’’اگر مگر کا کھیل ‘‘…

July 17, 2019

تحریر:سید علی جیلانی
آخرکار کرکٹ ورلڈکپ کا اختتام ہوا اور انگلینڈ نے ایک سنسنی خیز مقابلہ کے بعد نیوزی لینڈ کو شکست دی اور انگلینڈ کی یہ خواہش بھی پوری ہوئی کہ ہم اپنے ہوم گرائونڈ میںکرکٹ ورلڈکپ کرارہے ہیں تو ورلڈکپ ہمیںجتنا چاہئے۔ پاکستان کی کرکٹٹیم کا ورلڈکپ جیتنے کا خواب ادھورا رہ گیا لیکن دیکھا جائے تو پاکستانی ٹیم نے ورلڈکپ کو سیریز ہی نہیں لیا اور ٹیموں نے اتنے سالوں پہلے ورلڈکپ کی تیاری شروع کردی تھی اور اپنی اپنی ٹیموں کو بیٹنگ، فیلڈنگ اور بولنگ کے شعبے میںبہتر کیا، نیوزی لینڈ کی مثال لے لیں کہ کتنی خوبصورت محتاط انداز سے بیٹنگ، بہت ہی اچھی بولنگ اور فیلڈنگ پیش کرکے دوسری ٹیموں کے لئے مثالی نمونہ پیش کیا ہماری ٹیم کو دیکھیں توسیلیکشن کمیٹی نے پہلے تو عامر اور وہاب کو لے جانا ہی گوارا نہیںکیا پھر شاہین آفریدی کے ساتھ کیا سلوک کیا لیکن یہ ہی تینوں بولروں نے تمام ٹیموںکے چھکے چھڑا دیئے۔ فخرالزمان کو دیکھ لیں غیرضروری بولوں کو کھیل کر ہمیشہ پویلین جانے کی جلدی رہی اور حیرت اس بات پر تھی کہ اسکو بار بار میچ کھلائے جارہے ہیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی چچا ماموں یا رشتے دار ہے بہت ہی پاور والا جو اسکو ٹیم سے نکلنے نہیںدے رہا اگر ہمارے اوپنر ہمیشہ 10اوور سکون سے اور غیرضروری بالوں کو چوڑ کر کھیل لیتے اور سرفراز صاحب خود ذرا اوپر آکر کھیلتے اور صحیح کیپٹن ہونے کا ثبوت دیتے تو آج یہ ٹرافی ہمارے ملک آتی، سرفراز کا تو یہ لگ رہا تھا کہ وہ بیٹنگ کے لئے آنا ہی نہیںچاہ رہے ہیں اور دوسرے بیٹسمینوںکو بھیجے جارہے ہیں اور جب بیچارے سرفراز کو مجبوراً آنا پڑا تو کارکردگی صفر۔ خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں بابراعظم کو جو ہمیشہ مشکل وقت میں آیا اور بالکل نہیںگھبرایا اور سکون سے بہترین اور قابل دید اسٹروک کھیلے تمام ورلڈکپ کے تبصرے نگار اس کی بے انتہا تعریف کررہے ہیں اسی طرحتمام کھلاڑیوں کو اپنی ذمہ داریاںپوری کرنی چاہیں تھیں۔ ہماری ٹیم تو بس اسی آسرے پر رہی کہ قوم دعا کررہی ہے اور سارا کھیل 92ورلڈکپ جیس ہورہا ہے تو انشاء اللہ ورلڈکپ بھی ہمارا ہوگا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اپنی کارکردگی بہتر کرنے کے بجائے یا رنز ریٹ بہتر کرنے کے بجائے ’’اگر مگر کے کھیل‘‘ میںالجھ گئے کہ اگر بھارت انگلینڈ کو ہرا دے تو ہم ڈائریکٹ ورلڈکپ کے سیمی فائنل میں پہنچ جائیں، ہمیں سارے میچ جیتنے ہونگے پھر جو کارکردگی افغانستان کے خلاف دکھائی بس ایسا لگتا تھا کہ اسپن بولر کو تو ہمارے کھلاڑی کھیل ہی نہیںسکتے پھر جب بھارت انگلینڈ سے ہارا تو بات سننے میںآئی کہ بھارت جان بوجھ کر ہارا ہے تاکہ پاکستان سیمی فائنل میں نہ پہنچ سکے یہ بھی کہا گیا کہ یہ 2009ء چیمپئن ٹرافی کا بدلہ ہے تمام ماہرین یہ کہتے رہے کہ بھارت اپنی صلاحیتوں کے مطابق نہیںکھیلا پھر پوزیشن یہ آگئی کہ پاکستان پہلے بیٹنگ کرے اور بنگال ٹائیگر کو 300سے زائد رنز سے شکست دینا ہوگی اور بولنگ کرتا ہے تو بنگلہ دیش کو 38رنز پر آئوٹ کرنا ہے جو کہ ناممکن بات تھی اس طرح ’’اگر مگرکا کھیل‘‘ کے چکر میں پاکستانی ٹیم کا ورلڈکپ جیتنے کا خواب چکنا چور ہوگیا۔ لیکن بعد میں کیا سوچنا جب ’’چڑیاں چک گئیں کھیت‘‘ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ہمیشہ معجزات کے انتظار میںپڑ جاتے ہیں اور کوئی پلاننگ نہیںکرتے، دعا جب ہی کام کرتی ہے جب آپ محنت کرو اگر ہم ہمیشہ اسی انتظار میںرہیں کہ کوئی نہ کوئی معجزہ ہمیںورلڈکپ جتوادے گا تو ایسا ممکن نہیںہوتا جس طرح اگر کوئی بچہ کلاس میںہو اور امتحان کا وقت قریب آجائے اور وہ کتابوں کو نہ کھولے بس یہ انتظار کرے کہ ماںباپ دعا کررہے ہیں اور میںپاس ہوجائونگا۔اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ بھارت جان بوجھ کر انگلینڈ سے ہارا ہے اور بھارت یہ چاہتا تھا کہ ہم سیمی فائنل میں نہ پہنچیں۔ لیکن پاکستانی ٹیم نے اگر رن ریٹ شروع سے اچھا رکھا ہوتا اور ویسٹانڈیز کے خلاف میچ نہ ہارتے آج ہم سیمی فائنل میں کھیلتے اور کیا پتہ ورلڈکپ بھی جیت کر آجاتے۔ اگر کوئی بھی انسان کسی بھی امتحان میںفیل ہوجاتا ہے تو پھر پہلے سے زیادہ محنت کرتا ہے اب ہمیں سرجوڑ کر بیٹھنا ہے اور عمران خان سے بھی گزارش ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدیداران کے ساتھ میٹنگ کریںاگر سلیکشن کمیٹی میںصلاحیت نہیںہے تو باصلاحیت لوگوںکو آگے لائیں سارے فیصلے صرف اور صرف میرٹ پر کریں پورے ملک سے اچھے سے اچھے کھلاڑی تلاش کریںایسے سیلیکٹر اور کھلاڑی تلاش کریںجو وطن کی عزت و عظمت کا سوچیں مطلب پرست، چاپلوسی کرنے والے لوگ، سفارشی لوگوں کو فارغ کریں۔ اب ہمارے سامنے اگلے سال T20کا ورلڈکپ ہے اسکی ابھی سے پلاننگ کریں یہ سوچیں کہ ورلڈکپ 2019ء میں ہم نے کہاںکہاں غلطیاں کی ہیںان کو بہتر کریں۔ تجربہ کار کھلاڑیوں سے فائدہ اٹھائیں ہم تو وہ قوم ہیں کہ ڈاکٹر علامہ اقبال خواب دیکھتے ہیںاور قائداعظم محمد علی جناح ہمارے لئے ایک الگ وطن بنادیتے ہیں لیکن صرف محنت اور جدوجہد سے۔ اب ہمیں آئندہ کبھی بھی ’’اگر مگر کے کھیل‘‘ میں نہیں پڑنا کہ فلاںٹیم فلاںٹیم سے ہار جائے تو ہم سیمی فائنل میںپہنچ جائیں گے، آپ نے دیکھا کہ ہم نے آخر کے میچ جان لڑا کر محنت کرکے جیتے تو کیا ہم اگر شروع ہی سے اس طرح سوچتے تو کیا اپنا مقصد نہیںحاصل کرسکتے تھے۔ T20کے لئے ایسے کھلاڑی چاہیں جوکہ بولروں سے نہ گھبرائیں سوچ سمجھ کر اور اپنی ذمہ داری کو سمجھ کر کھیلیں، کیا ہمارے کھلاڑی نہیں چاہتے کہ جب ہم وطن لوٹیں تو قوم ہمارے اوپر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرے نہ کہ ہمارا استقبال ٹماٹروں سے ہو یا ہمیں برابھلا کہا جائے یا ہمیں رات کے اندھیرے میںآنا پڑے یہ فیصلہ ہم کھلاڑیوں پر چھوڑتے ہیں۔