ریلوے کی بدحالی۔۔۔۔ذمہ دار کون؟

July 19, 2019

ریل کی بحالی، قوم کی خوشحالیریل کا سفر آرام دہ اور آلودگی سے پاک ہےمحنت سے کام کریں اور ریلوے کی سروس کو عمدہ بنائیں یہ وہ نعرے ہیں جو عموماً پاکستان ریلوے کے آفس میں لکھے ہوتے ہیں۔ لیکن افسوس انسانی جان کی قیمت " پندرہ لاکھ" مقررکرکے اور انسانی غلطی گردانتے ہوئے دفتری فائل بندکردی جاتی ہے۔ حادثہ چاہے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔ انگریزوں کے بنائے ہوئے ریلوے نظام میں بجائے بہتری کے بدتری ہی آتی جارہی ہے۔ سب سے بڑا عذاب " وقت کی پابندی" نہ ہونے کا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ روڈ ٹرانسپورٹ کو سپورٹ کیا گیا اور لوگ ریلوے سے منتقل ہوکر شہروں کے درمیان سفر سڑک کےذریعہ کرنے لگے۔ لیکن پیٹرول کی قیمت میں اضافہ اور مسلسل مانگ میں اضافہ کی وجہ سے شہروں کے درمیان چلنے والی روڈ ٹرانسپورٹ کے کرایہ میں خاطرخواہ اضافہ ہوگیا۔ یوں آرام دہ سفر نہ ہونے اور مہنگاہونے کی بنیاد پر لوگ دوبارہ ریلوے کی طرف متوجہ ہوئے۔ کیونکہ ریل کا سفر " آرام دہ، سستا اور محفوظ" سمجھا جاتا ہے۔ لیکن مسلسل حادثات، جن میں ریل کاپٹری سے اترنا، دو ٹرینوں کے درمیان ٹکراؤ، مسافر ٹرین کا کھڑی مال گاڑی سے ٹکرانا، ریلوے پھاٹک کی جگہ پھاٹک کا نہ موجود ہونا اور اگر موجود ہوں تو بند نہ ہونا ایسے میں ریل اور روڈ ٹریفک کا ٹکراؤ شامل ہیںجس کی وجہ سے ریلوے مسلسل خسارہ سے گزررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پر اخراجات زیادہ آتے ہیں۔ اور آمدنی میں کمی ہوتی جارہی ہیں۔ لیکن 2013سے اس میں کچھ بہتری آئی تھی۔ خاص طور پر " ریلوے کے اوقات کار" میں۔ مالیاتی سال 2013میں 12فیصد ٹرینیں وقت پر چلیں، 2014میں 27فیصد ، 2015میں 53فیصداور 2017 میں تقریباً70فیصد ٹرینیں وقت پر چلنے لگیں۔ جس کی وجہ سے ریلوے کی آمدنی میں خاطرخواہ اضافہ ہوا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اسی وقت 16بڑے ریلوے اسٹیشنوں کی تجدیدنو(renovate)کی گئی۔ امید ہوچلی تھی کہ شاید حالات کچھ بہترہوجائیں لیکن افسوس نئے وزیرکوریلوے کے معاملات سے زیادہ " سیاستدانوں کی درستگی" کی فکر ہے۔ موصوف میڈیا پر آکر یا توسیاستدانوں کو للکارتے ہیں یا پھر مستقبل سے ڈرارہے ہوتے ہیں۔ لیکن ایک مہینے کے اندر دو بڑے ریلوے کے حادثات ہونے کے باوجود (جن میں قیمتی جانوں کے ضیائع کے علاوہ زخمیوں کی بھی لمبی فہرست ہے) وزیر موصوف نے میڈیا کے سامنے آکر کوئی بیان نہ دیا صرف افسوس، ازالہ کے لیے مدد کا اعلان اور انسانی غفلت کا نتیجہ(بغیر کسی تفتیش کے) قرار دے کر بری الذمہ ہوگئے۔ کتنی بے حسی کی بات ہے کہ ریلوے کا اتنا بڑا نظام ایک انسانی غلطی کا محتاج ہوکیسے ممکن ہے؟ ریل گاڑی کا ڈرائیور سگنل ٹاور کا محتاج ہوتا ہے۔ کوئی فیصلہ خود نہیں کرتا۔ تو کیسے ممکن ہے کہ جو سگنل اس کو دیا جائے وہ اس کے برخلاف کرلے۔یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ریلوے کی تاریخ اس سے بھری پڑی ہے کہ غلط سگنل کی وجہ سے ٹرین کھڑی مال گاڑی سے ٹکراگئی۔ ایسے میں کیس فوراً ڈرائیور کےخلاف رجسٹرکردیا جاتا ہے بھلے سے کتنا ہی ماہر کیوں نہ کہلاتا ہو۔ جس کا کام اسپیشل ٹرین چلانا ہو جو کہ ریلوے کے اعلیٰ عہدیداران یا VIP شخصیات کے لیے چلتی ہے۔ یعنی ریلوے کے ـــ" نظام کو غلط"نہیں کہاجاسکتا۔ ہاں "انسانی غلطی "کااہتمام ہر طور ممکن ہے۔ جبکہ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق 2016 میں تین سوملین روپے سگنلنگ سسٹم کو اپ ڈیٹ کرنے پہ خرچ کئے گئے تھے۔ایسے میں کیا ٹرینوں کے شیڈول پر عملدرآمد نہ ہونابھی "انسانی غلطی" ہے؟ 2017میں جب 70فیصد سے زائد ٹرینیں وقت پر چلاکرتی تھی۔ اب 2019میں ٹرینوں کا شیڈول بری طرح متاثر ہوچکا ہے۔ چار سے 10گھنٹے ٹرین کا لیٹ ہونا کوئی معمول بات نہیں۔ اس پرستم ظریفی یہ ہے کہ پلیٹ فارم پر بیٹھنے کی، ویٹنگ ایریا اور باتھ روم کی سہولیات نہ ہونے کے برابرہیں۔ یوں ٹرینوں کا لیٹ ہونا مسافروں پہ بہت بھاری پڑتا ہے اور وہ بہت " اذیت اور کوفت" سے گزرتے ہیں۔ کیا اسی اذیت اور کوفت سے گزرنے کی کیفیت کو " عوام کی خدمت" کہتے ہیں؟ مسئلہ کا حل اسلام آباد سے کراچی آئے دن نئی ٹرین چلانے سے ممکن نہیں ہے۔ بلکہ ریلوے کے نظام میں جدیدت اور ٹریننگ کی اشد ضرورت ہے۔ جدید آلات لاکر لگادینے سے نظام جدید نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے چلانے والوں کی اس پر مکمل دسترس حاصل نہ ہو۔ لہذا ٹریننگ کی بہت ضرورت ہے خاص طور پر ڈرائیور اور سگنل کنٹرول روم کی اور ان کے درمیان معاونیت بھی بہت ضروری ہے۔ بالکل اسی طرح ٹرینوں کے لیٹ ہونے پہ مسافروں کو پیشگی آگاہی کا کوئی نظام نہیں ہے۔ اور جب مسافر رابطہ کرکے معلومات لینا چاہیں تو انکوائری اور انفارمیشن پہ بیٹھے ہوئے لوگوں کے پاس کوئی معلومات نہیں ہوتیں ایسے میں حالات بجائے درست سمت میں جانے کے اور بگڑتے چلے جائیں گے۔ دعوؤں سے نہیں ارادوں سے ادارے سنبھلتے ہیں۔ ابھی بھی وقت نہیں گیا۔ ارادہ کرلیجئے جیسا ارادہ سیاستدانوں کو للکارنے کا کیاہوا ہے!

minhajur.rabjanggroup.com.pk