مغرب کی ایران کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ کیا جنگ سے بچاؤ ممکن ہے؟

August 05, 2019

واشنگٹن : دیمتری سیواستو پولو ، ایمی ولیمز

ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتہ وار چھٹی گزارنے کے لئے جمعہ کو نیوجرسی جانے کیلئے وائٹ ہاؤس سے نکلتے ہوئے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے آبنائے ہرمز میں ٹینکرز کو قبضے میں لے کر میرے ان خیالات کی توثیق کردی جو وہ طویل عرصے سے ایرانی حکومت کے بارے میں رکھتے تھے۔

امریکی صدر نے کہا کہ اس سے صرف اس بات کا اظہار ہوتا ہے جو میں ایران کے بارے میں کہتا رہا ہوں، مصیبت، مصیبت کے علاوہ کچھ نہیں۔انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ حالیہ اشتعال انگیز واقعات کے سلسلے میں کہ خطے میں جنگ کا کس طرح جواب دینا ہے ،اپنے برطانوی اتحادی سے مشورہ کریں گے۔

واشنگٹن اور تہران دونوں ہی کشیدگی میں اضافہ کررہے ہیں جب سے ایران نے امریکا کی جانب سےدباؤ میں زیادہ سے زیادہ اضافے کی مہم کا جواب دینے کا عزم کیا ہے،امریکا کے اوباما دور کے ایران کے ساتھ کیے گئے جوہری معاہدے سے نکلنے کے بعد ایران کو مذاکرات کی میز پر واپس لانے پر مجبور کرنے کیلئے پابندیوں کی پالیسی اختیار کی گئی ہے۔

گزشتہ میں ایران نے خلیج پر نگرانی کرنے والے امریکی ڈرون طیارے کو مار گرایا، اور دعویٰ کیا کہ ڈرون ایران کی جاسوسی کررہا تھا، متعدد ٹینکرز کو قبضے میں لے لیا اور اس پر غیر ملکی بحری جہازوں پر حملوں کا سلسلہ شروع کرنے کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔

بالخصوص گزشتہ ہفتے ایرانی ڈرون یو ایس ایس باکسر کو تباہ کرنے کے بعد کشیدگی میں تیزی آئی، پینٹاگون نے کہا کہ ڈرون نے انتباہ کو نظرانداز کیا اوروہ امریکی جنگی جہاز کے خطرناک حد تک قریب آگیا تھا۔ جمعہ کو ایرانی پاسداران انقلاب نے برطانوی آئل ٹینکر کو قبضے میں لے لیا اور دوسرے برطانوی گروپ کے زیرانتظام بحری جہاز کو آزاد کرنے سے قبل مسلح عملے کو اس پر سوار کیا۔

1980 کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے خلاف امریکا کی سب سےجارحانہ فوجی مداخلت کے خطرناک حد تک قریب آچکے تھے، ٹینکر جنگ، امریکی ڈرون کو مار گرانے کے جواب میں انہوں نے ایران پرحملے کےاحکامات جاری کیے جنہیں فوری ہی منسوخ بھی کردیاتھا، کے بعد کشیدگی میں حالیہ کمی کے باجود محاذ آرائی بدستور جاری ہے۔

نیویارک میں جمعرات کو بات کرتے ہوئے ایرانی وزیرخارجہ محمد جواد ظریف نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حملہ نہ کرنے کےدانشمندانہ فیصلہ کرنے سے پہلےتک دونوں ممالک جنگ سے چند لمحات ہی دوری پر تھے ۔

تاہم مسلسل اشتعال انگیز اقدامات سے ان خدشات نے جنم لیا ہے کہ ایران دانستہ یا نادانستہ ایسے اقدامات کررہا ہے جن سے ڈونلڈ ٹرمپ کو فوجی کارروائی کے ساتھ جواب دینے سے روکنا کو ناممکن ہوگا۔

ریٹائرڈ امریکی ایڈمرل اور نیٹو کے سابق سپریم کمانڈر جیمز اسٹورڈیس نے کہا کہ واشنگٹن اور تہران تصادم کے راستے پر تھے،کیونکہ ایران نے امریکا کی جانب سے تباہ کن پابندیوں پر ردعمل دیا۔

جیمز ز اسٹورڈیس نے کہا انہیں یقین ہے کہ جنگ کے ممکنہ عوامل میں برا رویہ ، حملے اور ٹینکرز پر قبضہ، جارحانہ سائبر حملے اور امریکی ڈرونز مار گراناہے۔بالآخر امریکا ایرانی بحری اثاثوں پر حملہ کرے گا جیسا کہ 1980 کی ٹینکر جنگ میں کیا تھا جب تک کہ ایران نے اپنی سرگرمیاں روک نہیں دی تھیں۔اس کیلئےتیار رہیں۔

متعدد ماہرین کا خیال ہے کہ واشنگٹن کی جانب سے فوجی کارروائی کیلئے حقیقی خطرے کی لکیر ایسا ایرانی اقدام ہوگا جس میں کسی امریکی کی ہلاکت ہوجائے،عراق میں ہزاروں امریکی فوجیوں کی موجودگی ان امکانات کو بڑھاتی ہے،جہاں ایرانی پراکسیز محدود پابندیوں کے ساتھ کام کررہی ہے۔

سابق بش انتظامیہ کے اہلکار مائیک سنگھ نے کہا کہ ایرانی حملوں کو روکنا مشکل ہوگا کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ فوجی کارروائی کرنے کے حوالے سے کافی محتاط ہیں۔

مائیک سنگھ نے کہا کہ عام طور پر تباہ کن لاگت کے بارے میں فکرمند کرکے آپ انہیں روک لیتے ہیں۔ تاہم وہ پہلے ہی تباہ کن قیمت کا تجربہ کررہے ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ فوجی راستہ اختیار نہیں کرنا چاہتے، لہٰذا ایران شاید یہ سمجھتا ہے کہ اس کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

یقیناََ، حملے سے رکنے کے اپنے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ایک ایسا حملہ جس میں 150 ایرانی ہلاک ہوسکتے ہیں ،ڈرون کی تباہی کے تناسب سے صحیح نہیں تھا۔

حالیہ ہفتوں میں ایران کے زیادہ تر اشتعال انگیز اقدامات کا مقصد امریکی بحری جہازوں کو نشانہ بنانا نہیں تھا۔ان اقدامات کے پس منظر واقعہ یہ ہے کہ ایران کو غصہ ہے کہ برطانیہ نے گریس ون نامی ایرانی بحری جہاز کو قبضہ میں لیا ہوا ہے۔ جو مبینہ طور پر یورپی یونین کی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شام میں ریفائنری کیلئے خام تیل لے کر جارہا تھا۔تاہم حکمت عملی نے نازک منصوبے کو نمایاں بھی کیا ہے کہ ایران کو لازمی تعین کرنا ہوگا کہ امریکا اور شاید اس کی فوج کو بھی کیسے جواب دینا ہے۔

چند ایرانی اہلکار سمجھتے ہیں کہ کسی بھی امریکی شہری کی ہلاکت ایک غیراعلانیہ خطرے کی لکیر تشکیل دے دے گی جو واشنگٹن سے شدید فوجی ردعمل کی حوصلہ افزائی کرے گی۔

اقوام متحدہ کے لیے ایرانی مشن میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے جواد ظریف نے کہا کہ ہم خطے میں کسی امریکی شہری کی ہلاکت نہیں چاہتے ہیں۔

تازہ ترین ایرانی کارروائیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ امریکا کے بحری جہازوں کے ساتھ کسی بھی تصادم سے گریز کررہا ہے۔ایران ابھی بھی خفا ہے کہ برطانیہ نے جبل الطارق کے ساحل سے گریس ون بحری جہاز کو قبضے میں لیا۔

جمعہ کو ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا اور برطانیہ کے درمیان بہت قریبی اتحاد ی کا عزم کیا۔یہ ابھی غیر واضح ہے کہ آیا ایران نے امریکا کے ساتھ فوجی تنازع سے گریز کے لیے اپنی کوششوں کا درست اندازہ لگایا ہے۔

مرکز برائے انٹرنیشنل اسٹڈیز اینڈ اسٹریٹجک میں ایران کے معاملات کے ماہر جان الٹرمین نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں وائٹ ہاؤس کے معروف غیر متوقع اقدامات کے مقابلے میں ایران زیادہ خطرناک انداز میں کردار ادا کرتا نظر آرہا ہے۔

جان الٹرمین نے کہا کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ امریکا کی جانب یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ ایران کو کیسے آشکار کیا جائے کہ وہ زیادہ تر سوچ سمجھ کرکارروائیاںکر رہا ہے۔ایرانیوں کو ابھی بھی معلوم نہیں کہ اس گھیراؤ میں جس میں وہ خود کو دھکیل چکے ہیں اس سے کیسے نکلیں ۔مجھے ایسا لگتا ہے کہ مذاکرات کے علاوہ ایرانیوں کے لیے کوئی اچھا انتخاب نہیں ہے۔

تاہم جواد ظریف نے زور دیا کہ امریکی پابندیوں کے تحت ایران مذاکرات نہیں کرے گا ، اور امریکی حکام نے کہا ہے کہ ایرانی وزیرخارجہ کاانتہا پسندوں پر کوئی اثرورسوخ نہیں ہے جودراصل حکومت چلارہے ہیں۔

جواد ظریف نے یہ کہتے ہوئے پابندیوں کے اثرات کو کم کردیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس سے نکلنے کے بعد بھی ایران طویل عرصے تک قائم رہے گا۔تاہم ٹرمپ انتظامیہ کا ماننا ہے کہ پابندیاں بتدریج ایران کو مذاکرات کی میز تک آنے پر مجبور کردیں گی۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ایران اس وقت مصیبت میں ہے، اس کی معیشت غیرمستحکم ہورہی ہے،یہ تباہ ہونے والی ہے۔

ایک سینئر امریکی اہلکار نے کہا کہ ایران نے اپنی سوچ میں غلط اندازہ لگایا تھا کہ یورپ ڈونلڈ ٹرمپ کو مزید نرم نقطہ نظر اپنانے کیلئے قائل کرلے گا،ایک امید جو امریکا کے قریبی اتحادی یورپی یونین کے ملک برطانیہ کے ساتھ بڑھتی ہوئے کشیدگی سے مزید کمزور ہوتی جائے گی۔

امریکی اہلکار نے کہا کہ انہوں نے سوچا کہ یورپ کا جھکاؤ امریکی صدر کو ان کی موجودہ سوچ کے مقابلے میں نرم نقطہ نظر اپنانےکیلئے قائل کرنے پر ہوگا۔اور میرے خیال میں انہوں نے سوچا کہ پابندیاں اتنی مؤثر نہیں ہوں گی۔ ان کے حالیہ رویئے کیلئے چند وضاحتیں ہیں کہ وہ دوبارہ حساب لگارہے ہیں کہ وہ کتنے طویل عرصے تک اس کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔