مستقبل کی تعلیم یا تعلیم کا مستقبل؟

August 04, 2019

2012ء میں استنبول میںہونے والی ایک تعلیمی کانفرنس میں گوگل ایگزیکٹو کوزی نیمر سے’’تعلیم کے مستقبل‘‘ کے بارے میںسوال پوچھا گیا تو ان کا جواب تھاکہ مستقبل میںتعلیم استاد کے بغیر(Teacherless) ہوگی اور پھر کوزی نے بنا استاد تعلیم کی اہمیت کی وضاحت کچھ یوںکی ، ’’ ہماری گوگل ٹیم ان طریقوں کو تلاش کررہی ہے، جن کے تحت افریقہ میںلوگوں کو تعلیم فراہم کی جائے، لیکن چند ایک اساتذہ ہی ہیںجو افریقہ جانا چاہتے ہیں اور صرف افریقہ ہی نہیںبلکہ اساتذہ تو سربیا، بنگلہ دیش یا ایمیزون کے جنگلات کے علاوہ بھی سینکڑوںایسے ممالک یا شہر ہیںجہاںوہ نہیں جانا چاہتے۔ ہمارے پاس اتنے ٹیچرز نہیںہیںجو کروڑوںلوگو ںکی علم کی پیاس بجھا سکیں۔عالمی سطح پر ٹیچرز کی قلت کی وجہ سے جہالت کا اندھیرا بڑھتا جارہاہے۔ آنے والے عشروںمیں، اگر ہم اپنے اور سیکھنے کی ہرچیز کے درمیان ایک ٹیچر رکھ دیں، تو ہم اتنی تیزی سےوہ علم نہیںسیکھ پائیںگے، جو مستقبل کی مانگ کو پورا کرنے کے قابل ہوگا‘‘۔

ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو ہمیںتعلیم کیلئے ایک’’مقام ‘‘ (اسکول، کالج اور یونیورسٹی) کی ضرورت ہوتی ہے، جہاں اسکولنگ کی سہولتیںہوں اور قابل اساتذہ وہاں علم سے روشناس کرانے کیلئے موجود ہوں۔ شہراو رقصبات اس معاملے میں خوش قسمت ہیںکہ وہاں اعلیٰتعلیم کے تمام لوازمات، فینسی عمارات ، معروف اسکالرز موجود ہیں، کالجوں اور جامعات کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ درس و تدریس کا یہ ماڈل پھلتا پھولتا جارہا ہے۔

گزشتہ دہائی سے پرے دیکھنا شروع کریں توتعلیم کی دنیا جو ’’استاد ‘‘ کے گرد گھومتی تھی اب اس کا مرکز ’’ لرننگ ماڈل ‘‘ یعنی سیکھنے والا ماڈل بن گیاہے۔ ہاں، ’’ مقام ‘‘ ابھی بھی اہمیت رکھتا ہے لیکن اس کی نوعیت اب بدل گئی ہے۔ درس وتدریس کیلئے مہارت درکار ہوتی ہے ۔ ’’بنا استاد‘‘ تعلیم بھی انہیںماہرین کے ذریعے دی جائے گی جو ’’ تعلیمی مواد ‘‘ تخلیق کریں گے ، لیکن اس کی ترویج کیلئے ’’استاد ‘‘کا اس ’’ مقام ‘‘پر ہونا لازمی نہیںہوگا۔

تعلیم اپنی شکل بدل رہی ہے او ر اس نہج پر ہے کہ جہاں استاد کے بغیراسے مصنوعی ذہانت کے ذریعے فراہم کرنے کی خواہش کو عملی جامہ پہنایا جارہا ہے۔ ٹیکنالوجی نے جب سے اپنے پر پھیلائے ہیں،تب سے ہم نے اپنی زندگیوں کو سینسرز اور انٹرنیٹ آ ف تھنگس ڈیوائسزسے جوڑ لیا ہے۔ اب ہم بڑے آرام سے اپنے جسم کے اِن پُٹ اور آئوٹ پُٹ کی پیمائش کرسکتے ہیں۔ مثلاً ہم اب اپنے اندر جانے والی سانس اور اس میںموجود آکسیجن کی شرح، پینے کے پانی کے صاف ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے جسم سے بہنے والے پسینے میںموجود نمکیات تک کی پیمائش کرسکتے ہیں۔ اسی طرح مستقبل قریب میں گوگل سوفٹ ویئرز اس قابل ہونگے کہ وہ یہ سمجھ سکیںکہ کیا ’’ علم ‘‘ہے اور کیا نہیں، کیا ’’پڑھانا ‘‘ ہے اور کیا ’’ نہیں پڑھانا‘‘۔

سائنس فکشن فلموں کی طرح یہ بھی ممکن ہو گا کہ آپ کے دماغ میںچِپ لگا دی جائے یا ایسے اسکینرز آپ کے دماغ سے منسلک کردیے جائیں، جن سے پتہ چل جائے گاکہ آپ کونسی ملازمت کرنے کے اہل ہیں یا آپ کے اندر کون کون سی صلاحیتیںکوٹ کوٹ کر بھری ہوئیہیں یعنی مستقبل میں آپ کو CVدینے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی بلکہ آپ اپنے متوقع ایمپلائر کو اپنے دماغ کی تازہ ترین اِسکَین شدہ کاپی (Scanned Copy)ارسال کررہے ہوں گے۔ جب اس قسم کے طلبہ فیلڈ میںجائیں گے تو ان کیلئے نت نئی ملازمتیں بانہیںکھولے کھڑی ہوں گی۔ ڈیجیٹل دنیا کاروبار کرنے کے طریقے بھی تبدیل کررہی ہوگی اور موجود ہ کاروبار بھی ڈیجیٹل لبادہ اوڑھ چکے ہوںگے۔

ہم آج مصنوعی ذہانت پر بنیاد کرتی تعلیم (Artificial Intelligence-Based Education) کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں اور وہ دن دور نہیںکہ ہمارااوڑھنا بچھونا صرف مصنوعی ذہانت ہو گی۔ ہم مصنوعی ذہانت کے حوالے سے حالیہ پیش رفت دیکھیںتو گوگل کا ڈیپ مائنڈ (DeepMind) ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے، جو اٹاری گیم Breakoutکھیلنے کیلئے استعمال ہوتاتھا۔ اس میںڈیپ مائنڈ کے پاس کوئی ڈومین کی معلومات نہیںہوتی تھی، بس معمولی سی بیک گرائونڈ معلومات ہوتی تھی اور یہ اسکور کو بڑھانے کیلئے آسان سے سوالات کرتاتھا ۔ بحیثیت ایک اعصابی نیٹ ورک (Neural Network) ڈیپ مائنڈاپنے آپ کو سکھاتا اور اپنی ماضی کی غلطیوںسے سیکھتا ہے اور پھر اس گیم میں ماہر ہو تا چلاجاتاہے۔اسی صلاحیت کی بناء پر ڈیپ مائنڈ نے کم سے کم بیک گرائونڈ معلومات کے باوجود اٹاری49کے 2600 ویڈیو گیمز کھیلنا سیکھے اور اس میںماہر ہوتا چلا گیا۔ بالکل اسی طرح تعلیم کی دنیا میںٹیچر بوٹس سامنے آئیں گےاور کسی بھی خطے کے مخصوص کلچر کو اپنے اندر محفوظ کرتے ہوئے ایک ماہر معلم بن جائیں گے اور وہ افریقہ یا افغانستا ن جانے سے انکار بھی نہیںکریں گے۔