صحتِ زباں: مسالا، مسالہ، مصالحہ یا مصالح

July 31, 2019

کھانے کو مزے دار یا چٹ پٹا بنانے کے لیے اس میں جو چیزیں ڈالی جاتی ہیں انھیں مسالا یا مصالحہ کہتے ہیں ۔اس لفظ کا ایک املا مصالح بھی ہے۔کچھ لوگ اسے مسالہ بھی لکھتے ہیں۔ اس لفظ کے املا کے معاملے میں دہلی والے اس کی اصل یعنی عربی کی طرف جاتے ہیں اور ’’مصالح ‘‘کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ لکھنؤ والے اس صورت کو بہتر سمجھتے ہیں جو فارسی اوراردو میں رائج ہوگئی ہے یعنی ’’مسالا ‘‘۔

محمد حسین آزاد نے ’’آب ِ حیات ‘‘ میں لکھا ہے کہ مصالح جمع ہے مصلحت کی اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہ ’’ما صُلَح‘‘ کا مخفف ہے ۔پھر لکھتے ہیں کہ ’’ اردو میں گرم مصالح وغیرہ اور ساما نِ عمارت کو بھی کہتے ہیں‘‘۔آزاد کا تعلق دہلی ہی سے تھا لہٰذا انھوں نے ’’مصالح ‘‘کو ترجیح دی۔ فرہنگ ِ آصفیہ نے لفظ ’’مسالا‘‘ لکھ کر بتایا ہے کہ صحیح ’’مصالح ‘‘ ہے اور پھر ’’مصالح ‘‘ کے تحت اس کے معنی تفصیل سے دیے ہیں اگرچہ یہ بھی لکھا ہے کہ یہ مصلحت کی جمع ہے اور اس کے معنی بھلائیاں ، نیکیاں وغیرہ ہیں۔ معنی کے ذیل میں فرہنگ ِ آصفیہ میں مصالح کے ایک معنی لکھے ہیں ــ’’سامانِ عمارت جیسے مٹی گارا ‘‘۔معنی کی دوسری شق میں لکھا ہے ’’پیاز، ادرک، لہسن ، دھنیا وغیرہ جو گوشت میں ڈالا جاتا ہے و ہ مصالح کہلاتا ہے اور جب لونگ، الائچی، زیرہ، سیاہ مرچ وغیرہ ڈالتے ہیں تو اسے گرم مصالح کہتے ہیں ‘‘۔

فرہنگ آصفیہ کے مولف سید احمد دہلوی ، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ، دہلی کے تھے اس لیے اس میں ’’مصالح ‘‘ پر زور ہے لیکن فرہنگ ِ آصفیہ کی تالیف کو سو سال سے زیادہ ہوگئے ہیں۔لکھنؤمیں لکھی گئی ایک معروف لغت ’’نوراللغات ‘‘نے لفظ’’ مصالح‘‘ کا اندراج ہی نہیں کیا اور یہ لفظ نور اللغات میں صرف سین کے املا کے ساتھ یعنی ’’مسالا‘‘ کی صورت میں ملتا ہے۔ پھر تشریح لکھتے ہوئے نوراللغات نے تقریباً وہی الفاظ دہرادیے ہیں جو امیر مینائی نے نوراللغات کے مولف نور الحسن نیر کے نام اپنے ایک خط میں لفظ مصالح اور مسالا پر بحث کرتے ہوئے لکھے تھے ۔ امیر مینائی کی رائے کا خلاصہ کچھ یوں کیا جاسکتا ہے کہ لفظ مسالا عربی کے لفظ مصالح کی اردو یا ہندی صورت ہے ۔ عربی میںیہ مصالحت کی جمع ہے۔ فارسی والے بطور واحد استعمال کرتے ہیں اورکسی چیز کے لوازمات کو یا تیاری میں درکار ضروری چیزوں کو مسالا کہتے ہیں۔چونکہ امیر مینائی کا تعلق بھی لکھنؤ سے تھا اس لیے انھوں نے بھی ’’مسالا ‘‘کو ترجیح دی ہے۔

البتہ اردولغت بورڈ کی لغت میں یہ لفظ دو الگ الگ مقامات پر درج ہے ایک بار ’’مسالا‘‘ کی صورت میں اور دوسری بار ’’مصالَح ‘‘کی شکل میں مگر کہیں وضاحت نہیں ہے کہ کون سا درست ہے یا کس کو ترجیح حاصل ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ بورڈ نے مصالِح (لام کے نیچے زیر) کے اندراج میں وضاحت کی ہے کہ یہ مصلحت کی جمع ہے اور مصالَح (لام پر زبر) کے اندراج میں اسے مسالا کے معنی میں لکھا ہے۔تاہم لکھنؤ کے بیش تر لغت نویسوں اور شعرانے اس کااملاسین کے ساتھ یعنی مسالا لکھا ہے ۔ یہاں تک کہ منیر شکوہ آبادی (جن کی شعری تربیت ناسخ اور رشک جیسے لکھنوی شعرا نے کی تھی) نے اپنی ایک غزل میں کالا اور پالا کے قافیے کے طور پر مسالا استعمال کیا ہے ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس کا املا چاہے جو بھی کیا جائے اس کا تلفظ کالا اور پالا ہی کی طرح یعنی مسالا کیاجاتا ہے۔لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اس کا املا بھی اس کے تلفظ کے مطابق کیا جائے اور اسے مسالا لکھا جائے۔

ڈاکٹر عبدالستار صدیقی جیسے جید عالم ِ زباںبھی اس بات کے قائل تھے کہ اس کو اردو میں ’’مسالا ‘‘ ہی لکھنا چاہیے ۔ عبدالستار صدیقی نے اس ضمن میں جو کچھ لکھا ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس لفظ کو مسالا لکھنا چاہیے کیونکہ مصالح تو مصلحت کی جمع ہے اور ہمارے لفظ (یعنی ہم اردو میں جن معنوں میں لفظ مسالا استعمال کرتے ہیں) کو ان معنوں سے اصلاً تعلق نہیں۔مزید یہ کہ مصالح کا تلفظ بھی مختلف ہے۔ یہی حال مصالحہ کا ہے ۔ اس کا بھی تلفظ مختلف ہے۔ بلکہ عربی میں مصالحہ یا مصالحۃ کے معنی تو مصالحت کے ہیں یعنی دو لڑنے والوں کے درمیان صلح۔

رشید حسن خاں کا بھی یہی کہنا ہے کہ اسے مسالا لکھنا چاہیے ۔ بعض لوگ اس لفظ کے آخر میں ہاے مختفی (یعنی ’’ہ‘‘) لکھتے ہیں اور اس طرح اس کا املا ’’مسالہ ‘‘ ہوجاتا ہے لیکن رشید حسن خاں کہتے ہیں کہ یہ بھی غلط ہے اور اسے ’’مسالا‘‘ ہی لکھنا چاہیے، چاہے’’ مسالا ‘‘کو جن معنوں میں بھی استعمال کیا جائے۔

’’مسالا‘‘ کے ایک معنی گوٹا کناری کے بھی ہیں یعنی چمک دمک کے لیے کپڑوں کے کنارے پر جو چیز لگائی جاتی ہے اسے مسالا کہتے ہیں اوراس کا ذکر جان صاحب نے اپنے ایک شعر میں ’’مسالا مسک گیا ‘‘ کرکے کیا ہے۔ نیز خربوزے کے بیج اور کھوپرا وغیرہ ملا کر جو چیز کھائی جاتی ہے اسے بھی مسالا کہتے ہیں۔ اسی طرح پان کی بجاے الائچی، لونگ اور چھالیہ وغیرہ ملا کر بنائے ہوئے مرکب کو بھی مسالا کہا جاتا ہے۔ کسی مقالے یا کتاب کی تیاری میں جو لوازمہ یا مواد درکار ہوتا ہے اسے بھی مسالا کہتے ہیں، مثلاً کتاب کا مسالا تیار ہے۔ مختلف مرکبات سے تیار کردہ تیل کو مسالے کا تیل کہتے ہیں، اس کی خوشبو بہت تیز ہوتی ہے۔

خلاصہ اس ساری بحث کا یہ ہے کہ ماہرین کی رائے میں موجودہ دور میں ’’مسالا‘‘کو ترجیح حاصل ہے اور اس لفظ کے جن مرکبات کا اوپر ذکر ہوا ہے ان میں بھی ’’مسالا ‘‘لکھنا چاہیے۔ اسی طرح گرم مسالا، بارہ مسالے کی چاٹ، فلاں کمپنی کے مسالے اور مسالے دار لکھنا چاہیے۔