الخلاء چلی گئی ہوں گی، اکیلی ہی چلی گئیں۔ جب بیت الخلاء سے نکل کر باہر آئیں، تو سامنے گٹر پر ایک عورت کو بیٹھے دیکھا، جس نے بڑے سے گھیر کا سفید براق برقع پہنا ہوا تھا۔ یہ وہی گٹر تھا، جس میں ایک بچّہ ڈوب چکا تھا۔ والدہ نے اس کے پاس جاکر کہا، ’’اس گندگی میں کیوں بیٹھی ہیں۔ آپ کے کپڑے گندے ہوجائیں گے۔‘‘ لیکن عورت نے کوئی جواب نہیں دیا، بدستور ساکت بیٹھی رہی۔ والدہ نے پلٹ کر گھر کی طرف رُخ کیا، تو انہیں لگا کہ کوئی اچھل کر اُن کے کندھے پر سوار ہوگیا ہے۔ اس کا وزن اتنا بھاری تھا کہ وہ ڈگمگا گئیں۔ سنبھل کر چلنے کی کوشش کی، مگر پیر رکھ کہیںرہی تھیں اورپڑکہیں رہے تھے۔ کندھے بوجھ سے جھکے جارہے تھے۔ بہ مشکل پیچھے مڑکر دیکھا، پورے چاند کی روشنی پھیلی ہوئی تھی، لیکن برقعے والی غائب ہوچکی تھی۔ اسی وقت انہیں سپاہی پہلوان کے حوالے سے سنا ہوا قصّہ یاد آگیا، جس میں ایک بہت گھیر دار سفید برقعے میں ملبوس عورت کا بھی ذکر تھا۔ وہ ہانپتی کانپتی گیٹ سے اندر آگئیں اور چُپ چاپ بستر پر دراز ہوگئیں۔ صبح تک انہیں تیز بخار ہوگیا۔ والد صاحب کو رات کا واقعہ سُنایا، تو وہ بھی پریشان ہوگئے۔ سامنے والے گھر کی دوسری منزل پر رہنے والی خاتون کو والدہ کے بخار کا پتا چلا، تو وہ پوچھنے آگئیں۔ والدہ نے اُن سے گِلہ کیا کہ ’’گزشتہ رات میں آپ کو آوازیں دیتی رہ گئی، مگر آپ نے سُنی اَن سُنی کردی اور پھر ایسی غائب ہوئیں کہ بیت الخلاء کے آس پاس بھی نظر نہیں آئیں۔‘‘ والدہ کی بات پر اُن خاتون نے اچنبھے کا اظہار کرتے ہوئے حیرت سے جواب دیا کہ ’’گزشتہ رات تو میںبیت الخلاء گئی ہی نہیں۔‘‘ والدہ صاحبہ کےلیے یہ بہت بڑا جھٹکا تھا۔ وہ شدید گھبرا گئیں۔ ادھر والد صاحب کو بھی وہ پہلوان ایک دفعہ دکھائی دے گئے تھے۔ والدہ صاحبہ کی حالت دیکھ کر وہ بھی گھبراگئے۔ پھر انہوںنے تھوڑی تگ و دو کے بعد بغدادی کے علاقے میں رہایش کا بندوبست کروا لیا اور چند روز بعد ہی ہم وہاں شفٹ ہوگئے۔ والدہ صاحبہ کا بخار بھی وہاں جانے کے بعد ہی اُترا۔ تاہم یہ معمّا کوئی حل نہیں کر پایا کہ وہ پہلوان سپاہی اور گھیردار سفید برقعے والی خاتون کون تھی۔ اگر اُن دونوں پُراسرار کرداروں کو والدہ صاحبہ خود اپنی آنکھوں سے نہ دیکھتیں، تو کبھی یقین نہ کرتیں کہ وہ گھر اپنے اندر بہت سے اَن کہے اسرار رکھتا تھا۔ (فاطمہ کبریٰ،کراچی)

آپ ہی سے کچھ کہنا ہے

اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے جوکسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث ہے تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور وآگہی میں اضافے کے ساتھ ان کے لیے زندگی کاسفر آسان کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے، نیز ،اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت پڑے تو آسانی ہوسکے۔ ہمیں اپنی کہانیاں اور آراء اس پتے پر بھیجیں ۔

انچارج صفحہ، ناقابلِ فراموش، جنگ سنڈے میگزین،روزنامہ جنگ، اخبار منزل ،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی