ٹریک پرانا،تکنیکی عملے کی کمی،بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے :ڈی ایس ریلوے

July 19, 2019

ملتان( فورم رپورٹ، شازیہ ناہید) پاکستان ریلوے تمام ثقافتوں کا امتزاج ہے۔ مالیاتی و افرادی قوت کے حوالے سے ریلوے کا کردار اہم ہے۔ رولنگ سٹاک ، سگنلز ، پل، ٹریک اور انفراسٹرکچر سوسال پرانا ہے۔ ٹریک کی افادیت بالکل ختم ہو چکی ہے۔ اس کی بحالی کے لئے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ریلوے تکنیکی مہارت رکھنے والے افراد تیار کرنے کی نرسری کھو چکا ہے۔ حادثات کے حوالے سے اپنی کمزوریوں کی جانچ کی جارہی ہے کسی غفلت کی صورت میں معافی یا رعایت نہیں ملتی۔ ان خیالات کا اظہار ڈی ایس ریلوے امیر محمد داؤد پوتا نے جنگ فورم میں ’’ ٹرین حادثات کی بڑی وجوہات ‘‘ پر اظہارخیال کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ ریلوے ملتان ڈویژن کے7داخلی اور خارجی پوائنٹس ہیں ۔ جغرافیائی طور پر سنٹرل ڈویژن کی اہمیت بھی رکھتی ہے۔ سندھ کشمور سے راجن پور ، ڈی جی خان، کوٹ ادو، لیہ، بھکر اورکندیاں تک ، پشاور ڈویژن سے منسلک ہیں ۔ سکھر ڈویژن میں خان پور سے ساہیوال تک ملتان ڈویژن آپریٹ کرتا ہے۔ پاکستان ریلوے کا 25فیصد انفراسٹرکچر ملتان ڈویژن کے تحت ہے ، یعنی 4سے 5سو کلو میٹر گاڑی اس ڈویژن میں چلتی ہے اس لئے مسائل بھی اسی حساب سے آتے ہیں۔ مالیاتی و افرادی قوت کے حوالے سے ریلوے کا بڑا کردار ہے۔ پاکستان ریلوے کو تمام ثقافتوں کا امتزاج بھی کہا جاسکتا ہے۔ قریباً 75ہزار افراد ریلوے ملازمین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امپورٹ بل کا70فیصد آئل پر خرچ ہوتا ہے۔ اور اس آئل بل کا 70فیصد ٹرکنگ پر خرچ ہو رہا ہے۔ ایک مال گاڑی قریباً 70ٹرکوں کے برابر ہوتی ہے۔ اگر مال گاڑیوں پر زیادہ کام کیا جائے تو روڈ انفراسٹرکچر اور آئل کے کتنے اخراجات بچائے جاسکتے ہیں۔ مسافر گاڑیوں کی نسبت مال گاڑیوں سے تین گنا زیادہ آمدنی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ رولنگ سٹاک، سگنلز، پُل اور ٹریفک انفراسٹرکچر ایک سو سال پرانا ہے۔ 34ہزار پل ہیں جن کی مرمت چلتی رہتی ہے۔ مسافر ٹرین 110سے120کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اور مال گاڑیاں 80کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی ہیں۔ ٹریک اور سگنل کے حوالے سے زیادہ کام نہیں ہو سکا، لودھراں سے شاہدرہ کمپیوٹر بیسڈ انٹر لاکنگ سسٹم کا ایک پراجیکٹ چل رہا ہے۔ لودھراں تا ساہیوال تک اس پراجیکٹ کو مکمل کرلیا گیا ہے۔ 14میں سے 12سٹیشن فعال ہو چکے ہیں۔ یہ سٹیٹ آف دی آرٹ محفوظ ترین سسٹم ہے۔ ٹریک سسٹم کی بحالی کے لئے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ریلوے بجٹ میں گزشتہ 6سال کے دوران کمی لائی گئی۔ رواں سال بھی 40ارب سے کم کر کے 28ارب کیا گیا ہے جو کہ مسائل کی نسبت بہت کم ہے۔ سی پیک کے چین کے ساتھ 1700کلو میٹر پشاور تا کراچی مین لائن کے انفراسٹرکچر کی تبدیلی کا معاہدہ ہوا ہے۔ یہ 8.3ارب ڈالر کا پراجیکٹ ہے جس میں ٹریک، سگنلز، سٹیشنز، پلیٹ فارمز اور شیڈز پر کام ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ریلوے اپنی تکنیکی افرادی قوت تیار کرنے کی نرسری کھو چکا ہے۔ پرانے لوگ پوری دلجمعی کے ساتھ کام کرتے تھے جبکہ آج کے دور میں مہارت رکھنے والے ملازمین زیادہ نہیں ہیں۔ سی پیک معاہدے کے تحت جدید دور کے تقاضوں کے ساتھ سسٹم تبدل ہو گا تو اس کو آپریٹ کرنے کے لئے سٹاف کی تربیت بھی اسی حساب سے کرنی ہوگی۔حادثات کے حوالے سے اپنی کمزوریوں کی مکمل جانچ کی جارہی ہے۔ انسانی غلطی یا غفلت کہاں ہے۔ سسٹم کو کہاں اَپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ ریلوے اب بھی محفوظ ترین سفر کا ضامن ہے۔ ہمارے پاس اسسٹنٹ ڈرائیورز کی کمی ہے۔70اسسٹنٹ ڈرائیورز کی تربیت شروع ہو چکی ہے۔ 10سال تک مختلف مہارتیں حاصل کرنے کے بعد وہ باقاعدہ ڈرائیور کے طور پر گاڑی چلا سکیں گے۔جاتا سی پیک معاہدے کے تحت نظام کی تبدیلی سے مسافر ٹرین 120سے 160کلو میٹر فی گھنٹہ اور مال گاڑیاں80سے 110کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلائی جائیں گی۔ اتنی رفتار پر گاڑیاں چلانے کے لئے بین الاقوامی قوانین کے مطابق باڑ لگانا ضروری ہوگا۔ پھاٹکوں کی جگہ ٹریفک اور ایریا کے حساب سے انڈر پاس یا فلائی اوورز بنائے جائیں گے۔ پشاور تا کراچی کے تمام پھاٹک ختم کردیئے جائیں گے۔ سی بی آئی سسٹم کے تحت 12اسٹیشنوں لودھراں تا ساہیوال کے درمیان تمام لیول کراسنگز ( پھاٹک) پر جدید ڈیوائسز لگائی گئی ہیں۔ ڈرائیور کو بھی لائٹ سگنلز دکھائے جاتے ہیں۔ اکبر ایکسپریس کے ڈرائیور کا کہنا ہے کہ سگنل گرین تھا حالانکہ جب تک کانٹا تبدیل نہ ہو، گرین سگنل ہو ہی نہیں سکتا، اس حادثے کے بعد کی ابتدائی رپورٹ آ چکی ہے ، ابھی سکھر کے قریب لوگوں کے بیان لئے جارہے ہیں تاکہ پتہ چلایا جا سکے کہ سسٹم کی خرابی تو نہیں تھی۔ جب روٹ نہیں بنا ہوا تھا تو گرین سگنل کیسے ہو سکتا ہے اس کا پتہ چلایا جارہا ہے۔