’جہانگیر کوٹھاری پریڈ‘

July 11, 2019

وسیم صدیقی

فرئیر ہال سے وکٹوریہ روڈ پر آ جائیں ، اور یہاں سے سیدھا آگے چلتے جائیں تو یہ بڑی سڑک بتدریج ایک نسبتاً سنسان اور چھوٹی سڑک میں تبدیل ہو جاتی جو کافی خستہ حال ہوا کرتی تھی اور وکٹوریہ روڈ ہی کہلاتی تھی، تاہم بعد میں اس کا نام بدل کر’’ خیابان اقبال‘‘ رکھ دیا گیا۔ یہاں سے کافی آگے جا کر بائیں طرف ایک سیلن زدہ سا میدان آتا تھا ،جس کو گزری میدان کہتے تھے۔ کہیں کہیں کچھ جھگیاں یا کچے مکان نظر آجاتے ، ورنہ ہر سو جھاڑیاں ہی پھیلی ہوئی تھیں ۔ یہاں سے ایک سڑک دائیں طرف کو مڑ جاتی تھی ،جس کے آس پاس کچھ بہت بڑے بنگلے اور کچھ سفارت خانےتھے ۔ یہاں کے ماحول میں نمی اور سمندری پانی کی خوشبو بتا دیتی تھی کہ ساحل سمندر یہیں کہیں نزدیک ہی ہے۔تھوڑا آگے بڑھتے تو یکدم سامنے سمندر نظر آجاتا تھا ۔ ہر طرف خاموشی اور لہروں کی ہلکی ہلکی سائیں سائیں کی آواز بھی دور تک صاف سنائی دیتی تھی۔ درحقیقت یہ سمندر اتنا قریب بھی نہیں تھا جتنا نظر آتا تھا ۔ وہاں تک پہنچنے کے لیے سب سے پہلے کوٹھاری پریڈ کی خوب صورت اور تاریخی عمارت کے پاس سے گزر کر تھوڑا نیچے اترنا پڑتا تھا۔ یہ کوٹھاری پریڈ کی عمارت بھی بڑی دلچسپ تھی ۔ بڑے گنبد جسے ہوا بنر کہتے ہیں کے نیچے اس کے چبوترے تک پہنچنے کے لیے ایک طرف بنی ہوئی سیڑھیاں چڑھنا پڑتی تھیں ۔

چبوترے کے باقی حصے کے اطراف میں ڈھلوانی پتھروں کی ٹائلیں لگی تھیں جو نیچے سڑک تک آتی تھیںچبوترے کے باقی حصے کے اطراف میں ڈھلوانی پتھروں کی ٹائلیں لگی تھیں جو نیچے سڑک تک آتی تھیں۔ اسی عمارت کے دوسری طرف سے چوڑی پتھریلی سیڑھیاں نیچے ایک وسیع و عریض راہداری پر اترتی تھیں، جو آہستہ آہستہ آگے چلتی جاتی تھی۔ کچھ فاصلے کے بعد ایک بار پھرچند سیڑھیاں کچھ اور نیچے اترتیں اور پھر راہداری کا اگلا حصہ شروع ہو جاتا تھا ۔ یہ بہت ہی خوب صورت راہداری تھی، جس کے دونوں طرف دلکش باغات اور گھاس کے تختے لگے ہوئے ہوتےتھے۔ آہستہ آہستہ نشیب میں اترتی ہوئی یہ راہ گزر اپنے سفر کے اختتام پر بالکل ہی سمندر کے قریب پہنچا دیتی تھی، جہاں سے لوگ آخری سیڑھی سے ساحل کی ریت پر چھلانگ لگا دیتے تھے۔جہانگیر کوٹھاری پریڈ جوبرطانوی عہد کی ایک شاندار یادگارہے لیکن اب اس کے اردگر د اوورپاس اور بلند وبالا عمارتوں نے اس کی انفرادیت کو گہنادیا ہے۔جدید ترین شاپنگ مالز اور آسمان سے باتیں کرتی عمارتوں، زمین کے دن دگنی اور رات چوگنی بڑھتی قیمتوں اور کرایوں کے سبب کراچی کا ساحل ’عام آدمی‘ کی پہنچ سے دور ہوتا جا رہا ہے، تاریخی یادگار ’جہانگیر کوٹھاری پریڈ‘ بھی نئی تعمیرات، بل کھاتے پلوں اور زمین دوز راستوں کے جھرمٹ میں ’گم‘ ہونے لگی ہے۔

دس فروری 1919ء میں جبکہ کراچی، ممبئی کا ہی ایک حصہ ہوا کرتا تھا، اس کے گورنر جارج لائیڈ کے ہاتھوں حد نگاہ تک چوکڑیاں بھرتے سمندر کے کنارے یہ پریڈ ایک تفریح گاہ کے طور پر تعمیر ہونا شروع ہوا تھا۔ لیکن، کلفٹن کے ساحل پر واقع اس عمارت کو آج نگاہ بھر کر دیکھنے والا بھی کوئی نہیں رہا۔

تاریخ کے سنہری پنوں کو پلٹتے ہوئے کچھ اور پیچھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے اس زمین کے اصل مالک کا نام جہانگیر ایچ کوٹھاری تھا، انہوں نے اس وقت کی میونسپلٹی کو یہ جگہ وسیع و عریض تفریح گاہ بنانے کے لئے دی تھی۔اس عمارت کی اہمیت کیا ہے۔ در اصل یہ لیڈی لائیڈ تھیںجو ہر سہہ پہر کو جب سمندر سے خنک ہوا کلفٹن کی ریت سے گذرتی، تو وہ وکٹوریہ میں سوار، اندھیرا پھیلنے سے پہلے پہلے ایک چکر لگاتی تھیں۔ سمندر کو جانے والی راہ پتھریلی تھی اور کہیں بھی ہموار نہیں تھی۔ پانی تک فاصلہ بھی بہت طویل تھا۔

اسی طرح ایک دن سیر کے دوران لیڈی لائیڈ کو ایک معزز پارسی رئیس سے ملنے کا اتفاق ہوا جن کا نام سر جہانگیر ہرمز جی کوٹھاری تھا۔ دونوں جلد ہی گہرے دوست بن گئے۔ کوٹھاری صاحب سمندر کے کنارے ایک چھوٹی سی پہاڑی پر تعمیر شان دار بنگلے میں رہتے تھے۔ لیڈی لائیڈ اور سر جہانگیر اس بنگلے کی بالکونیوں میں چائے پیتے۔ یہاں ہوا کا بہت زور ہوتا تھا۔ ایک دن دونوں یہیں بیٹھے تھے، لیڈی لائیڈ پتھریلے راستے پر لوگوں کو چلتے دیکھ رہی تھیں، اس دلدوز نظارے کے بعد انھوں نے سر جہانگیر سے کہا کہ اگر یہاں باقاعدہ سڑک ہو تو ان بے چارے بے شمار لوگوں کو تکلیف نہ ہو، جو یہاں تازہ ہوا کی تلاش میں آتے ہیں۔قابل احترام پارسی نے لیڈی کی بات مان لی۔ اب وہ اس فکر میں تھے کہ یہ سب کچھ کیسے ہو۔ لیڈی نے سمجھایا کہ صرف ایک پریڈکی ضرورت ہے جو نیچے ساحلِ سمندر تک جائے۔ یہ بہت بڑی بات ہوگی اور اُن کا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جائے گا۔ سر جہانگیر کو یہ تجویز پسند آ گئی پریڈ تعمیر کروادی،اور پیویلین بھی تعمیر کروایا۔کوٹھاری صاحب نے تین لاکھ روپیوں کی لاگت سے پیویلین تعمیر کروایا اور اس کا نام اپنے نام کی بجائے اپنی دوست کے نام پر رکھا۔یہ پریڈ1921 کو کھول دی گئی۔، جہاں سے قدرتی ہوا کے جھونکوں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساحل سمندر کے دلفریب نظارہ بھی کیا جا سکتا تھا۔

کلفٹن کے ساحل کو جاتے راستے پر ایک کتبے پر سیاح یہ الفاظ پڑھ سکتے ہیں، "Lady Lloyd Piar"۔ جودھ پور، راجستھان کے سرخ پتھروں سے تعمیر کردہ ’جہانگیر کوٹھاری پریڈ‘ کی افتتاحی تقریب کی مہمان خصوصی گورنر جارج لائیڈ کی اہلیہ تھیں،جنہوں نے اس کا افتتاح21 مارچ 1921 میں کیا۔ سنگ بنیاد کے موقع پر نصب کی جانے والی تختی آج بھی یہاں نصب ہے۔ لیکن، یہاں آنے والے لاکھوں لوگوں میں سے کچھ ہی کی نگاہ اس پر پڑی ہوگی۔اسی قدیم تختی کے قریب ایک جدید تختی بھی لگی ہے ،جس پر آج کے دور کی تاریخ لکھی ہے۔ بعد ازاں ساحل دور ہوتے ہوتے کافی آگے چلا گیا تو جون 2005 میں کراچی کی ضلعی حکومت نے اس تاریخی تفریح گاہ کی مرمت اور دیکھ بھال کی طرف توجہ کرتے ہوئے تعمیری پراجیکٹ کا آغاز کیا اور عمارت کے رقبے میں توسیع کرتے ہوئے اطراف کی جگہ بھی شامل کرتے ہوئے بن قاسم پارک بنیاد رکھی۔جہانگیر کوٹھاری پریڈ کی طرز تعمیر سیاحوں کو اپنی طرف کھنچ لاتی ہے۔ اس کے سامنے بنی ہوئی خوبصورت سڑک دل میں اترتی ہے۔ یہ جگہ باغ ابن قاسم کلفٹن کراچی کی تزئین وآرائش کے بعد رات کو دلکش مناظر پیش کرتی ہے۔

اس پریڈ کے پیچھے جو پارک ٹاور کی جدید عمارت ہے، اس کا یہاں نام و نشان تک نہ تھا۔ نہ ہائی پر اسٹار جیسا جدید شاپنگ مال تھا نہ شہرکی سب سے اونچی عمارت ’بحریہ آئیکون‘یہ پل، یہ انڈر پاس جن کے بیچ میں گھیر کر یادگار تاریخی جہانگیر کوٹھاری گم ہو رہی ہے۔ شاید چند سالوں بعد پاکستان کے واحد سمندری کنارے کی یہ نشانی اپنی اصل پہچان کھودے۔

جدید تعمیرات ضرور بنیں لیکن تاریخی عمارتوں کے جنازوں پر نہیں، اس یادگار کے اونچی عمارتوں میں چھپ جانے کا غم کبھی ختم نہیں ہوگا۔اس خوبصورت جگہ اور برطانوی شاہی دور کے امپریل کسٹمز ہائوس اور دیگر تعمیرات کوگوکہ دوبارہ بحال کرنے کا کام کیا گیا ہے،تاہم اس قسم کے اقدامات بہت کم ہیں۔