تعلیم میں ’’دو زبانوں‘‘ کی اہمیت

July 14, 2019

اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اپنی مادری زبان میںتعلیم حاصل کرنے کے بہتر اور دیر پا نتائج سامنے آتے ہیں کیونکہ بچے کو سمجھ آنا چاہیے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے۔ دراصل ہمیں تعلیم اور ابتدائی تعلیم کے فرق کو سمجھنا ہوگا۔ ابتدائی تعلیم میںزبان کی اہمیت کو کئی بار پہلے بھی تسلیم کیا جاچکاہے، لیکن سوال یہ ہے کہ صرف مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے سے کیا کیریئر کے مواقع بآسانی حاصل ہو سکتے ہیںیا نہیں؟

اس ضمن میںایک نجی یونیورسٹی کے سابق ڈین انجم الطاف کہتے ہیں کہ کیریئر کے فیصلے کے جی یا نرسری میںنہیںکیے جاسکتے بلکہ اس فیصلہ کے پیچھے قابلیت کارفرما ہوتی ہے اور اس کا پتہ پرائمری کے بعد ہی چلتاہے۔ اس کی مثال یوںلیجئے کہ علامہ اقبال یا ڈاکٹر عبدالسلام کو اپنی ابتدائی تعلیم کے دوران نہیںپتہ تھا کہ وہ مستقبل میںکیا بنیںگے اور نہ ہی انہوں نے انگریزی زبان میںاپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔ اگر انہوں نے انگریزی زبان میںتعلیم حاصل کی ہوتی تو ہوسکتاہے کہ وہ کسی برٹش کمپنی میںسینئر آفیسر یا کلرک بن کر ریٹائرڈ ہو جاتے۔

1835ء میں اعلیٰ ملازمتوں کے حصول کیلئے ہندوستانی اشرافیہ نے اپنے لئے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنایاتو انگریزی میڈیم کی مانگ میںزبردست اضافہ دیکھنےمیںآیا۔ لیکن 1904ء میںبرطانیہ نے اس پالیسی کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ سیکنڈری اسکولوںپر وقت سے پہلے انگریزی میں تعلیم دینے کاتھوڑا دبائو ہوتاہے۔

عمومی اصول ہے کہ بچے کو انگریزی کو بطورزبان اس وقت تک سیکھنے کی اجازت نہیںہونی چاہئے جب تک وہ اپنی ابتدائی تعلیم میں بہتری نہ لے آئے اور اپنی مادری زبان پر مکمل عبور حاصل نہ کرلے۔ برٹش کونسل کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق مقامی زبانو ں کی جانب منفی رویّوںاور انگریزی اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کے انتہائی بدتر نتائج سامنے آسکتے ہیں، اسی کی وجہ سے بچوں کے اسکول چھوڑنے کی شرحمیں اضافہ اور تعلیمی میدان میںکامیابیوں میںکمی جیسے مسائل سامنے آئے۔ یہ تحقیق اس نتیجے پر پہنچی کہ ابتدائی تعلیم میں مادری زبان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔

ایک مثال چین کی بھی ہےکہ جس نے ابتدائی تعلیم میں انگریزی زبان کی شمولیت کے بغیر شاندار ترقی کی جبکہ ہم ابتدائی تعلیم میں انگریزی کو شامل کرکے بھی پیچھے رہ گئے۔ مزید یہ کہ جن چینی افرادکو اپنے کیریئر کیلئے انگریزی زبان کی قابلیت درکار ہوتی ہے، وہ بھی اس پر عبور حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور ترقی کی منزلیں چڑھتے چلے جاتے ہیں۔

اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ انگریزی زبان پر عبور حاصل کرنا ہے تو لازمی نہیںکہ ابتدائی تعلیم انگریز ی زبان میں حاصل کی جائے کیونکہ ایسا کرنے سے سیکھنے اور سمجھنے کا عمل متاثر ہونے کا خدشہ ہوتاہے۔

2014ءسے 2016ء تک کیے گئے ایک مطالعہ ’’دوزبانو ںکی مشغولیت کے اثرات ‘‘ کے تحت یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ بچے جو ابتدا ہی سے دو زبانیںسیکھ رہے ہوتے ہیںیا انہیںمشغول ہونا پڑتا ہے، شروع کی کلاسوں میںتو ان کے نمبر اوسط سے کم آتے ہیں، لیکن جیسے جیسے وہ اس میں مصروف رہتے ہیں، ان کے نمبرز اچھے آنے شروع ہوجاتے ہیں اور وہ دونوں زبانوںکو ان کے مزاج کے مطابق استعمال کرنے لگتے ہیں اورہائی اسکول تک پہنچتے پہنچتے ان میںمہارت حاصل کرلیتے ہیں۔

دو زبانیں سیکھنے پر آپ تنقید کریںیا حوصلہ افزائی لیکن یہ حقیقت ہے کہ دنیا اب ایک سے زائد زبانیںسیکھنے اور ان کے فوائد کی معترف نظرآتی ہے اور اس کیلئے بچپن ہی سے اقدامات کیے جانے ضروری ہیں۔ خود پر غور کیجئے کہ آپ قرآن کی کوئی بھی سورۃ بچپن میںبآسانی یاد کرلیتے تھے، جو بڑے ہو کر آپ بمشکل یاد کرپاتے ہیں۔ دراصل بچپن میں دماغ تیزی سے کام کرتاہے اور بچہ جلدی سیکھ رہا ہوتاہے، اس لئے وہ انگریزی، عربی، اردو یا سندھی بآسانی سیکھ لیتاہے۔ اسی لیے اگر آپ اپنے بچے کی ابتدائی تعلیم میںا س کے انگریزی میںنمبر لانے سے پریشان ہیںتو فکر مت کریں بلکہ اس کی مدد اور رہنمائی کریں۔ وقت کےساتھ ساتھ وہ ہر زبان اور مضمون میںبہتر سے بہتر ہوتا چلاجائے گاکیونکہ ایک تحقیق کے مطابق وہ طلباجو بھلے انگریزی زبان روانی سے نہ بول سکیں، وہ بھی سیکھنے کے عمل میں تیز تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔

کیلیفورنیا کی ایجوکیشنلٹیسٹنگ سروس اور کیلیفورنیا یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق کے مطابق وہ تارکین وطن بچے جو انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ اپنی مادری زبان میںپڑھنا اور لکھنا جانتے ہیں، انہیں زائد زبانوں پر دسترس کی وجہ سے لیبر مارکیٹ میں زیادہ فائدہ ہوتا ہےاور جو بچے صرف انگریزی جانتے ہیں اور اپنی مادری زبان بھو ل چکے ہیں ، انہیں سالانہ دو سے پانچ ہزار ڈالر کا خسارہ ہوتاہے۔

آخر میںہم یہی کہیں گے کہ بچوںکی زیادہ زبانیںسیکھنے کی قابلیت ابتدا ہی سے پتہ چل جاتی ہے، اگر آپ کا بچہ انگریزی اور اردو زبان روانی سے بولتا، پڑھتا اور لکھتا ہے تو اسے تیسری زبان سیکھنے کی جانب راغب کریں،کیونکہ یہی وقت ہے جب بچے کا ذہن اپنے سیکھنے کے عمل کے عروج پر ہوتاہے۔