سوداگر کی بیٹی

July 20, 2019

مختار احمد

ایک آدمی قاضی کے پاس آیاوہ بہت پریشان نظر آ رہا تھا- قاضی نے اس کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا - "تمہیں کیا پریشانی ہے؟"اس آدمی نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا "جناب میں شہر کا مشہور سوداگر ہوں"- قاضی نے چونک کر اسے دیکھا- اس کے کپڑے بے حد معمولی تھے، اور ان میں جگہ جگہ پیوندبھی لگے ہوئے تھے- قاضی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی- وہ اپنے تخت پر سنبھل کر بیٹھتے ہوئے بولا، "اب میں تمہیں پاگل کہوں یا دیوانہ، حالانکہ میں نے اس رئیس سوداگر کو آج تک نہیں دیکھا ،مگر اس کی امارت کے قصّے ضرور سن رکھے ہیں، ایسے کپڑے تو اس کے غلام بھی ہاتھ لگانا پسند نہیں کرتے جو تم نے پہنے ہوئے ہیں"- پھر قاضی نے وہاں پر موجود لوگوں سے سوال کیا - "کیوں بھئی کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات کی گواہی دے سکتا ہے کہ یہ شخص اس شہر کا مشہور سوداگر ہے؟"- ایک آدمی اٹھ کر بولا- "قاضی صاحب اس کی شکل تواس سے بیحد ملتی جلتی ہے، مگر حلیہ اس جیسا نہیں ہے، میںاسے بہت قریب سے جانتا ہوں"-اس خستہ حال شخص نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کہا"قاضی صاحب میرے ساتھ بہت بڑا دھوکہ ہواہے- میں آپ کے پاس انصاف مانگنے کے لیے حاضرہوا ہوں، مگر یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے آپ کو میری باتوں پر یقین نہیں آ رہا ہے- اگر آپ ہی میری نہ سنیں گے تو پھر میں اپنی داد فریاد لے کر کس کے پاس جاوٴں؟"-قاضی سنجیدہ ہو کر بولا- "اچھا تم اپنی کہانی سناوٴ- تمہارے ساتھ انصاف کیا جائےگا"- اس آدمی نے کہا - "جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ میں ایک سوداگر ہوں ادر مجھے شکار کا بے حد شوق ہے- یہ کل کی بات ہے، میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر جنگل شکار کی کی غرض سے گیا- میری بدقسمتی یہیں سے شروع ہوتی ہے- ایک ہرن کے پیچھے میں جنگل میں دور تک نکل گیا- اس ہرن کو تو خیر میں نے شکار کر لیا، مگر اپنا راستہ بھول گیا- بھٹکتا بھٹکتا میں ایک جھونپڑی تک پہنچ گیا جو جنگل ہی میں بنی ہوئی تھی- وہاں میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جو شکل و صورت اور قدوقامت میں ہو بہو مجھ جیسا تھا- میں اپنے ہمشکل سے مل کر بہت خوش ہوا، مگر مجھے کیا پتہ تھا کہ وہ بعد میں مجھے دھوکہ دے گا- اس شخص نے میرے لیے کھانے پینے کا بندوبست کیا اور پھر مجھ سے میرے بارے میں باتیں پوچھنے لگا، جو کہ میں نے سچ سچ بتا دیں- ہم لوگ بہت دیر تک باتوں میں مصروف رہے- رات زیادہ ہو گئی تو اس شخص نے مجھے شربت کا ایک گلاس دیا- گلاس میں موجود شربت سرخ رنگ کا تھا اور اس میں سے بھینی بھینی خوشبو اٹھ رہی تھی- میں نے اس کا شکریہ ادا کر کے شربت کا گلاس منہ سے لگا لیا، ابھی میں نے آدھا شربت ہی پیا تھا کہ میرا سر چکرانے لگا اور میں زمین پر گر پڑا، پھر مجھے کوئی ہوش نہیں رہا- اگلے روز میری آنکھ کھلی تو میں جھونپڑی میں اکیلا تھا، اور یہ شخص وہاں سے غائب تھا- میرے جسم پر یہ پھٹے پرانے کپڑوں تھے- میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے- خیر میں جھونپڑی سے نکلا اور بڑی مشکلوں سے راستہ تلاش کرتا کرتا اپنے گھر تک پہنچ گیا، مگر اس وقت میرے صدمے کی کوئی انتہا نہیں رہی جب میرے ملازموں نے بھی مجھے پہچاننے سے انکار کر دیا اور مجھے دھکے دے کر وہاں سے بھگانے کی کوشش کی- میں ان کو یقین دلانے کی کوشش کرتا رہا ،مگر ان میں سے ایک ملازم نے مجھے زور کا دھکا دیتے ہوئے کہا کہ سوداگر تو گھر میں اپنی بیٹی کے ساتھ موجود ہے، تم دھوکے باز ہو یہاں سے چلے جاوٴ ورنہ ہم ابھی سپاہیوں کو بلا کر تمہیں جیل بھجوا دیں گے- عین اسی وقت میرے گھر کی ایک کھڑکی کھلی اور میں نے دیکھا کہ یہ مکّار شخص میری بیٹی کے ساتھ مجھے دیکھ کر ہنس رہا ہے، پھر اس کے کہنے پر میرے ہی ملازموں نے مجھ پر تھپڑوں اور لاتوں کی بارش کر دی اور مجبوراً مجھے وہاں سے بھاگنا پڑ گیا- اب میں اپنی فریاد لے کر آپ کے پاس آیا ہوں اور انصاف کا طلب گار ہوں"- یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا- قاضی صاحب نے اسی وقت حکم دیا کہ اس شخص کو بھی عدالت میں حاضر کیا جائے جو اس خستہ حال شخص کے بیان کے مطابق سوداگر بن گیا ہے- تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ وہ شخص عدالت میں حاضر ہو گیا- اس کے ساتھ ایک نوجوان اور خوب صورت لڑکی بھی تھی- اس نے حاضر ہوتے ہی کہا- "جناب میں سوداگر ہوں اور یہ میری بیٹی رخسانہ ہے"- قاضی نے اس خستہ حال شخص کی پوری داستان دوہرا دی، جسے سن کرسوداگر بولا- "حضور میں نے تو اس شخص کو زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھا ہے، اس کی شکل حیرت انگیز طور پر مجھ سے مشاہبت رکھتی ہے، مگر یہ شخص انتہائی چلاک لگتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے"- ان دونوں کی باتیں سن کر قاضی سخت الجھن میں مبتلا ہو گیا تھا- اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ان میں سچا کون ہے اور جھوٹا کون- اس نے سوداگر کی لڑکی کی طرف دیکھا تو اسے محسوس ہوا کہ وہ ایک ذہین لڑکی ہے- اس نے اسے مخاطب کر کے کہا- "بیٹی، تم نے پوری داستان سن لی ہے، تم کیا کہتی ہو،ان دونوں میں سے تمہارا باپ کون ہے؟"خستہ حال شخص کی آنکھوں میں ایک چمک سی ابھری وہ پر امید نظروں سے رخسانہ کا چہرہ دیکھنے لگا- عدالت میں تمام لوگوں کی نظریں سوداگرکی بیٹی رخسانہ پر لگی ہوئی تھیں- قاضی کا سوال سن کر رخسانہ کچھ دیر تک چپ رہی پھر اس نے قاضی سے کہا- "جناب قاضی صاحب یہ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس شخص میرا باپ نہیں ہے- میرے ابّا جان تو یہ ہیں"- رخسانہ کے فیصلے کو سن کر خستہ حال شخص کی آنکھوں میں آنسو بھر گئے- قاضی نے کہا - "لڑکی کیا تم اس سلسلے میں کوئی ثبوت مہیا کرسکتی ہو کہ یہ ہی تمھارے ابّا جان ہیں؟"- "جی ہاں میرا ثبوت ایسا ہوگا کہ اس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہو جائےگا- آج سے تقریباً پانچ برس پہلے کی بات ہے، میرے ابّا جان کے ایک دشمن نے ان کے سامنے قسم کھائی تھی کہ وہ تلوار سے ان کی گردن اڑادے گا- ظاہر ہے اس کی بات نے میرے ابّا جان کو بے حد پریشان کر دیا تھا، کیوں ابّا جان آپ پریشان ہوگئے تھے نا؟" رخسانہ نے پوچھا-اس کے باپ نے بڑے زور سے اثبات میں گردن ہلا دی- رخسانہ نے پھر اپنی بات شروع کی - "اپنے دشمن کی بات سے ابّا جان بہت پریشان رہنے لگے- ان کا کھانا پینا بھی چھوٹ گیا اور کاروبار بھی بری طرح متاثر ہونے لگا- ان ہی دنوں میری ایک پری سے دوستی ہو گئی تھی، جب میں نے اس کو اپنی کہانی سنائی تو اس نے وعدہ کیا کہ وہ میرے ابّا کی پریشانی دور کر دے گی- اس نے میرے ابّا کی گردن پر اپنی جادو کی چھڑی لگائی اور بتایا کہ دنیا کی تیز سے تیز دھار والی تلوار بھی ان کی گردن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی- بہر حال ان کا دشمن تو ایک روز آسمانی بجلی گرنے سے جان بحق ہوگیا ،مگر اب میں ثبوت کے لیے یہ ہی بات آپ کے سامنے پیش کر رہی ہوں- آپ جلاد کو بلوا ئیے اور میرے ابّا کی گردن پر تلوار چلوا یے، ان کی گردن نہیں کٹے گی"-بیش قیمت کپڑوں میں ملبوس شخص کا چہرہ سیاہ پڑ گیا تھا- قاضی نے فوراً جلاد کو بلوانے کا حکم دے دیا-رخسانہ دھیرے دھیرے مسکرانے لگی- پھر خستہ شخص سے مخاطب ہو کر بولی - "اب تمہیں اپنے جھوٹ کی سزا مل جائے گی- تم میرے ابّا کی جگہ حاصل کرنا چاہتے تھے نا"-تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ سیاہ فام جلاد ہاتھ میں چمکدار تلوار لیے اندر داخل ہوا، قاضی نے اسے حکم دیا کہ سوداگر کی گردن پر پوری قوت سے وار کرے، مگر ابھی جلاد نے تلوار فضا میں بلند کی ہی تھی کہ سوداگر قاضی کے قدموں پر گر پڑا اور روتے ہوئے بولا- "جلاد کو روکیے ورنہ میری گردن کٹ جائے گی، میں سوداگر نہیں ہوں- اصل سوداگر یہ ہی آدمی ہے"-قاضی نے سپا ہیوں کو نقلی سوداگر کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا- رخسانہ دوڑ کر اس خستہ حال شخص کے سینے سے لگ گئی ،پھر اس نے قاضی کو بتایا کہ وہ بھی یہ فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ اس کا باپ کون سا ہے، اس لیے اس نے ایک کہانی گھڑ لی تھی- قاضی نے رخسانہ کی عقلمندی کے اعتراف کے طور پر اسے اپنی طرف سے پا نچ سو اشرفیاں انعام میں دیں- اس کی ذہانت کی وجہ سے ایک الجھا ہوا مقدمہ منٹوں میں حل ہو گیا تھا-اسی روز پورے شہر میں اس عجیب و غریب مقدمے کی تفصیل پھیل گئی- سوداگر واپس اپنے گھر پہنچ چکا تھا اور اس بات پر پھولا نہیں سما رہا تھا کہ خدا نے اسے رخسانہ جیسی ذہین بیٹی عطا فرمائی ہے۔