عمران خان کیلئے مشکل ترین مہینہ

July 19, 2019

عمران خان کی حکومت گیارہ مہینے مکمل کر چکی ہے، بارہواں مہینہ شروع ہو گیا ہے۔ انہیں اچھی طرح پتہ ہے کہ بارہویں کھلاڑی کی کیا حیثیت ہوتی ہے، حکومت میں ان کے لئے بارہواں مہینہ، بارہویں کھلاڑی کے مترادف ہو سکتا ہے۔ عمران خان کو بیس جولائی سے بیس اگست تک شدید ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مشکلات کس نوعیت کی ہو سکتی ہیں اس کا جائزہ لینے سے پہلے گیارہ مہینوں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔چونکہ عمران خان بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے کئی کرداروں کو شکست دے کر اقتدار تک پہنچے تھے، انہوں نے عمران خان کا راستہ روکنے کی بہت کوشش کی، ہر حربہ آزمایا، بے شمار مشکلات کھڑی کیں مگر عمران خان تمام تر مشکلات سے گزر کر اقتدار تک پہنچ گئے۔

وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد انہیں ابتدائی ایام میں سخت گیر فیصلے کرنا تھے مگر وہ ایسا نہ کر سکے۔ جب وہ ایسا نہ کر سکے تو ڈری اور سہمی ہوئی بیورو کریسی نے پر پرزے نکالنا شروع کئے۔ عمران خان نے ابتدائی دنوں میں کچھ ایسی غلطیاں کیں جو ابھی تک ان کے گلے پڑی ہوئی ہیں مثلاً انہوں نے وزیر اعظم آفس میں کچھ ایسے لوگوں کو بٹھا دیا جو کام نہ کرنے یا خراب کرنے کی تنخواہ لیتے ہیں، انہوں نے مشیروں کی ایسی فوج رکھی جن کی ٹائیاں کوٹ تو خوبصورت تھے مگر انہیں پاکستانی عوام کے مزاج اور مشکلات کا اندازہ نہیں تھا، بیورو کریسی میں بھی انہوں نے ایسے افراد کا انتخاب کیا جنہیں کام کا وسیع تجربہ نہیں تھا۔ انہیں وسیع تجربہ نہ ہونے کے علاوہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے بارے میں کچھ پتہ ہی نہیں تھا نہ ہی بیورو کریسی کے بڑے حصے سے واقفیت تھی۔ تین اہم بیورو کریٹ رات کو اسلام آباد کے خوشگوار علاقے میں میٹنگ کرتے تھے کہ کل وزیر اعظم سے یہ، یہ فیصلے کروانا ہیں، ان کا گٹھ جوڑ غلط فیصلے کروانے میں کامیاب ہو جاتا۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر صاحب تو رپورٹیں دینے والے بھی تھے۔ سرشام خاص ماحول میں اتر جانے والوں نے بیورو کریسی کے اندر ایسی پوسٹنگز کروائیں جس کا عمران خان کی حکومت کو نقصان ہوا، انہیں کئی بار یوٹرن لینا پڑا۔ وزیر اعظم آفس میں بیٹھے ہوئے مشیر بھی کوئی خاص کام دکھانے میں ناکام ہوئے۔ مختلف محکموں کے لئے بھی مشیر چنے گئے جس سے اراکین اسمبلی بددل ہوئے۔ خاص طور پر انگریز نما مشیروں نے تو عوامی نمائندوں کو منہ لگانا پسند ہی نہیں کیا۔ وزیر اعظم آفس کے اندر سوائے دو مشیروں کے باقی بے کار ثابت ہوئے۔ دو غیرمقبول وزیر اعلیٰ بھی مہنگے پڑے۔

عمران خان کے پہلے وزیر خزانہ اسد عمر نے معیشت کا جنازہ نکال دیا تھا غالباً انہیں معیشت کی الف ب سے بھی واقفیت نہیں تھی اور عمران خان ان کے سحر میں گرفتار تھے۔ یہ بات واضح کرتی ہے کہ عمران خان اچھے مردم شناس نہیں ہیں۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ کے آنے کے بعد وہ معاشی مشکلات نہیں رہیں جو اسد عمر کے دور میں تھیں لیکن مشکلات کا یہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ پاکستان کی خراب معاشی صورتحال کی بڑی ذمہ داری یقیناً سابقہ حکومتوں پر عائد ہوتی ہے، پاکستان کے سابق حکمرانوں نے اوقات سے زیادہ قرضے لئے، کرپشن کی داستانیں رقم کیں اور ملک کو مقروض کر کے چلے گئے۔ گیارہ مہینوں کے حساب میں چھ نکات کا جائزہ لینا بڑا ضروری ہے۔

(1)ڈالر کی تیزی سے پرواز کیوں ہوئی۔ جو لوگ کرنسی کے اتار چڑھائو کو سمجھتے ہیں یقیناً انہیں پتہ ہے کہ آج بھی ڈالر، ایک سو اڑتیس روپے کا ہونا چاہئے یہ بیس روپے کیوں مہنگا ہے۔ اس کی وجہ انتظامی ناکامی ہے۔

(2)آٹا، دال، چینی اور گوشت تو درآمد نہیں کئے جاتے بلکہ یہ ملکی پیداوار ہیں پھر یہ چیزیں کیوں مہنگی ہو گئیں۔ چار ماہ پہلے خریدی گئی گندم اب کیسے مہنگی ہو گئی۔ چینی پر ٹیکس تین روپے لگا اور وہ اٹھارہ روپے مہنگی ہو گئی۔ انتظامی کمزوریوں کی وجہ سے مہنگائی ہوئی جس سے عمران خان کی مقبولیت کم ہوئی۔

(3) عمران خان نے کہا تھا کہ وہ اپنے وزراء کی کارکردگی کا جائزہ لیا کریں گے۔ ناقص کارکردگی کی بنیاد پر وزراء کو فارغ کریں گے، وہ ایسا کیوں نہ کر سکے۔

(4)عمران خان نے کرپشن کے خلاف مہم چلا کر لوگوں سے ووٹ لئے مگر آج ان کے دائیں بائیں ایسے افراد موجود ہیں جن پر کرپشن کا الزام ہے ۔ عمران خان کو بہت سے لوگوں کا پتہ ہے۔ عمران خان ایسے لوگوں سے متعلق کوئی بڑی کارروائی نہیں کر سکے۔ اگر وہ بی آر ٹی پشاور سے متعلق تین چار افراد کو لٹکا دیتے تو لوگ انہیں پسند کرتے مگر دو رخی لوگوں کو پسند نہیں۔

(5) پاکستانیوں کا خیال تھا کہ عمران خان کرپٹ مافیا پر مضبوط ہاتھ ڈالیں گے، انہیں اے کلاس جیلیں بھی نہیں ملیں گی، کرپٹ عناصر کو سہولیات نہیں ملیں گی مگر یہ سب کچھ ہوا، سہولتیں بھی دی گئیں، اس سے لوگوں میں خان صاحب کی مقبولیت کم ہوئی۔

(6) ریاست مدینہ میں جو کچھ نظر آنا چاہئے تھا، وہ نظر نہیں آ رہا۔ اس سے مایوسی بڑھی ہے۔

خواتین و حضرات! گیارہ مہینے اپوزیشن کچھ نہیں کر سکی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی والے سیاسی میدان میں ناکام نظر آئے۔ حکومت کی گیارہ ماہ کی کارکردگی نے یہ کام آسان کر دیا ہے۔ عمران خان حکومت کیلئے بارہواں مہینہ بڑا بھاری ہے وہ اس مہینے میں بارہویں کھلاڑی بھی بن سکتے ہیں۔ حکومت اگلے چند دنوں میں مدرسوں کو سرکاری تحویل میں لینے کا اعلان کر سکتی ہے جس کے جواب میں ایک بڑی تحریک شروع ہو سکتی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے تو ویسے بھی جولائی اگست میں میدان گرم کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ مولانا فضل الرحمٰن نے پنڈی میں کس سے ساڑھے تین گھنٹے ملاقات کی ہے، مجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ مولانا نے اسلام آباد میں کس اہم شخصیت سے دو اہم ملاقاتیں کی ہیں، سنا ہے کہ مولانا افرادی قوت مہیا کریں گے خرچہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کر سکتی ہے، کم ہونے کی صورت میں کہیں اور سے بھی خرچہ آ سکتا ہے۔ مریم اور بلاول کے باعث تو ہلکی پھلکی موسیقی ہو رہی تھی مولانا کے آنے سے بھنگڑا شروع ہو جائے گا۔کچھ بھی ہو سکتا ہے، بارہواں مہینہ بڑا بھاری ہے۔ مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اقتدار ن لیگ یا پیپلز پارٹی کو مل جائے گا، زیادہ خوش ہونے کی ضرورت بھی نہیں۔ کل سے یہ مہینہ شروع ہو جائے گا یعنی بیس جولائی سے بیس اگست۔ انتظار کیجئے۔ ابھی تو ایک شخص نے اسلام آباد کے چکر لگانا شروع کئے ہیں۔ چند دنوں تک کام شروع ہو جائے گا۔ آپ فی الحال احسان دانش کے اشعار سے لطف اندوز ہوں؎

دولت میں سکوں، حسن میں ایثار کا جذبہ

سو بار تجھے کہہ جو دیا ہے کہ نہیں ہے

آ جائو گے حالات کی زد پہ جو کسی دن

ہو جائے گا محسوس، خدا ہے کہ نہیں ہے