مصنوعی ذہانت کے دور میں STEM کی اہمیت

August 04, 2019

اس بارے میں اب کوئی ابہام نہیں رہا کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ نوکریوں کے مواقع STEM (سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور میتھ) میں مہارت حاصل کرنے والے نوجوانوں کے لیے پیدا ہورہے ہیں۔ ورلڈاکنامک فورم کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق آئندہ 4سے 5سال کے دوران مصنوعی ذہانت (AI)، مشین لرننگ اور ڈیٹا میں مہارت رکھنے والے افراد کے لیے نوکریوں کے سب سے زیادہ مواقع پیدا ہونگے۔ ورلڈاکنامک فورم کا تخمینہ ہے کہ عالمی جاب مارکیٹ میں آنے والی ان تبدیلیوں کے نتیجے میں58ملین نئی نوکریوں کے مواقع پیدا ہونگے۔ 75ملین موجودہ نوکریاں ختم ہوجائیںگی، تاہم ڈیجیٹل انٹرپرائز133ملین نئی نوکریوں کے مواقع پیدا کریںگی۔ جن شعبوں میں سب سے زیادہ نئی نوکریاں پیدا ہونگی، ان میں ڈیٹا انالسٹ اور سائنسدان، مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ اسپیشلسٹ، سوفٹ ویئر اور ایپلی کیشن ڈیویلپر و انالسٹس اور ’بِگ ڈیٹا اسپیشلسٹ‘ شامل ہونگے۔ تاہم اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ آنے والے برسوں میںیہ مواقع مختلف ناموں سے سامنے آسکتے ہیں۔

ماہرینِ تعلیم اور انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے افراد کا خیال ہے کہ صرف STEMمیں مہارت رکھنا ہی کافی نہیں ہوگا۔ ان کا مؤقف ہے کہ عملی زندگی میں شروع کرنے والے افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس بات سے اچھی طرح باخبر ہوں کہ لوگوں کے ساتھ بات چیت اور میل جول کیسے رکھنا ہے اور یہ کہ وہ کام کی جگہ پر سامنے آنے والے چینلنجز سے کس طرح نمٹتے ہیں۔

امریکن ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف سائنس کی ایجوکیشن اور ہیومن ریسورس پروگرام کی سربراہ شیرلی میلکم کہتی ہیں، ’ہمیں نوجوانوں کو نہ صرف یہ سِکھانا ہے کہ STEM میںمہارت کی کتنی اہمیت ہے، ساتھ ہی انھیںاس کا بھی علم ہونا چاہیے کہ ایک ڈیجیٹل آرگنائزیشن میں کامیابی کس طرح حاصل کرنی ہے‘۔ میلکم کہتی ہیں کہ مصنوعی ذہانت اور ڈیجیٹل فیوچر میں کامیابی کے لیے ہمیں اپنی ورک فورس کو یہ سِکھانا ہوگا کہ مختلف سوچ کو کس طرح پروان چڑھانا ہے۔ ’ان مسائل سے نمٹنے کے لیے ہمیں تعلیم پر نئے سرے سے سوچنا ہوگا۔ طلبا کو صرف 2سال کے پروگرام میں ڈالنا کافی نہیںہے۔ آپ نے ان کی تعلیم جلد شروع کرنی ہے اور انھیں ڈبوں میں بند نہیں کرنا۔ آپ کو انھیں وسیع مضامین، موضوعات اور مسائل سے روشناس کروانا ہوگا‘۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کے لیے تدریس کے نئےلائحہ عمل اختیار کرنا ہونگے۔ صرف مضمون کے بارے میں جانکاری حاصل کرنا کافی نہیںہے۔

ڈیجیٹل اور AIکے دور میں جن مضامین کی بہت زیادہ اہمیت بڑھ جائے گی، اس میں یہ سوال اہم ہونگے کہ ’ہم دوسرے لوگوں کے ساتھ کس طرح کام کرتے ہیں؟‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ مستقبل میں زیادہ تر لوگ آج کے مقابلے میں زیادہ ٹیموں میں کام کریں گے۔ ’ہم آلات کے ساتھ کس طرح کام کرتے ہیں؟‘ مستقبل میں انسانی کاموں میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور اآلات کا کردار بڑھ جائے گا اور ایسے میں لوگوں کے لیے یہ جاننا انتہائی اہم ہوگا کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ان آلات کو کس طرح استعمال میں لاتے ہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ ماضی میں ٹیکنالوجی نے غالباً نچلے درجے کی نوکریوں کی جگہ لی ہے، تاہم مستقبل میں ایسا نہیںہوگا۔ ’مصنوعی ذہانت ان نوکریوں کی جگہ لے گی، جنھیں اس وقت ہم سب سے اچھی اور ترقی کی ضامن نوکریاں تصور کرتے ہیں اور درحقیقت ان میں ترقی کے مواقع ہوتے بھی ہیں۔ میلکم بتاتی ہیں کہ باڈی اسکین میں مصنوعی ذہانت استعمال کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ ریڈیالوجسٹ کو نئی مہارت حاصل کرنا ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے ریڈیالوجسٹ کو حاصل ہونے والی معلومات کا ذریعہ اور طریقہ، دونوں مختلف ہونگے، اس کے لیے سب کو کم از کم اس حد تک نئے ہنر اور نئی مہارت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ مستقبل کی ان ضروریات کو ٹریننگ کے بجائے تعلیم میں شامل کرنا ہوگا۔ مستقبل میں لوگوں کو کاروبار میں نئی سوچ کو فروغدینے اور ترقی کے لیے ڈیٹا ’کوڈ‘ کرنےاور اس کا سائنسی جائزہ لینے کی صلاحیت بھی ہونی چاہیے۔

ڈاکٹر ڈیوڈ اے بِرے انفارمیشن ٹیکنالوجی مقرراور مصنف ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’مصنوعی ذہانت اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے عہد میں لوگوں کے لیے دوسرے لوگوں کے ساتھ بات چیت اور میل جول رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ مستقبل میں لوگوں کو نہ صرف مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ سے بات کرنا ہوگی بلکہ دوسرے مرحلے میں مشین لرننگ بھی دوسرے لوگوں سے بھی میل جول رکھے گی، اس لیے مستقبل میں ایسے رویے سامنے آسکتے ہیں، جو اس سے پہلے کبھی نہیںدیکھے گئے ہونگے‘۔

ڈاکٹر ڈیوڈ اے بِرے، مستقبل کی اس غیریقینی کو اس بات سے جوڑتے ہیںکہ کوئی نہیں جانتا کہ مشینوں پر بڑھتے دارومدار کے کیا نتائج سامنے آئیں گے۔ ’ہرچندکہ مستقبل میں مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ کے ذریعے کام کے میدان میں بہتر نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے، تاہم کوئی بھی یہ بات اتنے وثوق سے نہیںکہہ سکتاکہ کوئی غیرمتوقع چیز پیش نہیں آئے گی، جو کہ نصابی کتب میںنہ لکھی ہو‘۔ ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا اس وقت ان سوالات کے جواب تلاش کرنے پر کام نہیںکررہی، تاہم دنیا کو سیکھنے کی عادت کو نہیںچھوڑنا چاہیے۔