جاگیردارانہ ذہنیت

July 19, 2019

ویسے تو یہ مقامِ حیرت ہے لیکن مجھے حیرت نہیں ہوتی۔ دانشوری کی کرامات دیکھتے دیکھتے میری حیرت کہیں گم ہو گئی ہے۔ عادی ہونے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بڑی سے بڑی بات پر بھی حیرت نہیں ہوتی، البتہ اگر کبھی صدمہ ہو تو خود کو کمزور پاتے ہوئے معاملہ اللہ پاک کے سپرد کرکے خاموش ہو جاتا ہوں۔ صدمے حادثات سے بھی ہوتے ہیں اور مہربانوں کی ادائوں سے بھی۔ مہربانوں کی ادائوں سے اس لئے کہ ان کی اصل شخصیت بھرم کے پردے چاک کر کے سامنے آجاتی ہے۔ گویا بھرم کا ٹوٹنا بھی باعثِ صدمہ بنتا ہے۔ مثلاً میں بےشمار لکھاریوں کو جانتا بھی ہوں، اکثر حضرات سے شناسائی بھی ہے اور کچھ کو صرف دیکھا اور سنا ہے۔ میرا تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ دانشوروں کی اکثریت جاگیرداری کو شدید نفرت کا نشانہ بناتی ہے اور پاکستان کے جسم کو لگی بیماریوں میں سے جاگیرداری کو سب سے زیادہ خطرناک بیماری سمجھتی ہے۔ میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں جو صحیح معنوں میں جمہوریت کے نفاذ کے لئے جاگیرداری، گدی نشینی اور موروثیت کے خلاف ہیں، جب تک ان قلعوں کو مسمار نہیں کیا جاتا، سچی جمہوریت کی نشوونما نہیں ہو سکتی۔ میرے نزدیک جاگیرداری محض جاگیر کی ملکیت اور بڑی زمینداری کا ہی نام نہیں بلکہ میں اس سے زیادہ خطرناک ذہنی و فکری جاگیرداری کو سمجھتا ہوں۔ جاگیردارانہ سوچ یا ذہن کیا ہوتا ہے؟ جس سوچ، ذہن اور شخصیت میں تحکم، جبر، آمریت، عقلِ کل اور فرعونیت یعنی غرور پائے جائیں وہ جاگیردارانہ ذہن ہوتا ہے اور اس کا مالک ایک جاگیردار ہوتا ہے، چاہے وہ ایک مرلہ زمین کا بھی مالک نہ ہو۔ بڑے بڑے زمیندار، بڑی بڑی جاگیروں کے مالک اور ہزاروں مزارعین کے دیہی خدا اس طرح کی ذہنیت اور اسی طرح کی شخصیت کے مالک ہوتے ہیں بلکہ دیہی خدائوں کے گھروں میں جنم لینے والے بچوں کو بھی اسی سانچے میں ڈھالا جاتا ہے اور قدم قدم پر انہیں برتری کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔ رعب، دبدبہ، اختلافِ رائے سے نفرت اور اپنی بات کو حرف آخر سمجھنا جاگیردار شخصیت اور جاگیردارانہ ذہن کا خاصا ہوتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جاگیرداری، موروثیت اور گدی نشینی سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں اور ایک ہی سخت جان درخت کے طاقتور ’’ٹہنے‘‘ ہیں۔ میں اکثر محسوس کرتا ہوں کہ ہمارے ان دانشوروں، لکھاریوں، اینکر پرسنوں اور صحافیوں کی اکثریت جو ہمہ وقت جاگیرداری کے خلاف جہاد کرتی ہے خود بھی جاگیردار ہے۔ جاگیردار ان معنوں میں کہ وہ اپنے خیالات، تجزیات اور معلومات کی جاگیر کو سب سے اعلیٰ اور افضل سمجھتے ہیں جسے آپ عقلِ کل اور لفظِ آخر کہہ سکتے ہیں۔ اُن کے لہجے، تحریر اور گفتگو کا تحکم، جبر، تکبر، مبالغہ اور رعب بالکل ویسا ہی ہوتا ہے جیسے جاگیردار کا۔ وہ دوسروں کو لاشعوری طور پر از قسم مزارع ہی سمجھتے ہیں جن سے صرف تابع فرمانی اور تعمیلِ ارشاد کی توقع کی جاتی ہے۔ بعض دانشوروں، میڈیا کاری گروں اور زور آور صحافیوں کے ہاتھوں میں نے بھری محفلوں میں اختلاف کرنے والوں کا ویسا ہی ’’حشر‘‘ ہوتے دیکھا ہے جیسا جاگیردار کے ہاتھوں سر اٹھا کر چلنے والے ماتحتوں کا ہوتا ہے، اگر چند لمحوں کے لئے ان کے اندر جھانکیں تو احساس ہوگا کہ یہ دوسروں کی انا توڑنے والے بذات خود انا کا پہاڑ ہیں۔ ان کو زبان کی تلوار سے مجروح کرکے یا دوسروں کو دبا اور دھمکا کر خوشی محسوس ہوتی ہے اور وہ اسے اپنی فتح و کامرانی تصور کرتے ہیں۔ تہذیب، شائستگی اور اخلاق کا سبق دینے والے جب اپنی ’’اصل‘‘ میں ہوں تو ان تمام حدوں کو عبور کر کے گالم گلوچ اور بلیک میل پر اتر آتے ہیں۔ ان کے ہر انداز، گفتگو اور اطوار سے تکبر ٹپکتا ہے اور ہر محفل پر چھا جانے کی خواہش انہیں دیوانگی کے قریب لے آتی ہے۔ میں نے ایسے مناظر پرائیویٹ محفلوں میں بھی دیکھے ہیں اور ٹی وی پروگراموں میں بھی مختلف انداز سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ مطالعہ اور معلومات سطحی لیکن انہیں فقرے بازی اور حددرجہ مبالغے سے بلند آہنگ بنادیا جاتا ہے بلکہ اس پر فتوے کا رنگ چڑھا دیا جاتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کو ان عالم و فاضل حضرات کے ہاتھوں ذبح ہوتے دیکھ کر دکھ بھی ہوتا ہے اور افسوس بھی لیکن کس کس کے دربار شاہی میں حاضر ہوں اور انصاف کی زنجیر کھینچیں؟

ظاہر ہے کہ روشن خیال، جمہوری فکر اور آزاد ذہن جاگیردارانہ انداز کو کسی صورت قبول نہیں کر سکتا، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہر قسم کے دانشور حضرات چاہے وہ لکھاری ہوں، اینکر ہوں یا ٹی وی پر زبانی کاروبار کرتے ہوں، وہ عام طور پر جاگیرداروں کی بدلتی سیاسی وفاداریوں، اقتدار کی حرص و ہوس، اچھے داموں بکنے کی خواہش اور شاہانہ انداز پر وقتاً فوقتاً پتھر مارتے رہتے ہیں۔ جاگیرداروں کی اس عادت یا روایت کو وہ ’’لوٹا ازم‘‘ کا نام دیتے ہیں اور اکثر یہ ثابت کرتے پائے جاتے ہیں کہ ان کی اکثریت پہلے جنرل مشرف کے ساتھ تھی، پھر پی پی پی میں آئی، پھر مسلم لیگ(ن) کی نمک خوار بنی اور اب پی ٹی آئی کی کاسہ لیس بن چکی ہے۔ سوشل میڈیا پر اکثر ایسے وزراء اور اراکین اسمبلیوں کی تصویریں طنزیہ اور عبرت ناک القابات کے ساتھ گردش کرتی رہتی ہیں جو مشرف کی کابینہ میں تھے، پھر پی پی پی یا مسلم لیگ کے تحت وزارت کا حلف وفاداری اٹھایا اور اب پی ٹی آئی میں وزارت لے کر قوم کی خدمت کررہے ہیں۔ ان کے چمکدار چہروں پر جھجک کے آثار ہوتے ہیں نہ شرمندگی کے۔ یہی صورت ان کی وفاداریاں خریدنے اور وزارتیں دینے والوں کی ہے کہ ان کے ضمیر میں بھی اس خرید و فروخت پر بالکل کسک یا خلش پیدا نہیں ہوتی۔ حکمران اپنی اصول پرستی کا ڈھول بھی بجاتے رہتے ہیں اور ہر قسم کے اصول کو پامال بھی کرتے رہتے ہیں۔ ذرا لمحہ بھر غور کیجئے اس صورتحال نے کس طرح ہماری سیاست اور اقتدار کو منافقت کا کھیل بنا دیا ہے۔ اس منافقت یا جھوٹ کے سایے کس طرح ہماری قومی زندگی کے ہر شعبے پر پڑ رہے ہیں۔ کیا خود جھوٹ اور منافقت کا کاروبار کرنے والے جھوٹ کے خلاف جہاد کر سکتے ہیں؟ کیا وہ نوجوان نسل کے رول ماڈل بن سکتے ہیں؟ جواب نفی میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم گاہے بگاہے وفاداریاں بدلنے، قرب شاہی کے خواہاں، اپنی حیثیت کا سودا کرنے، شخصیت میں تکبر و تحکم اور شاہانہ انداز کو جاگیرداروں کی خصوصیات سمجھتے ہیں۔ بلاشبہ ایسا ہی ہے کیونکہ جاگیردارانہ ذہن انہی خصوصیات اور عادات کی عکاسی کرتا ہے۔ اب ذرا دل تھام کے اپنے محبوب لکھاریوں، دانشوروں، اینکروں وغیرہ سے پوچھنے کی جرأت کریں کہ حضور نے اب تک کتنی بار اخبارات، ٹی وی چینلز اور سیاسی ناخدا بدلے ہیں؟ یہ آپ کی چال ڈھال، لہجے، گفتگو اور تحریر میں تکبر، تحکم، نرگسیت، عقل کل اور شاہانہ کروفر کیوں پایا جاتا ہے۔ قربِ شاہی یا قربِ اقتدار ملتے ہی آپ ذہنی توازن کیوں کھو بیٹھتے ہیں اور اقتدار کے نشے میں کیوں بہک جاتے ہیں؟ جاگیردار تو اس سوال پہ مسکرا کے گزر جائے گا لیکن ذہنی جاگیردار آپ کو یوں دیکھے گا جیسے کچا ہی کھا جائے۔ سیاسی جاگیردار اسے جمہوریت کا حسن کہتے ہیں اور فاضل دانشور اسے مارکیٹ اکانومی کا نام دیتے ہیں۔ دراصل یہ سب فنکارانہ پردہ داری ہے؎

عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے