سخت فیصلے اور عوام الناس

July 21, 2019

پاکستانی معیشت کے حوالے سے آئی ایم ایف کی نمائندہ ٹیریسا ڈین سانچیز کا اسلام آباد میں منعقدہ سیمینار میں یہ بیان حکومت ہی نہیں پوری قوم کے لئے انتہائی قابل توجہ ہے جس میں انہوں نے اندرونی اور بیرونی اقتصادی محاذوں پر کلیدی اصلاحات کے لئے پالیسی سازی میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں معمولی اکثریت ہونے کے باعث قانون سازی کے لئے اپوزیشن کو اعتماد میں لینا ہو گا ۔حکومت کو اس امر پر لازماً سوچنا اور حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔ٹیریسا ڈین کا یہ تجزیہ حقائق کے عین مطابق ہے کہ پاکستان میں مالی وصولیوں کا 25 فیصد قرض چکانے پر خرچ ہو رہا ہے ،ریاستی ملکیت میں کاروباری ادارے خسارے میں چل رہے ہیں جبکہ شرح مبادلہ کو مصنوعی طور پر مستحکم رکھنے کی کوشش سے زرمبادلہ کے ذخائر میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی آئی ایم ایف کی نمائندہ خاتون نے مسائل کا حل پیش کرتے ہوئے فنانشل ٹاسک فورس کے فیصلوں پر عمل کرنے پر زور دیا۔ یہ باتیں بالعموم ہر ذی شعور پاکستانی سمجھتا ہے لیکن اس وقت آئی ایم ایف کے 6 ارب ڈالر کے قرضے کے عوض ملکی تاریخ کی سخت ترین شرائط قوم کے اعصاب پر مسلط ہیں۔ یہ حالات ایک ہی حکومت کے پیدا کردہ نہیں البتہ قیام پاکستان کی کم و بیش تین دہائیاں گزرنے کے بعد بگاڑ کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان حالات سے چھٹکارے کے لئے دل جمعی کے ساتھ متفقہ طور پر ایک ٹھوس پروگرام پر سختی سے کاربند ہونے کی ضرورت ہے۔ قوموں پر اچھے برے دن آتے رہتے ہیں اور ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ جن قوموں نے اپنی آنے والی نسلوں کو خوشحالی دینے کی خاطر مشکلات برداشت کیں اور سخت فیصلے کئے وہ سرخرو ہوئیں۔ تاہم حکومت وقت کا سخت فیصلوں میں غریب اور درمیانے طبقے کی پریشانیوں کالحاظ رکھنا اور انہیں حتی الامکان تکلیف سے بچانا بھی بلاشبہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998