عمران حکومت کا ایک سال اور حالات حاضرہ

July 18, 2019

ماہ اگست آنے کو ہے۔ تاریخ پاکستان کے حوالے سے یہ سال کا سب سے اہم مہینہ ہے۔ ملکی حالات حاضرہ میں اس کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ گئی ہے کہ 2008ء سے شروع ہونے والے گیارہ سالہ جمہوری دور حکومت کی تیسری منتخب عمران حکومت کا ایک سال مکمل ہو جائے گا۔ میڈیا اس حکومت کا پرفارمنس آڈٹ آنے والے ماہ میں کرے گی۔ اپوزیشن اسے ملکی تاریخ کا بدتر دور ثابت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑے گی اور حکومت نے بھی ثابت کرنا ہے کہ وہ کس طرح اسٹیٹس کو کی سابقہ حکومتوں کے برعکس پاکستان میں تبدیلی کے ابتدائی اقدامات لینے والی حکومت ہے اور اس نے اپنے پہلے ہی سال میں کچھ ایسا کیا ہے جو پہلے نہیں ہوا۔ موجودہ ملکی حالات حاضرہ میں بڑھتا احتسابی عمل غالب ہے، لیکن موجودہ حکومت اس کا کریڈٹ بطور اپوزیشن تو لے سکتی ہے کہ اس نے پانامہ لیکس کے بعد اس ناممکن کو ممکن بنانے میں سب سے اہم کردار ادا کیا ہے لیکن یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ کیا حکومت میں آ کر بھی حکومت نے احتسابی عمل کو نتیجہ خیز بنانے میں کوئی کردار ادا کیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ احتساب کی جو گاڑی عمران خان نے بطور اپوزیشن لیڈر چوتھے گیئر میں ڈالی تھی، وہ ہی اب بھی چل رہی ہے بلکہ اس میں میڈیا، عدلیہ اور خود احتسابی عتاب میں آئی دونوں پاپولر جماعتوں ن لیگ اور پی پی کا بھی حصہ ہے، جنہوں نے اپنے اپنے دور حکومت میں ایک دوسرے کے خلاف سرکاری خزانے کی لوٹ مار کے الزامات پر مبنی نیب مقدمات تیار کئے تھے، جنہیں ’’میثاق جمہوریت‘‘ کے سچے جذبے سے ہر دو نے عشرہ جمہوریت میں دبائے رکھا، یہ پانامہ لیکس تھا جس نے ایسا نہ ہونے دیا۔ پھر عمران خان جس نے پیچھا کیا اور عدلیہ جس نے ماضی کی قیومی اور ڈوگری عدالتوں کے برعکس اپنا آئینی کردار ادا کرتے ہوئے فراہمی انصاف کے عمل کو احتساب جاریہ میں تبدیل کر دیا کہ مقدمات کی نوعیت اور تعداد ہی اتنی ہے کہ یہ احتسابی زیر عتاب کے سیاست دانوں کو اپنے ادوار میں ہی پانامہ لیکس، اسے لے کر چلنے والی اپوزیشن اور میڈیا کے دبائو سے شروع ہو کر عمران خان کے برسر اقتدار آنے تک جاری ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ عمران حکومت نے اپنے سے پہلی حکومتوں میں شروع ہونے والے احتسابی عمل کے تسلسل کو بڑھانے کے لئے عملاً خود تو کچھ بھی نہیں کیا، اب پکوڑوں، پاپڑ والوں اور قاصدین اور ذاتی ملازموں کے اکائونٹس سے کروڑوں اربوں کی آمد و رفت کا ریکارڈ نکل آئے تو آزاد عدلیہ کے ہوتے احتسابی عمل نے بڑھنا تو ہے۔

حالات حاضرہ کی خبروں میں صبح سے رات گئے تک میڈیا پر چھائے رہنے کی جو جگہ ویڈیو اسکینڈل اور اس کے فالواپ نے بنائی ہے، وہ بھی احتسابی عمل سے ہی متعلق ہے، مریم صاحبہ تو خاموش چچا کے شور مچاتے ابلاغ کے باوجود اپنے قدرتی جذبات کا کتھارسس کر بیٹھیں، انہیں ان کے میڈیا سیل نے سمجھایا ہی نہیں کہ جب ایسے اسکینڈل بریک ہوتے ہیں تو ان کا فالواپ بھی اتنا ہی نئے نئے انکشافات سے لدا پھندا ہوتا ہے، میڈیا منیجرز کا کام ہے اندازہ لگانا اور اس کے مطابق میڈیا میں آنا۔ کس کو معلوم تھا کہ متنازع ہو جانے والے جج صاحب کا برسوں پرانا تعلق ویڈیو پروڈیوسر اور نہ جانے ایسے ایسوں سے نکلے گا جن کا تعلق شریف خاندان سے نکلے گا۔ اور یہ کہ جج صاحب کو ان ہی کے دور میں (یہاں تک کہ ان کی سفارش پر) نیب میں تعینات کیا گیا۔ پھر ایک ٹی وی چینل کی یہ رپورٹ کہ اسکینڈل کے کردار میاں طارق اور اس کے دو بھائی برسوں سے ایک اور کافرانہ طرز کی کسی اور وڈیو سے متنازع ہو جانے والے جج صاحب کو بلیک میل کرتے آئے ہیں۔ اور یہ بھی کہ وہ اسمگلنگ اور منشیات فروشی کے دھندوں میں ملوث ہو کر غریب سے بہت امیر ہو گئے۔ غضب یہ کہ مبینہ طور پر قتل کے مرتکب بھی۔ گویا احتسابی عمل میں جو محنت قانونی دفاع پر ہونا چاہئے تھی، ن لیگ نے فالواپ کو بھول کر متنازع ویڈیو پبلک کر کے احتسابی عمل کو ہی حالات حاضرہ پر حاوی کر دیا ہے۔ ابھی تک کہیں یہ نہیں آ رہا کہ اس میں حکومت کا کوئی کردار ہے، ماسوائے اس کے کہ جج پر دبائو کا روایتی الزام، جو پورے احتسابی عمل کی خبروں سے کہیں ثابت ہوتا ہے نہ الزامات کے سچ ہونے کا یقین۔

اب جو حالات حاضرہ میں ہی عمران حکومت کی پرفارمنس کا کھاتہ کھلنے کو ہے، وہ تابڑ توڑ مہنگائی پر تو پہلے ہی کھلا ہوا ہے۔ گورننس کے حوالے سے بھی کتنے ہی سوال ہیں۔ اور پی پی اور ن لیگی رہنمائوں کے خلاف احتساب کا جو عمل خود ان کی حکومتوں میں آئینی اداروں کے کردار کی ادائیگی سے شروع ہو گیا، عمران حکومت اسی پر مطمئن کیوں؟ اس نے بھی خیبر پختونخوا پر پانچ سال حکومت کی، اناڑی پن اور نااہلیت تو معاف ہو سکتی ہے کہ یہ تو اب وفاقی حکومت کا بھی خاصا ہے، لیکن جو قصے کرپشن کے تحریک انصاف کی حکومت کے زبان زدعام ہیں ان کو احتسابی عمل میں لا کر اگلے ماہ اپنے پبلک پرفارمنس آڈٹ میں بہتر دفاع کی تیاری کیوں نہیں کرتی؟ نہیں کرتی تو یہ کوئی اور کرے گا، ابھی تو خود ن لیگ اور پی پی ہی میڈیا کو کچھ نہیں کرنے دے رہے۔ سو خالی خولی سیاسی ابلاغ سے ہی کام چلایا جا رہا۔

ہاں! عمران خانی حکومت کے پہلے سال میں وزارت خارجہ کو سرگرم ہی نہیں کرنے بلکہ بہترین اور جلد جلد حاصل ہونے والے نتائج اس حکومت کا بہترین ہتھیار ہوں گے۔ روسی قیادت کے عمران خان کی اہمیت اور حیثیت کو کھلے طور تسلیم کرنے کے نظارے پوری قوم نے ٹی وی پر دیکھے۔ اب دیکھئے دورہ امریکہ کیا رنگ دکھاتا ہے۔ امید تو بہتری کی ہی ہے بذات خود وزیر اعظم کو دورے کی دعوت اور وہ بھی ماسکو سے پینگیں بڑھنے کے بعد، خلیجی ممالک اور سعودی عرب کے باہمی اختلافات، ایران سے تجدید تعلقات کا ماحول بننے اور کرتار پور کے کمال سفارتی اقدام سے پاک بھارت مذاکرات کا دروازہ کھلنے، ملک ملک سے فوجی کمانڈروں کی آمد، برطانوی حکومت سے نئے معاہدے، افغانستان کی حکومت اور تمام جماعتوں میں ہی نہیں، امریکہ میں افغانستان کے امن میں پاکستان کے کردار اور قربانیوں کو تسلیم کرنے، عمران حکومت اور افواج کے شانہ بشانہ ہونے کی پرفارمنس ناقابل تقلید و تردید نہیں اور جو خان صاحب نے ملائشیا، ترکی، قطر، سعودی عرب اور خلیج میں چھوٹی چھوٹی خطائوں کے روزگار کے متلاشی سالوں اور مہینوں سے قید پاکستانی محنت کشوں کی رہائی کرائی یہ ان کی سچی عوام دوستی ہے جو ان کی پہلے سال کی پرفارمنس کا بہترین چیپڑ ہے۔ اور ٹیکس نظام میں اصلاح کے مشکل ترین اقدامات، ہائوسنگ پروجیکٹ اور بیروزگار نوجوانوں کو فراہمی روزگار کی قومی اسکیم بڑے فلاحی اقدامات ہیں لیکن ان کی حقیقت اور اصلیت کا اندازہ اقتدار کا دوسرا سال مکمل ہونے پر ہی ہو گا۔