عذر کے سبب وضو قائم نہ رہنے کی صورت میں عبادات کی ادائیگی کا حکم

July 12, 2019

تفہیم المسائل

سوال: ایسا شخص جس کا وضو کسی سبب قائم نہیں رہتا ، طواف کرتے ہوئے اگراُ س کا وضو ٹوٹ جائے تو کیا وہ طواف اور سعی مکمل کرسکتا ہے ؟اسی طرح حرم شریف میں نمازِ جمعہ میں کافی دیر بیٹھنا پڑتا ہے ،اس قدر ہجوم میں وہاں سے اٹھ کر وضو خانہ تک پہنچنا ممکن نہیں ہوتا ،اگر نماز شروع ہونے سے پہلے وضو ٹوٹ جائے تو کیا اسی طرح نماز ادا کرلی جائے ؟ دوبارہ وضو کرنے کی صورت میں بھی بیت اللہ یا مقامِ سعی تک پہنچنے کے دوران دوبارہ وضو ٹوٹنے کا امکان ہے۔اس بارے میں کیا حکم ہے؟ (محمد عبدالسمیع ، کراچی)

جواب:ایسا شخص جس کو کوئی ایسی بیماری ہے جس سے وضو قائم نہ رہ سکے،مثلاً پیشاب کے قطرے آنے کا مرض ،ریح(ہوا )خارج ہونا ،دکھتی آنکھ سے پانی بہنا ،پھوڑے یا ناسور سے رطوبت یا پیپ بہنا ،کان ،ناف،پستان سے بیماری کی وجہ سے پانی بہنا وغیرہ۔ فقہی اصطلاح میں ایسے شخص کو ’’شرعی معذور ‘‘ کہاجاتا ہے،بشرطیکہ وہ اتنی دیر تک اپنا وضو قائم رکھنے پر قادر نہ ہو کہ ایک وقت کی پوری نماز پڑھ لے ،تو باربار عذر لاحق ہونے کی وجہ سے اُسے شرعاً یہ رخصت دی گئی ہے کہ وہ ایک وقت کی نماز کے لئے تازہ وضو کرے اور اس میں وضو ٹوٹنے کے باوجود اُس وقت کے فرض ،واجب ،سنّت کے علاوہ قضا نماز،نوافل اور تلاوت ،غرض جو عبادات ادا کرنا چاہے، کرلے اورجب دوسری نماز کا وقت آئے تو پھر تازہ وضو کرکے اسی طرح پڑھے ۔علامہ نظام الدینؒ لکھتے ہیں: ’’مستحاضہ (یعنی وہ خاتون جسے سیلان الرحم کی بیماری لاحق ہے) اور جسے پیشاب کے قطرے آتے ہوںیامسلسل دست کی بیماری ہو یا ریح خارج ہوتی ہو یا دائمی نکسیر جاری ہو یا زخم جومسلسل رِستا رہتا ہو،تو ایسے معذور ہر نماز کے وقت کے لئے تازہ وضو کریں اور اُس وقت کے اندر فرائض ونوافل جس قدر چاہیں اُسی وضو سے ادا کریں ،جیسا کہ ’’البحرالرائق ‘‘ میں ہے ‘‘۔ مزید لکھتے ہیں :ترجمہ:’’دائمی معذور کا وضو فرض نماز کا وقت نکل جانے سے ٹوٹ جاتا ہے،جیسا کہ ’’ھدایہ‘‘ میں ہے ‘‘۔یعنی اگلے وقت کی نماز کے لئے تازہ وضوکرنا ہوگا ۔علامہ نظام الدین ؒ معذور کے حج وعمرہ کی سعی کے بارے میںلکھتے ہیں:ترجمہ:’’ اور اگر حیض ونفاس والی عورت اور جنبی شخص(یعنی جس پر غسل واجب ہو ) سعی کریں، تو (ان کا سعی کرنا) صحیح ہے (یعنی سعی کے لئے طہارت شرط نہیں) ، (فتاویٰ عالمگیری، جلداول،ص:41، ص:247)‘‘۔

علامہ امجد علی اعظمی ’’منسک‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں :’’معذور طواف کررہا ہے چار پھیروں کے بعد وقتِ نماز جاتا رہا تو اب اسے حکم ہے کہ وضو کرکے طواف کرے کیونکہ وقت نماز خارج ہونے سے معذور کا وضو جاتا رہتا ہے اور بغیر وضو طواف حرام، اب وضو کرنے کے بعدجو باقی ہے پورا کرے اور چار پھیروں سے پہلے وقت ختم ہوگیا ،تب بھی وضو کرکے باقی کو پورا کرے اور افضل یہ ہے کہ نئے سرے سے کرے ،(بہارِ شریعت ،جلد اول ،ص:469)‘‘۔

معذور شخص کے طواف کے دوران اُس نماز کا وقت نکل گیا تو وہ دوبارہ وضو کر کے طواف کے بقیہ پھیرے مکمل کر ے گا ،علامہ شیخ احمد طحطاویؒ معذور کے شرعی احکام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:ترجمہ:’’ جسے پیشاب کے قطرے آتے ہوںیا دست کی بیماری ہو یا ریح خارج ہوتی ہو یا نکسیر جاری ہو یا زخم مسلسل رِستا رہتا ہو، اور باوجود کوشش کے روکنا ممکن نہ ہو اور اُس عذر کی وجہ سے نہ بیٹھ کر نماز ادا کرسکتاہو اور نہ ہی کھڑے ہوکر، تو ایسے عذر والے ہر نماز کے وقت میں ایک بار تازہ وضو کریںاور جب تک اس نماز کا وقت باقی ہے ، فرائض ونوافل جس قدر چاہیں اُسی وضو سے ادا کریں ۔رسول اللہ ﷺ کا فرمان مبارک ہے :’’مستحاضہ ہر نماز کے وقت میں تازہ وضو کرے ‘‘۔اس حدیث کوسبط ابن جوزی نے حضرت ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے روایت کیا ،پس تمام عذر والے مستحاضہ کے حکم میں ہیں اور یہ دلیل سب کو شامل ہے اور وہ اُس وضو سے جس قدر چاہیں (فرض)نماز پڑھیں ،وقت کی ادا یا قضانمازاور اگر زمانۂ صحت کی کوئی نماز اُس کی قضا ہوگئی تھی تو وہ بھی ادا کرسکتا ہے، اس کے علاوہ جس قدر چاہے نوافل اور واجبات اسی وضو سے ادا کرسکتے ہیں ،مثلاً وتر ،عید کی نماز ،نمازِ جنازہ اور طواف اور مُصحف (قرآن مجید )کو چھونا ،(حاشیۃ الطحطاوی علیٰ مراقی الفلاح ،جلداول،ص:212،213)‘‘۔