بات دور تک جائے گی …

July 19, 2019

ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار
اگرچہ موجودہ عالمی حالات اور ان حالات میں پاکستان کی صورتحال کے باعث عالمی عدالت انصاف کی جانب سے کیا جانے والا فیصلہ پاکستان کے لئے ریلیف کی مانند ہے کیونکہ اس فیصلے میں پاکستان کے اس موقف کو درست تسلیم کیا گیا کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن جادھو ایک دہشت گردہے اور اس نے پاکستان کے اندر جاسوسی بھی کی۔ عالمی عدالت نے اس کی سزا کے خاتمے اور رہائی کی بھارتی اپیل بھی مسترد کردی مگر بھارت اس معاملے کو کمال دھٹائی کے ساتھ عالمی عدالت انصاف تک لے جانے، جادھو کو قونصلر رسائی فراہم کرنے اور یہ منوانے پر ضرور کامیاب ہوا ہے کہ پاکستان اس سزا پر نظرثانی کرے! اگر عالمی سطح پر پاکستان کا سفارتی اثر و رسوخ بھارت جیسا ہوتا اوربھارت پاکستان کا دنیا بھر میں امیج خراب کرنے میں کسی حد تک کامیاب نہ ہوگیا ہوتا تو یہ کیس کسی بھی صورت میں عالمی عدالت میں سماعت کے لئے منظور ہی نہیں ہونا چاہئے تھا، جیسا کہ اس کیس کے ایک جج جسٹس تصدق نے بھی اپنے اختلافی نوٹ میں کہا ہے۔ انہوں نے اپنے تحریری اختلافی نوٹ میں صاف طور پر لکھا ہے کہ ویانہ کنونشن میں جاسوس کو قونصلر رسائلی دینے کا کوئی ذکر نہیں۔ تاہم چونکہ بھارت نے اس معاملے پر اپنی سفارت کاری کے ذریعے پہلے فضاء ساز گار بنائی اور پھر پاکستان کو کٹہرے میں لے آیا۔ اس لئے اس کو جتنا ریلیف ملا وہی اس کے لئے بڑی کامیابی ہے جبکہ دیکھا جائے تو پاکستان نے اس معاملے پر اپنے وسائل کے مطابق زیردست دفاع کیا اور عالمی عدالت کو کوئی بھی ایسی رولنگ پاس کرنے سے باز رکھا جس سے جاسوس اور دہشت گرد کا پاکستان کی گرفت سے نکلنے کا کوئی خدشہ پیدا ہوتا! ظاہر ہے کہ پاکستان اس بات کا پابند ہے کہ سزا کے اپنے فیصلے پر نظرثانی بھی کرے، تاہم جب خود مجرم کا اقبالی بیان موجود ہے اور اس کے دو پاسپورٹس بھی موجود ہیں ، سارے شواہد اس کے خلاف جاتے ہیں تو پھر ظاہر ہے کہ نظرثانی میں بھی سابق فیصلے کو برقرار ہی رکھا جائے گا! البتہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ شروع میں تو بھارت کلبھوشن کو اپنا شہری ہی نہیں مان رہا تھا۔ پھر جب اسے سزا ہوئی تو نہ صرف اسے اس نے اپنا شہری تسلیم کیا بلکہ قونصلر رسائی دینے کا مطالبہ بھی کیا۔ بھارت کی فرمائش پر ہی کلبھوشن کی اس کی بیوی کے ساتھ ملاقات بھی کرائی گئی۔ جیسے وہ کوئی جاسوس اور دہشت گرد نہ ہو بلکہ بھولے بھٹکے سے پاکستان کی سرحد پار کرکے آگیا ہو؟ پاکستان کے کئی ایسے شہری بھارتی جیلوں میں موجود ہیں جو غلطی سے سرحد پار کرگئے ماگر اس کے بعد کبھی واپس نہیں آئے بلکہ جو آتے وہ زندہ نہ آتے بلکہ ان کی لاشیں ہی پاکستان کے حوالے کی گئیں۔ کبھی ان پر پولیس تشدد ہوا اور کبھی یہ ہندو انتہا پسندوں کے نشانے پر آکر خالق حقیقی سے جاملے۔ دوسری طرف پاکستان نے چند برس قبل ایک سکھ دہشت گرد کو بہت سی اپیلوں کے بعد رہا کیا جس کے بارے میں یہ کہا جارہا تھا کہ اس نے بھی دہشت گردی نہیں کی۔ رہائی کے بعد واپس وطن پہنچ کر اس نے اپنے پہلے بیان میں ہی یہ کہہ دیا کہ وہ بھارتی جاسوس تھا؟ پاکستان کی خیرسگالی اور رحم دلی کا جواب اس نے اس انداز سے دیا کہ اب پاکستانی قوم کسی بھی دہشت گرد کو پاکستان سے زندہ واپس کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ کلبھوشن پر تو یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ وہ بھارتی بحریہ کا کمانڈر تھا اور اب بھی حاضر سروس افسر ہے تو پھر اس حوالے سے پاکستان پر عدالتی اور سفارتی دبائو کیوں ڈالا جارہا ہے؟ آج یہ کہا گیا ہے کہ اسے قونصلر رسائی دیں اور سزا پر نظرثانی کریں! کل یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ سزائے موت معاف کردیں اور پھر کچھ عرصے بعد ایسے حالات پیدا کئے جائیں گے کہ پاکستان اس دہشت گرد کو رہا کرنے پر مجبور ہو جائے ؟ بات یہاں تک پہنچی ہے تو آگے بھی ضرور جائے گی۔ بھارت اب کلبھوشن جادھو کو سزائے موت نہ دیئے جانے کے بارے میں عالمی سطح پر مہم چلائے گا۔ وہ امریکہ اور اپنے یورپی چہیتوں کے ذریعے پاکستان کو اپروچ بھی کرے گا۔ جبکہ اسلامی دنیا پر اپنے اثر و رسوخ کو بھی استعمال کرے گا! پاکستان کو اپنی کامیابی کے شادیانے بجانے کی بجائے اس حوالے سے آنے والے خطرات سے نمٹنے کے لئے تیار رہنا ہوگا!۔