اسٹیٹ بینک آف پاکستان میوزیم اور آرٹ گیلری

July 18, 2019

محمد اسلم

پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور معاشی مرکز کراچی میں اپنی نوعیت کے ایک منفرد عجائب گھر بھی ہے، جس کا موضوع دنیا اور بالخصوص پاکستان کی مالیاتی تاریخ ہے۔یہ میوزیم کبھی امپرئیل بینک آف انڈیا کی بلڈنگ ہوا کرتاتھا ،مگر اب یہ برصغیر کے آثار قدیمہ کے خزانے کا گھر ہے، آئی آئی چندریگر روڈ پر بلند و بالا عمارات کے درمیان بھورے پتھروں سے بنی اسٹیٹ بینک میوزیم کی سربلند عمارت ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان میوزیم اینڈ آرٹ گیلری کی یہ عمارت 1920ء میں برطانوی دورِحکومت میںتعمیر کی گئی۔ اس کی تعمیر میں جودھ پوری سرخ پتھر کا شاندار استعمال کیا گیا ہے،جب کہ طرزِ تعمیر رومی و یونانی ہے۔ موجودہ نام اور تزئین و آرائش2004ء میں کی گئی، جبکہ2006ء میں اسے محفوظ ورثہ قرار دیتے ہوئے پاکستان کے اولین اور واحد منی مانیٹرنگ میوزیم اور آرٹ گیلری کی حیثیت دے دی گئی ہے۔ یہاں موجود تاریخی نگینوں کو اب تک متعدد افراد نے نہیں دیکھا ہوگا۔

بینک 'اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے قائم کردہ اس میوزیم میں دنیا میں لین دین کے رائج مختلف طریقے، تاریخ کے مختلف ادوار میں دنیا کے مختلف علاقوں میں استعمال ہونے والے سکے، پاکستان کی کرنسی، سکوں کی ڈھلائی اور نوٹوں کی چھپائی کے مختلف طریقہ کار یاد گار کی صورت میں موجود ہیں۔کراچی میں واقع اسٹیٹ بینک کی سابقہ اور تاریخی عمارت میں قائم کردہ اس میوزیم کا حسنِ انتظام دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ جدید و قدیم کے خوب صورت امتزاج کے حامل اس عجائب گھر میں، جہاں نہ صرف پاکستان کی مالیاتی تاریخ محفوظ کردی گئی ہے، بلکہ یہ میوزیم دنیا میں مالیاتی نظام کی بتدریج ترقی کی داستان بھی سناتا نظر آتا ہے۔

عجائب گھر مرکزی ہال کے علاوہ کل آٹھ گیلریوں پر مشتمل ہے، جبکہ یہاں ایک منی تھیٹر بھی قائم کیا گیا ہے، جس میں سکوں کی تیاری، کرنسی نوٹوں کی چھپائی کے طریقہ کار اور اسٹیٹ بینک کی تاریخ سمیت کئی دیگر موضوعات پر یہاں آنے والے افراد کی رہنمائی کے لیے صوتی و بصری مواد موجود ہے۔

زمانہ قدیم کی باقیات کے دور کا آغاز سکوں کی شاندار کلیکشن سے ہوتا ہے۔عجائب گھر میں سکِّوں کی دو علیحدہ علیحدہ گیلریاں قائم کی گئی ہیں، جن میں سے ایک گیلری زمانہ قبل از اسلام کی ہے ،جس میں 2500ء قبلِ مسیح سے 800ء عیسوی تک کے سکے اور دیگر مالیاتی اوزان نمائش کے لیے رکھے گئے۔ یہاں سکندرِ اعظم کے دور کے سکّے بھی موجود ہیں۔دوسری گیلری میں موجود سکے مختلف عباسی و اموی خلفاء، دیگر مسلم عرب حکمرانوں اور برِصغیر اور افغانستان کے مسلم بادشاہوں، ریاستوں، ایسٹ انڈیا کمپنی اور پھر پاکستان میں ڈھلنے والے سکوں پر مشتمل ہے۔ اس گیلری میں سکوں کی تیاری کے مختلف مراحل کی عکاسی بھی کی گئی ہے ۔

اس زمانے کے سکے بھی ہیں جب چاندی کے ناہموار شکل میں چلتے تھے، ان کا وزن یکساں ہوتا تھا اور ان پر کندہ کاری بہت سادہ مگر علامتی تصورات یعنی جانوروں سے لے کر فطرت کے مختلف عناصر پر مشتمل ہوتی تھی۔ان سکوں میں یونانی دیومالا ئی شخصیات کو بھی پیش کیا گیا ہے ،جیسے ہرکولیس کا سر سکے کے سامنے جبکہ یونانی دیوتا زیوس پیچھے کی جانب کندہ ہے۔معمول کی کرنسیوں کے ساتھ ساتھ یہاں سکندر کی جانب سے بادشاہ پورس کے خلاف ' جہلم کی عظیم جنگ میں کامیابی کے بعد جاری ہونے والے نایاب یادگاری سکے بھی میوزیم کا حصہ ہیں جو بادشاہ کی سب سے بڑی جنگ کی یادگار ہیں۔تمام مغل شہنشاؤں میں اکبر کے عہد کے سکے اپنے ڈیزائن کی بدولت سب سے الگ نظر آتے ہیں۔ شیرشاہ سوری کے عہد میں جاری ہونے والا سکہ مکمل گول ہے، جس کے ایک طرف ستارہ داؤدی کندہ ہوا ہے۔

میوزیم کا میزنائن فلور صادقین کے چار شاندار دیواری نقاشی کے نمونوں سے بھرا ہوا ہے ۔ یہاں برٹش انڈیا اور پاکستان کے اعلیٰ سول و فوجی اعزازات بھی نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔عجائب گھر میں موجود ایک گیلری پاکستان میں مختلف ادووار میں جاری کیے گئے کرنسی نوٹوں کے لیے مخصوص ہے، جہاں دنیا میں کرنسی نوٹوں کے ارتقاء کی تاریخ بھی محفوظ کی گئی ہے۔ اس گیلری میں برطانوی ہند اور دیگر خطوں کے کرنسی نوٹ بھی موجود ہیں۔

ایک گیلری اسٹیٹ بینک کے سابق گورنروں کے نام سے منسوب ہے، جسے ملک کے مرکزی بینک کے 1948 سے لے کر 2010ء تک رہنے والے 16 سابق گورنرز کی تصاویر، ان کے شخصی خاکوں اور ان کے دورکے اہم مواقع کی تصاویر سے مزین کیا گیا ہے۔ اس گیلری میں اسٹیٹ بینک کے پہلے گورنر زاہد حسین کے زیرِاستعمال رہنے والا دفتری فرنیچر اور ٹیلی فون بھی نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔

عجائب گھر کی ایک اور گیلری 'اسٹیٹ بینک کی 63 سالہ تاریخ بیان کرتی ہے ،جہاں ملک کے مرکزی بینک کے قیام، اس کے ارتقاء اور اس کی تاریخ کے اہم مواقع سے متعلق تصاویر اور دستاویزات نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔ یہاں اسٹیٹ بینک کا پہلا کھاتہ رجسٹر اور بانی پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کا دستخط شدہ پہلا چیک اور اکائونٹ اوپننگ فارم بھی موجود ہے۔

میوزیم میں قائم ایک خصوصی گیلری کو پاکستان میں گزشتہ 64 برسوں میں شائع کیے جانے والے ڈاک ٹکٹوں کے لیے مخصوص کیا گیا ہے، جہاں خصوصی مواقع پر جاری کیے جانے والے کئی اہم اور یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی موجود ہیں۔

میوزیم کی ایک گیلری کو ملک کے معروف مصور اور خطاط صادقین کے نام سے منسوب کیا گیا ہے جہاں ان کے وہ چار فن پارے موجود ہیں جنہیں صادقین نے 60ء کی دہائی میں اسٹیٹ بینک کی فرمائش پر بینک کی عمارت میں ہی تخلیق کیا تھا۔ ان فن پاروں میں صادقین کا شہرہ آفاق 'ٹریژرز آف ٹائم نامی 60فٹ طویل اور 8 فٹ بلند وہ میورل بھی شامل ہے جس پر تاریخِ عالم کے عظیم ترین فلسفیوں اور سائنسدانوں کی شبیہیں بنائی گئی ہیں۔

میوزیم میں ایک آرٹ گیلری بھی قائم کی گئی ہے ،جہاں نوجوان مصوروں کے فن پاروں کی نمائش کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

عجائب گھر میں کئی دیگر اہم اور دلچسپ چیزیں بھی نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں جن میں 1988ء میں نصب کی جانے والی پاکستان کی پہلی اے ٹی ایم مشین، سادہ کاغذ کو کرنسی نوٹ میں تبدیل کرنے والا اسٹیٹ بینک کا پہلا چھاپہ خانہ، سکے ڈھالنے کی قدیم مشین اور کرنسی نوٹوں کی چھپائی کے لیے استعمال کی جانے والی نِکل کی پلیٹیں شامل ہیں۔