بطخوں والی لڑکی

July 13, 2019

اسماء خان

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سبز نگر نامی گائوں میں ایک لڑکی رہتی تھی ،اس کی ماں فوت ہوچکی تھی اور سوتیلی ماں اس کے ساتھ برا سلوک کرتی تھی لڑکی بے حد خوب صورت اور معصوم تھی ۔ سوتیلی ماں نے حسد میں اس کی آنکھوں کو ضائع کرنے کا منصوبہ بنایا۔ لڑکی کا نام کشمائن تھا اسے بطخیں پالنے کا بے حد شوق تھا اس کی مرحومہ ماں نے اسے ایک درجن بطخیں لے کر دی تھی وہ ہر روز بطخوں کو لے کر سیر کرنے جاتی اس وجہ سے لوگ اسے بطخوں والی لڑکی کہاکرتے تھے۔ مان نے بطخوں والی لڑکی سے کہا ،کہ آج باہر مت جانا گھر کی صفائی کرنی ہے اور کمرے میں چونا لگانا ہے۔‘‘ کشمائن ماں کے ساتھ کام میں مشغول تھی جب اچانک ماں نے اس کی خوب صورت آنکھوں میں چونا ڈال دیا وہ شدت درد سے بلبلا اٹھی اس کا باپ گھر پر موجود نہیں تھا جو اسے ڈاکٹر کے پاس لے جاتا اور سوتیلی ماں نے تو خود یہ کام کیا تھا اس لیے آرام سے بیٹھی تماشا دیکھ رہی تھی۔ رات کو جب لڑکی کا باپ گھر آیا تب تک وہ آنکھوں سے محروم ہوچکی تھی وہ سوتیلی ماں سے بہت ڈرتی تھی، اس لیے باپ کے پوچھنے پر بھی کچھ نہیں بتایا۔ اس کی بطخیں یہ دیکھ کر بہت اداس ہوگئیں کہ اب وہ سیر پر نہیں جاسکیں گی ان کی سہیلی اب ہر وقت روتی رہتی تھی ایک دن سب بطخیں بہت پریشان تھیں کئی دن سے بھوکی پیاسی تھیں کھلانے والی خود بھی نہیں کھا سکتی تھی بطخوں کو کیا کھلاتی، اچانک نیلی بطخ کی آنکھیں چمکنے لگی اس کا مطلب تھا کہ اس نے مسئلے کا کوئی حل ڈھونڈلیا ہے سفید بطخ نے کہا ارے نیلی تمہاری آنکھوں سے پتا چلتا ہے کہ تم کامیاب ترکیب سوچی ہے اب جلدی سے بتائو، تاکہ ہم اپنی سہیلی کی خدمت کرسکیں نیلی نے کہا سنو ،’’میری بہنوں اس لڑکی کا ہم پر بہت زیادہ حق ہے وہ ہر روز ہمیں سیر کراتی کھلاتی پلاتی اور اچھی طرح دیکھ بھال کرتی تھی ،اب وہ اندھی ہوچکی ہے اور گھر میں اکیلی ہونے کی وجہ سے کافی تنگ بھی ہے کیوں نہ آج ہم اپنی سہیلی کو سیر کرائیں موٹی بطخ نے کہا ارے نیلی وہ کیسے نیلی نے کہا کہ وہ ایسے کہ ایک دن میں اسے کمر پر اٹھاکر سیر کرائوں گی تم سب بھی ساتھ چلنا ایک دن تم اٹھائو گی ایک دن سفید بطخ اسی طرح سب باری باری اسے سیر کرائیں گے لہٰذا سب بطخیں کشمائن کے پاس چلی گئی اور اسے کسی نہ کسی طرح منا کر سیر کو لے گئیں۔ کشمائن سیر کر کے بہت خوش ہوئی کیوں کہ گھر پر وہ سوتیلی ماں کی طعنوں سے تنگ آگئی تھی اب یہ روز کا معمول بن گیا وہ ہر روز بطخوں کے ساتھ سیر کو جاتی اور اسے دل کا حال سناتی ،جس سے اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہوجاتا اور وہ پر سکون ہوجاتی ایک دن سیر کرتے کرتے وہ جنگل میں نکل آئے اس نے نیلی سے پوچھا یہ کون سی جگہ ہے تو نیلی نے کہا کہ اب ہم جنگل میں آچکے ہیں وہ بہت پریشان ہوگئی اور کہا کہ ارے بطخوں چلو بھاگ کر مجھے لے جائو کیوں کہ جنگل بہت خطرناک ہوتا ہے، یہاں ضرور جن اور بھوت بھی ہوں گے۔ بطخوں نے یک زبان ہوکر کہا،’’ پیاری کشمائن ڈرو نہیں ہم ہر صورت میں آپ کی حفاظت کریں گے۔ آج ہم اس لیے جنگل میں نکل آئے، تاکہ ہمیں بھی کوئی ایسا بزرگ مل جائے جو کہانی میں شہزادی کو مل جاتا ہے تاکہ وہ آپ کی آنکھوں کا علاج کرسکے وہ سب باتیں کررہی تھیں جب اچانک درخت کی اوٹ سے ایک بوڑھی عورت نکلی ،جسے دیکھ کر بطخوں کی جان نکل گئی بوڑھی عورت نے کہا ڈرو نہیں بطخوں میں تمہیں علاج بتانے آئی ہوں وہ اس طرح کہ صبح سویرے میرے پاس آنا میں تجھے پہاڑ کا راستہ بتادوں گی۔ وہاں پہاڑ پر انگور کی بہت بڑی بیل ہوگی ایک دانہ انگور لڑکی کو کھلا دو انشاء اللہ ٹھیک ہوجائے گی۔‘‘’’ بطخوں نے کہا کہ نہیں بوڑھی اماں ہم گھر نہیں جاسکتیں کیوں کہ اگر ان کی سوتیلی ماں کو پتہ چل گیا تو وہ ہمیںکبھی بھی آنے نہیں دے گی۔‘‘ بوڑھی عورت نے کہا ،پھر ایسا کرو میرے گھر میں رات گزار لو کل صبح ہم سب جائیں گے۔

صبح وہ سب پہاڑ پر پہنچ گئیں۔بوڑھی عورت نے آگے بڑھ کر انگور کا ایک دانہ توڑ لیا اور کشمائن کے منہ میں ڈال دیا انگور کھاتے ہی لڑکی کی آنکھیں روشن ہوگئیں ۔لڑکی بوڑھی عورت اور بطخوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی، مگر پھر اچانک اداس ہوکر رونے لگی بوڑھی عورت نے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ اب وہ گھر کیسے جائے گی کیوں کہ سوتیلی ماں اسے بہت مارے گی کہ تم نے رات کہاں گزاری۔ بوڑھی عورت نے کہا پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں تم سب میرے ساتھ چلو میں تمہیں اپنے محل میں رہنے کے لیے جگہ دوں گی میری کوئی اولاد نہیں ہے۔ اس طرح تم میری بیٹی بن کے رہو گی ۔‘‘لڑکی نے کہا کہ آپ تو جنگل میں رہتی ہیں وہاں تو کوئی محل نہیں تھا ۔‘‘بوڑھی عورت نے کہا کہ میں دراصل ایک پری ہوں اور دکھی انسانیت کی مدد کرتی ہوں اور یہ دیکھو میرا اصل روپ، یہ کہتے ہی وہ بوڑھی عورت سے ایک خوب صورت پری بن گئی لڑکی اور بطخیں یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئی وہ سب پری کے ساتھ چل دیں اور محل میں ہنسی خوشی رہنے لگے۔