پاک ہند تعلقات اور کرتار پور راہداری؟

July 18, 2019

گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے حال ہی میں گردوارہ دربار صاحب کرتار پور کا دورہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سال اکتوبر تک پاکستان کرتار پور راہداری منصوبہ مکمل کر لے گا۔ انہوں نے کہا ہے کہ میں دنیا بھر کے سکھوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ گردوارہ دربار صاحب کرتار پور میں بابا گورونانک دیو جی کی کاشت کردہ اراضی میں کسی قسم کی کٹوتی نہیں کی گئی ہے۔ بابا جی کے زیرِ کاشت اراضی 62ایکڑ تھی جسے جوں کا توں بحال رکھا جائے گا جبکہ تعمیرات کے لئے علیحدہ سے 42ایکڑ زمین مختص کی گئی ہے تاکہ اس میں سکھ یاتریوں کے لئے رہائش گاہوں اور لنگر خانوں کا بندوبست کیا جا سکے۔ تین بڑے لنگر خانے بنائے جا رہے ہیں جہاں سکھ بھائیوں کو کھانے اور آرام کی سہولتیں مہیا کی جائیں گی۔ یوں مجموعی طور پر دربار صاحب سے ملحق 104ایکڑ اراضی رکھی گئی ہے۔

بابا گورونانک دیو جی مہاراج کی زیرِ کاشت جس 62ایکڑ اراضی کی بات گورنر صاحب نے کی ہے اور دنیا بھر کے سکھ بھائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے جو خوشخبری سنائی ہے، واقعی بڑی خوش آئند اور باعثِ مسرت ہے۔ درویش کی تجویز ہے کہ اس 62ایکڑ اراضی کا بیشتر حصہ پھل دار درختوں اور باغات میں بدلتے ہوئے کچھ حصہ سبزیوں وغیرہ کی کاشت کے لئے مخصوص کر دیا جائے۔ آبپاشی کے لئے دربار صاحب کے ساتھ بابا جی کے زیر استعمال کنواں آج بھی جوں کا توں موجود ہے، اب وہاں ایک ٹیوب ویل لگا کر چالو کر دیا جائے تو نہ صرف باغات اور زیر کاشت رقبے کی آبپاشی بہتر طور پر ہو سکے گی بلکہ یہ پھل اور سبزیاں سکھ بھائیوں کے لئے سوغات کی طرح ہونگی۔ علاوہ ازیں اپنی رہائش گاہ کرتار پور سے اپنے تبلیغی مرکز ’’ڈیرہ بابا نانک‘‘ تک جو اس وقت ہندوستان میں ہے بابا جی کی سوانحی روایات کے مطابق آتے جاتے دریائے راوی کنارے میں بابا نانک جی اکثر و بیشتر اشنان کیا کرتے تھے، اب یہاں اس خاص مقام پر جو زبردست پُل تعمیر کیا جار ہا ہے کیا ہی بہتر ہو اگر اس کے ساتھ کوئی جھیل یا تالاب تعمیر کرتے ہوئے یا کچھ فوارے لگا کر سکھ بھائیوں کے لئے مقدس اشنان کا اہتمام بھی کر دیا جائے۔

اندازہ یہ ہے کہ یہ کوریڈور کھلنے کے بعد پانچ سے سات ہزار سکھ خواتین و حضرات کرتار پور یاترا پر روزانہ آیا کریں گے۔ جو یاتری ویزے کے ذریعے آئیں گے اُن کے لئے یہاں رہائش یا قیام کا اہتمام ہو گا اور جو ویزے کے بغیر آئیں گے وہ زیارت کے بعد اُسی روز واپس جانے کے پابند ہونگے۔ یہاں یہ امر خوش آئند ہے کہ کرتار پور ایشو پر پاکستان اور انڈیا کے مذاکرات کا دوسرا مرحلہ 14جولائی کو کامیابی سے مکمل ہو گیا ہے جس میں تقریباً 80فیصد معاملات طے پا گئے ہیں۔ بھارتی وفد میں وزارتِ خارجہ کے جوائنٹ سیکرٹری دیپک متل کے علاوہ اسلام آباد میں ڈپٹی ہائی کمشنر گورو آہلو والیہ اور ہیڈ آف پولیٹکل افیئر رانا چیئرالنگ ایلانگ سنگھ بھی موجود تھے۔ اجلاس میں دونوں ممالک کے وفود نے ایک دوسرے کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی۔

حکومتِ پاکستان نے جذبہ خیر سگالی کے طور پر 4ماہ سے بند اپنی فضائی حدود بھی بھارت سمیت سب کے لئے کھول دی ہیں۔ علاوہ ازیں ہماری حکومت نے حال ہی میں لاہور کے شاہی قلعہ میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کا پروقار اور شایانِ شان مجسمہ پورے اہتمام کے ساتھ لگوا دیا ہے جو ایک طرح سے سکھ کمیونٹی کو خیر سگالی کا پیغام ہے۔ یہاں اس خدشے کا تذکرہ ضروری ہے کہ ہمارا جذبہ دوستی ہندوستان کی محض ایک کمیونٹی کے لئے ہر گز نہیں ہے یہ پوری ہندوستانی قوم کے لئے ہے۔ مثال کے طور پر حال ہی میں خالصتان زندہ باد اور انڈیا مردہ باد کی ایک ریلی کوئٹہ سے سبی تک نکالی گئی ہے جس میں کسی خالصتانی موومنٹ کے نام نہاد رہنما نے ویڈیو لنک پر جس نوع کا خطاب کیا ہے اس میں بہت سی باتیں قابلِ گرفت ہیں اور پاک ہند بہتر تعلقات میں زہر گھولنے والی ہیں۔ ہمارے ذمہ داران کو چاہئے کہ اِس طرح کے غیر ذمہ دار عناصر کی فوری گرفت کریں کیونکہ آخر کار ایسی منافرت بھری آوازیں اقوام کے درمیاں بد گمانیوں کا باعث بنتی ہیں۔

درویش یہاں یہ واضح کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ اب پاکستان اور انڈیا دونوں کی قیادتوں کو ذمہ دارانہ طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے منفی سوچ کے حاملین اور نفرت کے بیوپاری عناصر سے قطع تعلقی کرنا ہو گی۔ پاکستان جس طرح سکھ بھائیوں کی دلجوئی کے لئے احساسات رکھتا ہے ویسے ہی احساسات اپنے ہندو بھائیوں کے لئے بھی رکھتا ہے جس جذبے سے کرتار پور راہداری پر کام کر رہا ہے اُسی جذبے کا مظاہرہ کٹاس راج مندروں کے حوالوں سے کر رہا ہے۔ پاکستان میں اتنے سکھ نہیں ہیں جتنی ہندو آبادی ہے۔ حالیہ دنوں کشمیر میں وادی نیلم کے مقام پر ہندو تاریخی مندروں کی تزئین و آرائش کے لئے بھی سندھ کی ہندو کمیونٹی کو وزٹ کروایا گیا ہے، سیالکوٹ میں بھی اسی جذبے کا مظاہرہ کیا گیا ہے دیگر بہت سے مقامات جہاں ہندو تاریخی مندر ہیں، حکومت پاکستان ان کی حفاظت اور تزئین کے لئے اپنے اخلاص کا اظہار کرتی رہتی ہے ہمارے وزیراعظم نے حکومت سنبھالتے ہی اپنی پہلی تقریر میں یہ پیغام بھیجا کہ انڈیا ہماری طرف ایک قدم بڑھے گا تو ہم دو قدم بڑھیں گے۔ بی جے پی کے پیدا کردہ مشکل ترین حالات میں بھی پاکستان نے حملہ آور پائلٹ کو غیر مشروط طور پر رہا کرتے ہوئے مثبت پیغام بھیجا تھا۔ جب تباہی کی نیت سے آنے والے کو ہم نے چائے پلا کر عزت سے رخصت کیا تو امن اور سلامتی کے پیغامات و اقدامات آگے بھی چلتے رہیں گے ۔اس سے امید کی جا سکتی ہے کہ نریندر مودی جی بھی اپنی سخت پالیسی بدلنے پر مجبور ہو جائیں گے۔